• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مولانا فضل الرحمٰن کا آزادی مارچ جو 27اکتوبر کو روانہ ہوا، سکھر، ملتان، لاہور سے ہوتا ہوا اسلام آباد پہنچا۔ مجھے کراچی، لاہور اور اسلام آباد میں اس آزادی مارچ میں شامل سیاسی کارکنوں اور سیاسی لیڈروں کو قریب سے دیکھنے کا موقع ملا۔ مارچ میں شامل سیاسی کارکنوں نے جن کا تعلق سماج کے سب سے پسے ہوئے طبقے سے تھا، راستے بھر میں قانون کی پاسداری کی، کوئی گملا تک نہیں توڑا اور خواہ مخواہ ٹریفک جام کرنے کی کوشش نہیں کی اور دوسری طرف اگر 2014کے دھرنے کے کارکنان سے ان کا موازنہ کیا جائے تو طبقاتی فرق بالکل واضح نظر آتا ہے۔ 2014ء کے دھرنے کے کارکنان کا تعلق مڈل کلاس اور اشرافیہ سے تھا جن کا کھانا باہر سے آتا تھا اور وہ ڈی جے کے میوزک پر سارا دن رقص کرتے تھے جبکہ یہ سیاسی کارکن کشتیاں کرتے اور کبڈی کھیلتے ہیں، پانچ وقت نماز ادا کرتے ہیں اور موسمی حالات کا مقابلہ کرنا جانتے ہیں۔ اس کے مقابلے میں 2014کے کارکنان اس شدید بارش میں فوراً ہی تتر بتر ہو جاتے۔ کہا جا رہا ہے کہ مسلم لیگ اور پیپلز پارٹی نے آئندہ سماج پر فرقہ وارانہ اثرات سے بچنے کیلئے اس مارچ میں حصہ نہیں لیا، اس کے باوجود حزب اختلاف کی ساری پارٹیوں نے مولانا کو یہ عندیہ دیا ہے کہ وہ انہیں اس مقام پر تنہا نہیں چھوڑیں گے جو آئندہ کے سیاسی ماحول کیلئے خوش آئند پیش رفت ہے۔ مولانا نے بھی اپنی تقاریر میں بار بار اس بات کا اشارہ کیا ہے کہ ان کا آزادی مارچ صرف اور صرف وزیراعظم کے استعفے، ایک آزادانہ الیکشن کمیشن کے تحت ایسے الیکشن کا متقاضی ہے جس میں کسی ادارے کا کوئی عمل دخل نہ ہو، سول سپرمیسی ہو اور پارلیمنٹ ہی قانون سازی کا آخری ادارہ ہو۔ اس وقت اشد ضرورت اس بات کی ہے کہ ایک طرف تو حزب اختلاف کی پارٹیاں مولانا فضل الرحمٰن کو تصادم سے دور رکھیں اور دوسری طرف حکومت پر دبائو ڈالیں کہ وہ کسی ایسے لائحہ عمل کی ضمانت فراہم کرے تاکہ آئندہ عوام اپنے نمائندے خود منتخب کر سکیں اور آئین کی پاسداری ممکن بنائی جا سکے۔

آج پاکستان اور اس کی سیاست ایک دو راہے پر کھڑی ہے۔ اگر آج مولانا فضل الرحمٰن کا یہ مارچ کسی بھی وجہ سے ناکام ہو گیا تو شاید پاکستان میں جمہوری روایتیں مستقبل قریب میں ارتقا پذیر نہ ہو پائیں اور یوں 99فیصد عوام جن کا مستقبل 21ویں صدی میں صرف اور صرف جمہوریت کی بقا میں مضمر ہے، اس کے ثمرات سے فائدہ نہیں اٹھا سکیں گے۔

پچھلے دنوں کراچی میں ڈاکٹر مبارک علی نے ایک تاریخ کانفرنس منعقد کی جس میں پاکستان میں مزاحمتی تحریکوں پر مقالے پڑھے گئے۔ اس کانفرنس سے تقریر کرتے ہوئے ڈاکٹر مبارک علی نے کہا کہ پاکستان میں مزاحمتی تحریکوں کا زیادہ تر ہدف شخصیات رہی ہیں۔ ایوب خان، یحییٰ خان، بھٹو، ضیاء الحق اور مشرف یہ تمام شخصیتیں تھیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ مزاحمتی تحریکیں شخصیتوں کے بجائے اس نظام کی تبدیلی کی بات کریں جس کی وجہ سے جمہوریت کے ثمرات عام آدمی تک نہیں پہنچ پاتے۔ یہ بات آزادی مارچ پہ بھی منطبق ہوتی ہے۔ عمران خان مولانا کے مطالبے کی وجہ سے وزیراعظم نہ بھی رہیں تو کسی اور شخصیت کو ڈھونڈ لیا جائے گا اور عوام اور جمہوریت کے ہاتھ کچھ نہیں آئے گا۔ اس لیے آج ضرورت اس امر کی ہے کہ آزادی مارچ اس دبائو کے تحت حکومت سے آزادانہ اور منصفانہ الیکشن کی ضمانت مانگے۔ پچھلے الیکشن میں فافن، ایچ آر سی پی اور بین الاقوامی نمائندوں کی رپورٹوں کی روشنی میں ایک ایسے پارلیمانی کمیشن کا مطالبہ کرے جو 3ماہ کے اندر ان وجوہات کو سامنے لائے جس کی وجہ سے الیکشن میں مبینہ بے ضابطگیاں ہوئیں۔ آئندہ کیلئے ایسی قانون سازی کی ضمانت دی جائے کہ الیکشن کمیشن ہی وہ واحد محکمہ ہو جس کے پاس آزادانہ اور منصفانہ الیکشن کرانے کا پورا عملہ موجود ہو۔

عمران خان بار بار جس بدعنوانی کے خاتمے کی بات کرتے ہیں اور جس پر انہوں نے یہ سارا واویلا کھڑا کیا ہوا ہے وہ دراصل جمہوری اداروں کے پنپنے کے ساتھ ہی وابستہ ہے۔ بدعنوانی اور کرپشن فضا میں معلق کوئی چیز نہیں ہے جس کو عمران خان ایک جھٹکے سے پکڑ کر سماج سے باہر پھینک دے گا بلکہ جمہوری اداروں کی روایتوں کا ارتقا پذیر ہونا ہی دراصل بدعنوانی اور کرپشن سے جان چھڑانے کا نام ہے۔ آج یورپی سماج میں میڈیا اور عدلیہ کے اداروں نے کرپشن اور بدعنوانی پر کافی حد تک قابو پا لیا ہے، لیکن پاکستان میں صحافت سماجی تبدیلی کی علمبردار ہونے کے بجائے کاروباری مجبوریوں کی وجہ سے پابندیوں میں ہے۔ کیا وجہ تھی کہ عمران خان کا دھرنا 24گھنٹے میڈیا کی زینت بنا رہتا تھا لیکن آج وہی میڈیا خال خال ہی مولانا کی تقریر نشر کرتا ہے۔ اس لیے رہبر کمیٹی کو یہ مطالبہ کرنا چاہیے کہ میڈیا کی آزادی کی جو ضمانت آئین کا آرٹیکل 19اور 19Aدے رہا ہے، اس کی راہ میں کوئی قدغن نہ لگائی جائے۔

دراصل مولانا کا یہ مارچ پاکستانی سماج کو سیاسی بالیدگی سے مزین کرنے کا نام ہے اور ویسے بھی تاریخ گواہ ہے کہ جن شخصیات نے اپنے سماجوں میں تاریخی کارنامے انجام دیئے ہیں انہوں نے کسی چیز کو اپنی اَنا نہیں بنایا، سیاست میں جیت اور ہار نہیں ہوتی بلکہ ایک خاص زمان اور مکاں میں اپنے سیاسی اہداف کو حاصل کرنے کا نام سیاست ہے۔ ہم نے دیکھا ہے کہ مزدور رہنما اپنے دسیوں مطالبے مالکان کو پیش کرتے ہیں لیکن اگر اس میں سے کچھ بھی مان لیے جائیں تو وہ اس کو اپنی جیت سمجھتے ہیں اور حتی الامکان کوشش کرتے ہیں کہ فیکٹری ہر صورت میں چلتی رہے۔ اس آزادی مارچ کو بھی اپنے اہداف پر اسی طرح اپنی نظر مرکوز کرنا ہوگی۔ مولانا کا یہ عزم کہ ان کے تمام مطالبات 1973ء کے آئین کی پاسداری کرتے ہیں، ایک ایسا سچ ہے کہ اگر تمام فریقین آئین کو اپنا بنیادی دستاویز بنا لیں تو وہ عمارت کھڑی ہو سکتی جس میں بائیس کروڑ عوام جن میں مزدور، کسان، عورتیں، طلبہ اور مختلف مذاہب کے لوگ شامل ہیں، اپنی آئندہ زندگی امن اور خوشحالی کے ساتھ گزار سکتے ہیں۔

تازہ ترین