• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
اب تو یہ سُن سُن کر الجھن ہونے لگی ہے کہ تاریخ خود کو دہراتی ہے۔ تاریخ کبھی رُکے اور کہیں ٹھہرے تو خود کو دہرائے۔ تاریخ کے بارے میں طے ہے کہ وہ جاری رہتی ہے۔ تاریخ میں جو کچھ ہوتا ہے اس سے پہلے کچھ ہو چکا ہوتا ہے اور اس عمل کے دوران جو وقفہ محسوس ہوتا ہے وہ وقفہ نہیں ہوتا۔ البتہ ایک بات مانی جا سکتی ہے اور وہ یہ کہ تاریخ اپنا حلیہ بدل بدل کر نمودار ہوتی ہے۔ کبھی واقعات میں مشابہت ہوتی ہے،کبھی کرداروں میں،کبھی طریقہٴ واردات وہی پہلے جیسا ہوتا ہے اور کبھی اتنا مختلف کہ دونوں میں مماثلت ڈھونڈنا مشکل ہوتا ہے لیکن اساس دونوں بار ہو بہو ایک جیسی ہوتی ہے مثلاًحق و باطل کی جنگ تقریباً ڈیڑھ ہزار برس بعد خود کو دہرائے تو ممکن ہے دونوں فریقوں کے کردار وہی پہلے جیسے ہوں۔ ایک فریق پہلے کی طرح حق کی راہ پر گامزن ہو اور اپنے اسلاف کے اٹل ارادوں کا وارث ہو، ساتھ ہی بے قصور ہو اور اس مناسبت سے مظلوم ہو۔ دوسرا فریق باطل کے ایوانوں میں رہ کر اپنی طاقت پر نازاں ہو اور اسی کی بنا پر اوّل فریق کو اپنا طابع بنانے اور اپنے عقیدے کو تسلیم کرانے پر بضد ہو۔ یہ ضد جب حد سے گزر جائے تو تصادم ہو اور طاقتور فریق کمزور پر چڑھ دوڑے اور اسے تہِ تیغ کرکے اپنی کامرانی کا جشن منائے۔
بس جب اس نوع کی تاریخ خود کو دہراتی ہے تو اپنی شکل و شباہت اور طریقہٴ واردات کو بدل لیا کرتی ہے۔ کبھی تو یوں کہ حق پر مضبوطی سے قدم جمائے اپنے ناتواں مخالف کو ذبح کرنے میں فجر سے عصر تک چند گھنٹے لگائے یہاں تک کہ مقتل لاشوں سے پٹ جائے اور کبھی اپنا حلیہ یوں بدلے کہ کہیں دور سے ایک برقی بٹن دبائے، ایک قیامت جیسا دھماکہ ہو اور پہاڑ دھنکے ہوئے اون کی طرح تو نہ اُڑیں البتہ انسانی لاشوں کے ٹکڑے فضا میں اتنی دور دور تک بکھر جائیں کہ ماؤں کو اپنے بچوں کے چھوٹے چھوٹے جوتوں کے سوا کچھ ہاتھ نہ آئے۔ لوگ جو ماتم کرتے ہیں وہ دکھ کا ماتم نہیں ہوتا، وہ اس ندامت اور بے بسی کا ماتم ہوتا ہے کہ ہم نہ پہلی واردات میں مظلوم کی مدد کو پہنچ سکے اور نہ تازہ واردات میں گریہ و زاری سے زیادہ کچھ کرسکے۔
تاریخ نے اس انداز میں خود کو دہرایا تو کہیں سے یہ سننے میں آیا کہ ’اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد‘۔ یہ مصرعہ کہنے والا شاعر تاریخ کا طالب علم نہ تھا ورنہ یا تو اپنا شعر واپس لیتا یا اس میں ترمیم کرتا۔ وہ جب کہتا ہے ’ہر کربلا کے بعد‘ تو اس کا یہ قیاس تو درست نظر آتا ہے کہ کربلا ایک بار نہیں ، بار بار ہوگی مگر اسے یہ اندازہ نہیں کہ اس درمیان وقفہ ہی نہیں ہوگا۔ مظلوم پر نئے دور کی برچھیاں اور نئے زمانے کے نیزے چلیں گے،کبھی کسی تنہا گلی میں اور کہیں بھرے بازاروں میں ، کبھی وہ راہ حق کا راہرو کسی معالج کی شکل میں ہوگا،کبھی اس کا ذہین، ہونہار نو عمر بیٹا ہوگا، کبھی وہ حلق بریدہ ہوگا اور کبھی یوں ٹکڑے ٹکڑے جیسے گھوڑوں کی ٹاپوں تلے روندا گیا ہو۔ یہ سب ہوتا رہے گا مگر کیا اس مصرع کی باقی پیشگوئی سچ ہوگی، کیا ہر مرتبہ اسلام زندہ ہوگا؟ اس سوال کا جواب تاریخ کے رویّے میں پوشیدہ ہے کہ ایسے جواب آنے والا وقت دیا کرتا ہے،کبھی ہاتھ کے ہاتھ ،کبھی ذرا ٹھہر کے اور کبھی حق پرستوں کے کسی ناصر کے ہاتھوں۔
بلوچستان کے شہر کوئٹہ میں، جو دور حاضر کا کوفہ بن گیا ہے، ہزارہ برادری کے سادہ لوح، نیک اطوار باشندے جو نہ کسی کے لینے میں تھے نہ دینے میں، صرف اس لئے باردو کے دھماکوں میں چیتھڑوں کی طرح اڑائے جا رہے ہیں کہ ان کا اپنا ایک مسلک اور اپنا ایک عقیدہ ہے اور عقیدہ بھی اتنا مختلف اور اتنا جدا نہیں کہ ان کی بستیاں اجاڑ دی جائیں اور ان کی نسلیں مٹا دی جائیں۔ ہم تو سمجھ بیٹھے تھے کہ بربریت کے زمانے کبھی کے رخصت ہوئے لیکن کیا کریں کہ انسان کے اندر چھپا ہوا وحشی کبھی کبھی برہنہ ہو کر اپنی حقیقت کو آشکار کرنے سے باز نہیں آتا۔
چودہ سو سال پہلے جب کربلا میں خانوادہٴ رسولکے گھرانے کو تہِ تیغ کیا گیا تو وہ واقعہ کہیں دور کسی ویران علاقے میں پیش آیا اور جزیرہ نمائے عرب کو عرصے تک اس کی خبر بھی نہ ہوئی مگر اب حالات کا عالم آسمانی بجلی جیسا ہے۔ پاکستان میں پرلے پار وہاں اوپر پہاڑوں پر ایک لرزہ خیز دھماکہ ہوا ذرا دیر میں ہمارے گھر میں اس تین برس کے بچّے کی تصویر آگئی جو سڑک پر لہولہان پڑا ہے اور دھماکے میں اس کی ایک ٹانگ اُڑ گئی ہے۔ کبھی اخبار چوبیس گھنٹے بعد آتا تھا تو حالات کی تصویر دکھاتا تھا، اب ہمارے گھر میں اخبار نہیں آتا، خود تصویریں آتی ہیں، خون میں نہائی ہوئی اور موت کی آغوش میں سسکتی ہوئی تصویریں۔ اوپر سے غضب یہ کہ یہ تصویریں کبھی کبھار نہیں آتیں، یہ جب آنے پر آجائیں تو ان کی جھڑی لگ جاتی ہے اور سچ تو یہ ہے کہ اب یہ حالت ہم سے نہیں دیکھی جاتی۔ خیال آتا ہے کہ انہیں دیکھتے دیکھتے ہم سخت جان نہ ہو جائیں۔ یہ نہ ہو کہ ان تصویروں کو دیکھنے والا خود ہی تصویر ہوجائے، جامد، ساکت، بے حرکت اور بے حس۔ یوں نہ ہو کہ ہماری آنکھوں سے نمی رخصت ہو جائے اور دل کا احوال بیان کرنے والے وہ آنسو بھاپ بن کر اُڑ جائیں جو کبھی یوں بہا کرتے تھے کہ سجدہ کرنے والوں کی جانمازیں تر ہو جایا کرتی تھیں۔
گریہ کا رک جانا اور آنسوؤں کا خشک ہونا غضب ہو جائے گا۔ اگر ہماری جرأتِ گفتار تھک ہار کر بیٹھ رہی اور اگر وارداتِ قلب بیان کرنے والے آنسوؤں نے بھی چپ سادھ لی تو سینے میں سلگتی آگ راکھ کا ڈھیر نہ بن جائے۔ یہ نہ ہو کہ عدو اور زیادہ دلیر ہو جائے، ڈوریاں کھنچتی رہیں اور کہیں دور سے حکم جاری ہوتے رہیں۔ پھر کہیں یہ نہ ہو کہ ہر صبح صبحِ عاشور ہو جائے اور ہر شام شامِ غریباں۔
تازہ ترین