• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان کی بہادر مسلح افواج نے ملک کو درپیش اندرونی و بیرونی ہر قسم کے خطرات سے نمٹنے کے لئے اپنی پیشہ ورانہ کردار ہمیشہ حب الوطنی، ایثار اور عزم بالجزم کے ساتھ نبھایا ہے۔ اس پسِ منظر میں پیر کو چیف آف آرمی سٹاف جنرل قمر جاوید باوجوہ کی زیر صدارت منعقدہ کور کمانڈرز کانفرنس کا یہ اعلامیہ لائق تحسین اور 22کروڑ عوام کے حوصلے بلند کرنے اور اپنے روشن اور محفوظ مستقبل پر یقین مزید مستحکم کرنے کا موجب ہے کہ افواجِ پاکستان مشرقی سرحد اور ایل او سی سمیت ہر قسم کے چیلنجز سے نمٹنے کیلئے ہر دم تیار ہیں۔ آئی ایس پی آر کے مطابق کانفرنس میں ملک کی اندرونی و بیرونی سیکورٹی کی صورتحال قومی سلامتی، اسٹرٹیجک حالات اور کشمیر کی مکمل صورتحال کا جائزہ لیا گیا۔ کور کمانڈرز نے اس عزم کا اظہار کیا کہ ہر حال میں ملک کا دفاع کریں گے۔ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے کہا کہ ملکی امن و استحکام قومی اداروں اور افواج پاکستان کی قربانیوں کا مرہون منت ہے۔ یہ قربانیاں ضائع نہیں ہونے دیں گے اور کسی کو مذموم مقاصد کے لئے امن ختم نہیں کرنے دیں گے۔ پاک فوج اداروں کی مدد کے لئے آئین اور قانون کے تحت تفویض کردہ فرائض انجام دیتی رہے گی۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ اہم قومی معاملات پر تمام اسٹیک ہولڈرز کی مسلسل ہم آہنگی دشمن قوتوں کو شکست دینے کے لئے انتہائی ضروری ہے۔ اس حقیقت سے پوری قوم باخبر ہے کہ مشرقی سرحد پر بھارت کی جانب سے جارحیت کا خطرہ منڈلا رہا ہے کیونکہ اس نے جموں و کشمیر پر اپنا غاصبانہ قبضہ برقرار رکھنے کے لئے کشمیری عوام پر عرصہ حیات تنگ کر رکھا ہے اور پاکستان ان کے حقِ خودارادیت کی جنگ لڑ رہا ہے۔ مغربی سرحد پر دہشتگردی کا سلسلہ افغان امن عمل شروع ہونے کے باوجود جاری ہے۔ ایسے میں اندرون ملک سیاسی بحران نے قوم کو تشوش اور بےیقینی کی کیفیت میں مبتلا کر رکھا ہے، خدانخواستہ یہ بحران جو خوش قسمتی سے اب تک پُرامن ہے منفی صورت اختیار کر لیتا ہے تو دشمن طاقتوں کو اس سے فائدہ اٹھانے کا موقع مل سکتا ہے۔ ایسی صورتحال میں قوم کو فوج کی طرف دیکھنا پڑے گا جو ریاست کی سلامتی کی ذمہ دار ہے۔ تاہم سیاسی معاملات کے حوالے سے یہ ایک اچھی پیشرفت ہے کہ حکومت اور اپوزیشن کے درمیان باقاعدہ مذاکرات شروع ہو گئے ہیں۔ پیر کو حکومتی کمیٹی اور اپوزیشن کی رہبر کمیٹی کے ارکان کی ملاقات میں اپوزیشن نے مولانا فضل الرحمٰن کے آزادی مارچ کے تناظر میں پہلی بار اپنا چار نکاتی چارٹر آف ڈیمانڈ باضابطہ طور پر حکومت کو پیش کیا ہے۔ حکومتی ٹیم نے وزیراعظم کے استعفے کا مطالبہ مسترد کر دیا جبکہ پارلیمینٹ کی بالادستی کی مانگ قبول کر لی۔ اپوزیشن کو توقع ہے کہ استعفے کے معاملے پر مزید بات چیت ہوگی۔ اسی دوران حکومت کے اتحادیوں چوہدری شجاعت حسین اور پرویز الٰہی نے مولانا فضل الرحمٰن سے طویل مذاکرات کئے بعد میں نے ’’برف پگھلنے‘‘ کا اشارہ دیتے ہوئے توقع ظاہر کی کہ معاملات جلد سلجھ جائیں گے۔ رہبر کمیٹی کے سربراہ اکرم درانی نے بھی کہا ہے کہ ہم وزیراعظم کے استعفے کے مطالبے سے پیچھے نہیں ہٹیں گے البتہ ہمارے مطالبات کے ضمن میں پیش رفت ہو رہی ہے۔ ادھر وزیراعظم عمران خان نے اتحادی حلقوں کے پارلیمانی ارکان کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے اپنے سخت موقف کا اعادہ کیا ہے اور متنبہ کیا ہے کہ ان کے تحمل کو کمزوری نہ سمجھا جائے جب معاملات سلجھانے کی کوشش ہو رہی ہو تو سبھی جانتے ہیں کہ تحمل ہی سے کام لیا جانا بہتر ہوتا ہے۔ تند و تیز بیانات سے تلخیاں بڑھتی اور افہام و تفہیم کی راہیں مسدود ہونے لگتی ہیں۔ توقع کی جانی چاہئے کہ معاملے کے تمام فریق صبر و برداشت سے کام لیتے ہوئے پارلیمینٹ کو چلانے کا سیاسی راستہ نکالیں گے۔

تازہ ترین