• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سابق وزیراعظم میاں محمد نواز شریف کی صحت کے بارے میں جو اطلاعات آ رہی ہیں، وہ انتہائی تشویش ناک ہیں۔ ان کا کسی درست جگہ پر اور بروقت علاج ہونا چاہئے۔ انہیں مطلوبہ طبی سہولتوں کی عدم فراہمی کے باعث ان کی حالت بہت زیادہ خراب ہو گئی ہے۔ اب انہیں علاج کے لیے بیرون ملک لے جانے پر خود میاں محمد نواز شریف اور ان کے اہل خانہ کے ذہنوں میں شاید یہ سوال پیدا ہوا ہو گا کہ اس علاج سے میاں صاحب کو کتنا فائدہ ہو گا اور ان کے سیاسی خانوادے (Political Dynasty) کو کتنا نقصان ہوگا؟

اب بھی وقت ہے کہ میاں محمد نواز شریف کا بہتر اور درست جگہ پر علاج کرایا جائے۔ وہ پاکستان کے واحد سیاسی رہنما ہیں، جو عوام کے ووٹ سے تین مرتبہ اس ملک کے وزیر اعظم منتخب ہوئے۔ یہ اعزاز کسی اور سیاسی رہنما کو حاصل نہیں ہے۔ اگر محترمہ بے نظیر بھٹو شہید نہ ہوتیں تو شاید انہیں بھی یہ اعزاز حاصل ہو جاتا۔ پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک میں یہ بہت بڑا اعزاز ہے۔ جہاں اقتدار تک پہنچنے کا جمہوری اور سیاسی طریقہ آزمائشوں اور خطرات سے خالی نہیں ہوتا۔ میاں نواز شریف سے سیاسی اختلافات رکھنے والے لوگوں کی بھی بڑی تعداد موجود ہو گی اور ان کے خلاف مقدمات کے حوالے سے بعض حلقے ان کے بارے میں مخصوص رائے بھی رکھتے ہوں گے تاہم یہ سب لوگ اور یہ سب حلقے بھی اس امر کا اعتراف کریں گے کہ ان کے سیاسی حامیوں اور ان سے محبت کرنے والوں کی بھی اس ملک میں بہت بڑی تعداد ہے۔ اگر خدانخواستہ میاں صاحب کی طبیعت نہ سنبھل سکی تو اس کے پاکستان کی سیاست پر بہت گہرے اثرات مرتب ہوں گے کیونکہ ان کے فالوورز (پیروکار) یہ سمجھتے ہیں کہ میاں صاحب کو اس حال میں پہنچانے والی مخصوص قوتیں ہیں۔ پیروکار ایسا کیوں سمجھ رہے ہیں؟ اس سوال کا جواب یہ ہے کہ میاں محمد نواز شریف نے اکتوبر 1999کے بعد جو سیاسی بیانیہ اختیار کیا ہے، اس کے اثرات اگرچہ پورے ملک پر ہوئے لیکن اس کا سب سے زیادہ اثر یہ ہوا کہ پنجاب کا سیاسی بیانیہ بھی چھوٹے صوبے کے عوام کے بیانیہ سے ہم آہنگ ہوگیا یا کم از کم چھوٹے صوبوں سے متصادم نہیں رہا۔ بعض حلقے انہیں پنجاب کا بھٹو قرار دے رہے ہیں۔ اس تناظر میں میاں محمد نواز شریف کی صحت کے معاملات کو دیکھنا چاہئے۔

میڈیکل رپورٹس اور ڈاکٹروں کے بیانات کے مطابق میاں نواز شریف کو آئی ٹی پی (Immune Thrombocytopenic Purpura) کا عارضہ لاحق ہے۔ اس بیماری میں جسم کا مدافعتی نظام خون کے پلیٹ لیٹس کے خلاف ہو جاتا ہے۔ تلی (Spleen)میں پلیٹ لیٹس ڈی گریڈ ہوتے رہتے ہیں۔ راقم نے اس بیماری کے حوالے سے سینئر ڈاکٹرز سے کچھ معلومات حاصل کی ہیں، جن کے مطابق اس بیماری کا علاج تین طریقوں سے ہو سکتا ہے۔ پہلا طریقہ یہ ہے کہ مدافعتی نظام کو اس قدر کمزور کر دیا جائے کہ وہ پلیٹ لیٹس کو نہ کھا سکے۔ اس میں نقصان یہ ہوتا ہے کہ مدافعتی نظام کمزور ہونے سے جسم پر دیگر بیماریاں خاص طور پر جراثیم والی بیماریوں کا حملہ ہو سکتا ہے۔ اس طریقے کو مناسب تصور نہیں کیا جاتا۔ دوسرا طریقہ یہ ہے کہ جسم میں امیونو گلوبلنز انجیکٹ کیے جائیں تاکہ مدافعتی نظام پلیٹ لیٹس کے بجائے انہیں کھانا شروع کر دے ۔ لیکن یہ انجکشن ایک ہفتے سے زیادہ لگانا نقصان دہ ہوتا ہے۔ تیسرا طریقہ یہ ہے کہ تلی کو آپریشن کے ذریعہ نکال دیا جائے۔ اگر زیادہ عرصے سے تلی میں پلیٹ لیٹس ڈی گریڈ ہو رہے ہوں اور اس کا سائز بڑھ جائے تو اسے بڑا آپریشن کرکے نکالنا پڑتا ہے۔ اگر پلیٹ لیٹس کم ہوں تو آپریشن صرف اس صورت میں ہو سکتا ہے کہ جسم میں مسلسل پلیٹ لیٹس انجیکٹ کیے جا رہے ہوں۔ ورنہ جسم سے خون نہیں آئے گا۔ رپورٹس کے مطابق میاں نواز شریف کو کافی عرصے سے پلیٹ لیٹس کی کمی کا سامنا ہے۔ انہیں پلیٹ لیٹس انجیکٹ کیے جا رہے ہیں، جو ان کی تلی میں ڈی گریڈ ہو رہے ہیں۔ تلی والے مسئلے کو بہت پہلے حل کر لینا چاہئے تھا۔ اب ان کا آپریشن بہت پیچیدہ ہوگا۔ انہیں دل اور گردوں کا عارضہ بھی لاحق ہے۔ اس آپریشن میں دل ، گردے اور دیگر شعبوں کے سرجن بھی موجود ہوں اور آپریشن تھیٹر ایسا ہو کہ کسی بھی مسئلے سے نمٹنے کے لیے وہاں سہولتیں موجود ہوں۔ ایسا ’’ Multi Disciplinary‘‘اسپتال کسی حد تک آغا خان اسپتال ہو سکتا ہے۔ امریکہ اور یورپ میں ایسے چند اسپتال ہیں۔

تادم تحریر یہ اطلاعات آ رہی تھیں کہ میاں محمد نواز شریف کے اہل خانہ کے ساتھ ساتھ حکومت بھی یہی چاہتی ہے کہ انہیں علاج کے لیے بیرون ملک منتقل کر دیا جائے۔ اس معاملے پر کسی کو سیاست نہیں کرنی چاہئے۔ میاں محمد نواز شریف کی زندگی بچانا بہت اہم ہے۔ اللہ کرے بہت زیادہ دیر نہ ہو گئی ہو۔ مریم نواز صاحبہ اور مسلم لیگ (ن) کے دیگر لوگ مسلسل واضح کر رہے تھے کہ میاں نواز شریف کی طبیعت بہت خراب ہے۔ پاکستان بہت نازک دور سے گزر رہا ہے۔ اللہ پاک میاں صاحب کو جلد صحت کاملہ عطا کرے۔ آمین! صرف میاں محمد نواز شریف ہی نہیں بلکہ سابق صدر آصف علی زرداری کی بیماری پر بھی حکومت اور اداروں کو سنجیدہ رویہ اختیار کرنا چاہئے۔

تازہ ترین