• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
میں نے بڑی کوشش کی کہ قرآن پڑھ کر اپنے آپ کو سنّی ثابت کروں مگر ناکام رہا۔ میں نے سورة البقرہ، سورة آل عمران، سورة النساء، سورة المائدہ اور دوسری تمام قرآنی سورتیں پڑھیں مگر مجھے نہ کوئی شیعہ ملا، نہ بریلوی، نہ دیوبندی اور نہ ہی اہل حدیث۔ میں نے کوشش کی کہ اسوہٴ محمدﷺ کو پڑھ کر اپنے آپ کو کسی نہ کسی فرقہ سے جوڑ دوں مگر یہاں بھی مجھے ناکامی ہوئی۔ قرآن حکیم اور نبیﷺ کی زندگی کو پڑھا تو ما سوائے ایک مسلمان (مسلم) کے اپنی کوئی دوسری پہچان نہ ملی۔ کہیں کسی سنّی، کسی شیعہ، کسی بریلوی، کسی دیوبندی، کسی وہابی یا کسی دوسرے کا کوئی ذکر نہیں ملا۔ اگر فرقہ کا کہیں ذکر ہے تو رد کرنے کے انداز میں، ایک گناہ کی صورت میں، ایک تنبیہ کی حیثیت سے، ایک گمراہی کے طور پر۔ جیسے حضرت ابراہیم  ایک مسلم تھے، جیسے اللہ نے اپنے دوسرے انبیاءِ کرام علیہ اسلام کی پہچان یہی رکھی، جیسے رسول پاکﷺ کو بھی مسلمان پیدا کیا ویسے ہی اللہ نے ہمیں بھی صرف اور صرف ایک مسلم پیدا کیا اور ہم کویہی ایک واحد شناحت دی۔اللہ تعالیٰ نے بارہا قرآن میں فرمایا کہ میری اور میرے نبیﷺ کی پیروی کرو۔ حج الوداع کے موقع پر اپنے آخری خطبہ میں حضرت محمدﷺ نے فرمایا کہ آج دین مکمل ہو چکا اور یہ کہ آپﷺ پوری انسانیت کی رہنمائی کے لیے اللہ کی کتاب اور اپنی سنت چھوڑے جا رہے ہیں اور جو کوئی ان دونوں کو پکڑے رکھے گا کبھی گمراہ نہ ہو گا۔ مگر ان واضح احکامات کے باوجود ہم آج مسلمان کے علاوہ سب کچھ ہیں۔ ہم فرقوں میں اس بُرے طریقہ سے بٹ گئے کہ ہماری اصل شناخت ہی گم ہو گئی۔ ہم میں سے ہر شخص کو عام زندگی میں ان سوالات کا سامنا کرنا پڑتا ہے کہ تم کون ہو۔ اگر کوئی جواب دے کہ مسلمان ہوں تو سننے والا مطمئین نہیں ہوتا اورمزید کریدتے ہوئے پوچھتا ہے کہ سنّی ہو یا شیعہ۔ دونوں میں سے جواب کوئی بھی ہو تو مزید سوال پیدا ہوتے ہیں۔ مثلاً اگر آپ سنّی ہونے کا دعویٰ کریں تونیا سوال اُٹھتا ہے کہ حنفی ہو، شافعی ہو، مالکی ہو یا کہ حنبلی۔ اگر کسی نے بول دیا کہ وہ حنفی ہے تو پھر سوال اُٹھتا ہے کہ بھئی آپ دیوبندی یا بریلوی۔ سوالوں کا یہ سلسلہ کہیں رکنے کا نام نہیں لیتا اورہم مزید فرقوں میں بٹتے چلے جاتے ہیں۔ حال ہی میں جیو کے مزاحیہ پروگرام ”ہم سب امید سے ہیں“ میں اس بارے میں ایک خوب خاکہ پیش کیا گیا جس میں فرقوں کی بنیاد پر تقسیم در تقسیم کے اس المیہ کو پیش کیا گیا اور یہ پیغام دیا گیا کہ اگر یہ سلسلہ چلتا رہا تو ہم میں سے ہر شخص اپنے علاوہ ہر دوسرے کوکافر ہی کہنے اور سمجھنے لگے گا۔قرآن تو ہمیں اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھامنے اور آپس میں تفرقہ بازی سے باز رہنے کی تلقین کرتا ہے۔ قرآن تو ہمیں تنبیہ کرتا ہے ، ”اور تم اُن لوگوں جیسے ہرگز نہ ہو جانا جو مختلف ٹکڑوں میں بٹ گئے اور انہوں نے روشن نشانیاں آجانے کے بعد اختلاف کیا یہی وہ لوگ ہیں اُن کے لیے بہت بڑا عذاب ہو گا۔“ (آل عمران)۔سورة الانعام میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ بے شک جن لوگوں نے اپنے دین میں جدائیاں ڈال دیں اور الگ الگ گروہ بن گئے آپﷺ ان کی تو کسی بھی بات میں نہیں ہیں ان کا سارا معاملہ اب اللہ تعالیٰ کے ہاں ہے اور وہ انہیں بتا دے گا کہ وہ کیا کچھ کرتے رہے ہیں۔ اسی طرح سورة الانفال میں مسلمانوں کو ہدایت دی جاتی ہے کہ اللہ تعالیٰ اور اُس کے رسولﷺ کی فرماں برداری کیا کرو اور آپس میں جھگڑا مت کیا کرو ورنہ تمھاری ہمتیں پست اور ہوا اُکھڑ جائے گی ۔نبیﷺ کی ایک حدیث کا مفہوم ہے کہ ایک جنگلی بھیڑیا بھی اگر بکریوں کے ایک ریوڑ میں گھس جائے تو وہ اتنا نقصان نہیں پہنچاتا جتنا دین میں تفرقہ بازی پہنچاتی ہے۔ مگر ہماری ضد، انا، تکبر اور جاہلیت کا یہ عالم ہے کہ ہم تو اللہ اور اللہ کے رسولﷺ کے احکامات کے برعکس نہ صرف فرقوں میں بٹ گئے بلکہ اپنے آپ کو پکا اور سچا مسلمان ثابت کرنے کے لیے ایک دوسرے پر کفر کا فتوے لگا کر قتل تک کرنا شروع کر دیا۔ اسلام تومنافقین جن کی نشاندھی خود اللہ تعالیٰ نے نبیﷺ کے لیے کی اور جو اسلام کے بدترین دشمن تھے کو بھی قتل کرنے کا حکم نہیں دیا۔ محمدﷺ نے تو منافق اعظم عبداللہ بن اُبی کو بھی ایک موقع پر اُس کے صحابی بیٹے کے ہاتھوں قتل ہونے سے بچایا۔مگر ہم ہیں کہ فرقوں میں بٹ کر ایک دوسرے کے خلاف نفرت اس حد تک بڑھا دی کہ دین کی اصل تعلیمات کو ہی پس پشت ڈال دیا۔ کیا ہم اللہ کی اس بات کو بھول چکے کہ ایک انسان کا قتل پوری انسانیت کا قتل ہے۔ کیا آج ایک مسلمان کا خون اس قدر بے توقیر ہو گیا کہ ہمیں یہ بھی یاد نہ رہا کہ پیغمبر اسلامﷺ نے ایک کلمہ گو کی جان اور مال کی حرمت کو کعبہ کی حرمت پر فوقیت دی۔ ہم تو نبیﷺ کی اس حدیث کو بھی بھول گئے جس میں آپﷺ نے اپنے صحابہ کو ستاروں کی مانند کہا جن سے ہمیں رہنمائی حاصل کرنا ہے۔ قرآن پاک میں خلفاءِ راشدین اور صحابہ کرام کی عزت اور مرتبہ کے بارے میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ میں اُن سے راضی ہوا اور وہ مجھ سے۔ اسی طرح آپﷺ کی ازواجِ مطہرات کو امہات المومنین کہا گیا اور جن کی عزت و تکریم ہر مسلمان پر لازم ہے۔ فرقہ واریت کی آگ میں کوئی اتنا کیسے بھڑک سکتا ہے کہ صحابہ کرام اور امہات المومنین کے بارے میں کوئی نازیبا بات کر جائے۔ یہ حکومت کی بنیادی ذمہ داری ہے کہ وہ عوام کو قرآن اور حدیث پڑھائیں تا کہ ہم سب اپنی اصل پہچان(مسلمان) کو پا لیں اور فرقہ واریت کی آگ سے جان چھڑا سکیں۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی ریاست کی ذمہ داری ہے کہ قانون سازی کر کے ایسے افراد کو سخت سے سخت سزا دی جائے جو صحابہ کرام اور امہات المومنینکی شان میں گستاخی کرتے ہیں یا فرقہ واریت کی بنیاد پر ایک دوسرے کو کافر ہونے کا فتویٰ دیتے ہیں۔ اگر ریاست نے اپنی ذمہ داری پوری نہ کی تویہ قتل و غارت نہیں رُکے گی بلکہ ہم اُس مقام پر پہنچ جائیں گے جہاں ہر کوئی اپنے سوا سب کو دائرہ اسلام سے خارج سمجھے گا۔
تازہ ترین