• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ریاست کے تصور میں سب سے اہم کردار اس کی جانب سے عوام کو جانی ومالی تحفظ دینے کی ضمانت نے ادا کیا۔ قدیم دور کے قبیلوں میں بٹے گروہوں کے رہنماؤں کی جانب سے اپنے گروہ کے افراد کی جان او ر مال کے تحفظ کی ذمہ داری لینے سے لے کر جدید ریاست تک ، جان و مال کے تحفظ کی ذمہ داری ریاست کا اہم فریضہ رہا ہے۔ آئین پاکستان میں بھی آرٹیکل 8 سے لیکر28 میں جن بنیادی انسانی حقوق کا ذکر کیا گیا ہے ان میں جان و مال کے تحفظ کی ذمہ داری بھی شامل ہے۔ یہ ریاست کی ذمہ داری ہے کہ نہ صرف ہر شہری کو اس کے بنیادی حقوق دیئے جائیں بلکہ ان حقوق کی پامالی کرنے والے افراد کے خلاف کارروائی بھی کی جائے لیکن ایسا معلوم ہوتا ہے کہ پاکستان میں ریاستی ادارے اپنی ذمہ داریوں سے مبرا ہو چکے ہیں، شاید اسی لئے کوئٹہ میں آئے روز ہونے ہزارہ برادری کے اہل تشیع افراد کے خلاف کوئی نہ کوئی گھناؤنی کارروائی ہو ہی جاتی ہے اور ریاستی ادارے منہ دیکھتے رہ جاتے ہیں۔ پہلے پہل تو خراب امن و امان کی ذمہ داری سول حکمرانوں پر ڈالی جاتی رہی، لیکن پچھلے ماہ جب کوئٹہ میں 90 سے زائد افراد کی شہادت کے بعد لواحقین نے میّتوں کے ہمراہ دھرنا دیاتو ان کے مطالبے پر صوبے میں گورنر راج لگا دیا گیا۔ میرے خیال میں جمہوری حکومت کی طرف سے ایک صوبے میں گورنر راج لگانا صوبے کے حالات کو بہتر بنانے کے لئے ضروری ہو گیا تھا۔ بہتری کے لئے ایف سی کی خدمات گورنر کے سپرد کرنے پر حکمران سیاسی جماعت کو جماعت کے اندر اور حلیفوں کی شدید مخالفت کا سامنا کرنا پڑا۔
لیکن صوبے میں گورنر راج کے ہوتے ہوئے جبکہ امن و امان کو برقرار رکھنے کی ذمہ داری بھی ایف سی کے سپرد کر دی گئی ہو، اگر حالیہ خودکش حملے جیسا کو ئی واقعہ رونما ہو جائے تو پھر تو ریاست کے دفاعی اداروں کی افادیت کے بارے میں مختلف حلقوں کی جانب سے اٹھائے جانے والے سوالات بڑی اہمیت کے حامل ہو جاتے ہیں۔ موجودہ صورت حال میں دفاعی اور انٹیلی جنس اداروں کی ایسے واقعات کو نہ روک پانے کی وجوہات کے بارے میں مختلف حلقوں کی آراء کے مطابق تین مختلف منظر نامے ہیں۔
پہلے منظر نامے میں کہا جا رہا ہے کہ بلوچستان میں کام کرنے والی ریاستی مشینری اس قابل نہیں ہے کہ وہ اس قسم کی وارداتوں سے نبرد آزما ہو سکے۔ سویلین سطح پر کام کرنے والی پولیس کا نہ صرف وطیرہ ٹھیک نہیں ہے بلکہ اس کا مورال بھی بے حد کم ہے ۔پولیس کرپشن زدہ بھی ہے اور سیاست زدہ بھی اسی لئے اس میں دہشت گردی کے واقعات سے نبٹنے کی صلاحیت ہی نہیں ہے۔ صوبے میں موجود ایف سی کے بارے میں بھی ناقدین کی رائے یہی ہے کہ ایف سی کی امن و امان قائم رکھنے میں ناکامی کی وجہ بھی ایف سی میں صلاحیت کا نہ ہونا ہے۔
دوسرے منظرنامے میں ناقدین کی نظر میں سیکورٹی اداروں میں ایسے واقعات کے بارے میں انٹیلی جنس اوراس پر عمل درآمد کرنے کی صلاحیت کا فقدان نہیں ہے بلکہ دراصل سیکورٹی ادارے ان واقعات کے ذمہ داران کے خلا ف کسی قسم کا آپریشن کرنے سے اس لئے کتراتے ہیں کہ اس آپریشن کے جواب میں اس تنظیم کے دیگرکارکن سیکورٹی اداروں کے خلاف کارروائیاں شروع کر دیں گے۔۔۔ جو کہ ان اداروں کے لئے کسی طور بھی مناسب نہیں ہو گا۔ ناقدین کی رائے میں ملک کے موجودہ حالات میں اس قسم کے منظر نامے کے درست ہونے کے زیادہ امکانات ہیں کیونکہ سیکورٹی ادارے نہیں چاہتے کہ تحریک طالبان پاکستان کے بعد کسی اور گروہ سے دشمنی مول لے لی جائے جو بعد میں بدلے کے طور پر سیکورٹی اداروں کو ٹارگٹ کریں گے۔ بلوچستان میں ویسے بھی سیکورٹی ادارے بلوچ قوم پرست افراد کی جانب سے حملوں کی زد میں رہتے ہیں ایسے میں کسی نئے محاذ پر جنگ کرنا ان سیکورٹی اداروں کی نظر میں ممکن نہیں ہے۔ بعض حلقوں کی رائے میں یہی وجہ ہے کہ صوبے میں پولیس کی جانب سے مذہبی دہشت گردوں کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی جاتی جبکہ ایف سی بھی مذہبی دہشت گردوں کی آمدورفت کی اطلاعات ہوتے ہوئے بھی کوئی کارروائی نہیں کرتی۔
مگر تیسراحلقہ جس منظر نامے کے بارے میں بات کر رہا ہے شاید وہ سب سے خوفناک منظرنامہ ہے۔ اس حلقے کے مطابق کوئٹہ میں ہزارہ برادری کے قتل عام کو روکنے میں ریاستی اداروں کی ناکامی دراصل اس لئے ہے کہ ڈسپلن کی پابندی نہ کرنے والے اس ادارے کے بعض افراد اس قتل عام میں ملوث ہوں۔اس حلقے کے مطابق بلوچستان میں انیس انٹیلی جنس ایجنسیاں کام کر رہی ہیں جن میں سے سات براہ راست افواج پاکستان کو جوابدہ ہیں۔ ان تمام انٹیلی جنس ایجنسیوں کے اخراجات پر پاکستان کے سالانہ بجٹ کا کافی بھاری حصہ خرچ ہو جاتا ہے، ایک سیکورٹی سٹیٹ میں ایسا ممکن نہیں کہ افواج پاکستان کی انٹیلی جنس ایجنسیاں دہشت گردی کرنے والے افراد کو کوئٹہ جیسے چھوٹے شہر میں ڈھونڈ نہ پائیں۔ ایسا تب ہی ممکن ہے جب سیکورٹی اداروں کے وہ لوگ جو اپنی ملازمت کے قوانین کی پابندی نہ کرتے ہوں ان مذہبی دہشت گردوں کے ساتھ مل گئے ہوں جن کو ڈھونڈنے اور پکڑنے کی ذمہ داری ریاست کی جانب سے ا ن کو سوپنی گئی ہے۔ اس حلقے کی نظر میں یہ بات بہت بامعنی ہے کہ گلگت بلتستان جیسے علاقے میں جہاں افواج پاکستان کی مرضی کے بغیر پرندہ بھی پر نہیں مار سکتا مذہبی دہشت گرد کھلے عام گھومتے ہیں، جو اہل تشیع افراد کو قتل کرتے ہیں اور ریاستی ادارے ان کا سراغ نہیں لگا پاتے۔ کوئٹہ اور ایران جانے والے زائرین کے ساتھ بھی ایساہی ہوتا ہے۔۔۔ کوئٹہ شہر میں تو سیکورٹی کاایک ایسا جال ہے کہ اس میں سے گزرنے والا کوئی شخص بھی کچھ چھپا کر نہیں لے جاسکتا تو پھر ایک ہزار کلو گرام بارود سے بھرا واٹر ٹینکر ہزارہ ٹاؤن میں کیسے پہنچ گیا جبکہ اس ٹینکر کو ایف سی اور پولیس کی لاتعداد چیک پوسٹوں سے گزر کر ہزارہ ٹاؤن پہنچنا تھا؟؟؟
آئی ایس آئی نے عدالت کو بتایا ہے کہ انہوں نے ریاستی اداروں کو آگاہ کیا تھا کہ اس قسم کے حملے کا خطرہ ہے اور کیمیکل پہنچایا جا رہا ہے ۔
۔۔۔ اگر ایسا ہے تو عوام کو تحفظ فراہم کرنے کے ذمہ داروں نے کوئی کارروائی کیوں نہیں کی؟۔۔۔ یہ جاننے کی کوشش کیوں نہیں کی گئی کہ یہ کیمیکل کیوں منگوایا جا رہا ہے؟ ۔۔۔ دو دو چیک پوسٹس سے بچ کر یہ ٹینکر جائے وقوعہ تک کیسے پہنچا؟۔۔۔رحمن ملک کا یہ کہنا کہ کالعدم تنظیمیں پنجاب سے آپریٹ کر رہی ہیں پنجاب حکومت کے رویے پر بھی سوالیہ نشان چھوڑتا ہے۔۔۔ پنجاب حکومت کا یہ کہہ کر بری الذمہ ہو جانا کہ ہمارے صوبے میں فرقہ وارانہ فساد نہیں ہو رہا اور لوگ قتل نہیں ہو رہے کیا اس الزام کا جواب ہے جس میں رحمن ملک نے کہا ہے کہ تمام کالعدم تنظیموں کے ملک دشمن عناصر پنجاب میں پناہ لئے ہوئے ہیں اور وہاں سے ملک بھر میں کارروائیاں کر رہے ہیں؟ ۔ ۔۔ پنجاب کی حکومت کو اس سلسلے میں اپنی پوزیشن کو واضح کرنے اور سخت اقدامات کرنے کی ضرورت ہے ۔۔۔ اور یہ رویہ اب ختم ہو جانا چاہیے کہ” یہ ہمارے ہیں۔۔۔ وہ تمہارے ہیں۔۔۔“
اس ریاست کو جب بھی غیروں نے ناکام ریاست کہا تو میں نے اسے تسلیم کرنے سے انکار کیا ۔۔۔ لیکن آج میں خود سے یہ سوال کرنے پر مجبور ہوں کہ کیا ریاست ایسی ہوتی ہے؟۔۔۔ کیا ریاست ایسے چلائی جاتی ہے؟ ۔۔۔کبھی کوئی اسلام کے نام پر۔۔۔ کبھی فرقے کے نام پر ۔۔۔ اور کبھی سیاست کی خاطر ہمارے بچوں، جوانوں، بوڑھوں، خواتین کو بے رحمی کی بھینٹ چڑھا دیتا ہے اور ہم سب تماشہ دیکھتے رہ جاتے ہیں۔۔۔نہ جانے کب ہم تباہی کے لئے بیرونی ہاتھوں اور سازشوں کو ڈھونڈنے کی بجائے اس ریاست کو تباہ کرنے کے عمل میں ملوث عناصر کو اپنے محلوں، گلیوں، تحصیلوں، شہروں اور قصبوں میں ڈھونڈ کر ان کا خاتمہ کریں گے۔ نہ جانے کب ہم دہشت گردی کی توجیحات پیش کرنے کی بجائے ایک ہو کر اس کے خلاف کھڑے ہوں گے ۔۔۔ کیونکہ یہ ایسی آگ ہے جس پر اگر قابو نہ پایا گیا تو ہم سب کو اپنی لپیٹ میں لے لے گی اور محض کسی ایک فرقے یا علاقے تک محدود نہیں رہے گی۔
تازہ ترین