• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
شام کے 5 بجے تھے ہزارہ ٹاوٴن کیرانی روڈ پر زندگی رواں دواں تھی۔ سبزی اور پھل فروش آوازیں لگا کر گاہکوں کو متوجہ کررہے تھے۔ سبزی والا غلام علی پانی کی ایک بوتل سے اپنی ہتھیلی کا پیالہ بنا کراس میں پانی بھر کر ، اپنی سبزی کو خوشنما دکھانے اور تازہ رکھنے کیلئے وقفے وقفے سے پانی کا ترونکا دے رہا تھا۔ وہ عموماً مغرب تک سبزی بیچا کرتا تھا۔ آج اُس نے اپنے بیٹے کو کہہ رکھا تھا کہ وہ اس کے لیے دونوں کاپیاں ضرور لائے گا۔ تاکہ اُسے اسکول سے ڈانٹ نہ پڑے۔ اصغر بار بار اپنی ریڑھی پر پڑے سیبوں کو کپڑیکی ٹاکی سے رگڑ رگڑ کر چمکا رہا تھا۔ وہ سیب کو چمکاتا اپنی ہتھیلی پر رکھتا اور آواز لگاتا گولڈن سیب لے جاوٴ بھائی جان۔ کھاوٴ اور جان بناوٴ ۔ گولڈن سیب بھائی جان تھوڑا رہ گیا ہے۔ پانچ سالہ جمعہ خان اپنی ماں مہ گل کا ہاتھ تھامے اس ریڑھی کے پاس کھڑا تھا۔ مہنگائی کی ماری لیکن ہر ماں کی طرح بچوں کی خوراک کی فکرمند مہ گل اصغر سے سیبوں کا بھاوٴ تاوٴ کررہی تھی۔ 9 سالہ حمید ماں کا پلو کھینچتا ہوا اُسے اسپورٹس کی دکان کی طرف لے جانا چاہتا تھا اُسے تو آج فٹبال خریدنا تھا۔ معصوم بارہ سالہ شگوفہ اپنے سر کی اوڑھنی کو سنبھالتی تو کبھی چھوٹے بھائیوں کو سنبھالنے میں ماں کا ساتھ دیتی کہ کہیں ضد کرتے اوار بھاگتے دوڑتے بچے سڑک پر نہ نکل جائیں اور کوئی رکشہ ، سائیکل سوار یا گاڑی والا انہیں نقصان نہ پہنچا جائے۔ دُکاندار حاجی علی خان اپنے گاہگوں سے ہنس کھیل کر انکی خواہش پر انہیں سودا سلف دے رہا تھا۔ وہ اپنی دُکان پر کھڑے کھڑے شبیر حسین کو کہہ رہا تھا کہ آج دُکان جلدی بند کردوں گا۔ نہ جانے آج صبح سے کیوں مجھے سخت نیند آرہی ہے۔ سات سالہ رقیعہ ، بارہ سالہ کبریٰ اپنی والدہ راضیہ کے ساتھ دُکان سے چوڑیاں اور رنگ دار دوپٹہ خریدنے جارہی تھیں۔ چند روز بعد ان کے اسکول میں مینا بازار تھا۔ آج انہوں نے بڑی مشکل سے اپنی ماں کو راضی کیا تھا۔ وقت کا بہانہ بنا کر بازار نہ آنے والی ماں دراصل اپنی بچیوں کی خواہش کے لیے پیسوں کے بندوبست میں لگی تھی تاکہ بچیوں کو احساس نہ ہو کہ ماں پیسوں کی وجہ سے منع کررہی ہے۔ بچیاں اپنی من پسند خریداری کے لیے جانے پر خوشی سے پھولی نہ سما رہی تھیں۔ ان کی خالہ زہرہ اپنے پانچ سالہ حسین کو لیے اُن کے ہمراہ تھی۔ گل چمن اپنی بچیوں معصومہ اور مدیحہ کے ہمراہ اس بازار میں خریداری کررہی تھی۔ ہزارہ ٹاوٴن کے ساتھ ملحقہ گراوٴنڈ میں بچے کھیلوں سے لطف اندوز ہورہے تھی۔ کوئی عارضی وکٹیں بنا کر کرکٹ کے چوکے چھکے مارنے میں لگا ہوا تھا۔ تو کوئی ہاتھوں کی بند مٹھیوں کو کس کر والی بال کو ضربیں لگا رہا تھا اور بہت سے لوگ اس علاقے کے روایتی کھیل سنگرگ میں پتھروں کا نشانہ لگا رہے تھے ۔ اسی بازار میں کچھ ٹیوشن سینٹرز بھی تھے جہاں نوشیں اور حمیرا بچوں کو ٹیوشن پڑھا رہی تھیں۔ وہ زندگی کی گاڑی کو کھینچنے کیلئے صبح وشام محنت کررہی تھیں۔ وہ اپنے لیے اپنے والدین کے لیے اپنے چھوٹے بہن بھائیوں کے لیے اور اس قوم کے بچوں کے لیے وقت کو جیتنے کیلئے علم کی شمعیں روشن کررہی تھیں۔ اُنکے سامنے علم کے طالب اپنے معصوم ہاتھوں سے پین کو مضبوطی سے پکڑے انکی روشنائی سے لکھ رہے تھے”زندگی شمع کی صورت ہو خدایا میری“ سورج غروب ہونے کو تھا۔ صبح سے محنت کرنے والا مزدور ۔ دُکاندار اور خوانچہ فروش اب جلدی میں تھے۔ سردی میں اضافہ ہورہا تھا ہرکوئی اپنا کام اور کاروبار بند کرکے گھروں کو جانا چاہتا تھا لیکن کس کو کیا معلوم تھا ایک ٹینکر جو پانی کی صورت زندگی لے کر چلتا تھا۔ آج اُن کے لیے موت کا سامان کئے ہوئے ہے اور ہزارہ ٹاوٴن کیرانی روڈ پہنچا دیا گیاہے۔ ڈرائیور نے وہ ٹینکر جسے ٹریکٹر کھینچ رہا تھا۔ یہ کہہ کر سڑک کے کنارے کھڑا کردیا کہ یہ خراب ہوگیا ہے اور اس کیلئے مستری کو لاتا ہوں۔ کیرانی روڈ پر معصوم بچوں اور رنگ دار کپڑے پہنے معصوم بچیوں کی صورت جو زندگی رواں دواں اور ان بچوں کی آوازیں اور قہقہوں کی شکل میں مسکرا رہی تھی وہ خاموش کردی جائے گی اور پھر یہی زندگی ایک دھماکے کے بعد سیاہ دھوئیں ، آگ کے الاوٴ اور چیخ وپکار میں تبدیل ہوگئی۔ ایک مرتبہ پھر درجنوں زندگیوں کو خاموش کردیا گیا۔ معصوم قہقہوں کو آہ وبقا میں تبدیل کردیا گیا۔ میرے پاکستان کو پھر زخمی کردیا گیا۔ اسی لیے آج ہر پاکستانی دہائی دے رہا ہے کہ اٹھارہ کروڑ میں کوئی شخص ہے ، کوئی ادارہ ہے جو میرے پاکستان کو بچا لے۔ میرے پاکستان کی معصوم زندگیوں کو بچا لے۔ کوئی ہے… کوئی …ہے…!
تازہ ترین