• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
میں لاہور گئی تھی، میٹرو بس کے افتتاح والے دن۔ ڈرائیور نے کہا بھی ”باجی چلیں گجومتہ۔ شہباز شریف نے بلایا ہے مگر ہمیں تو ”اثر“ کی کانفرنس کے افتتاح کے لئے بلایا گیا تھا۔ اس لئے ہم سب نے اپنا نمائندہ بنا کر زاہدہ حنا کو بھجوا دیا اور میٹرو بس میں چڑھنے کی فرصت نہ ملی۔ البتہ دور سے دیدار کر لیا، سن بھی لیا کہ بڑی بڑی دیگیں چڑھی تھیں جو بس پر نہیں، پنڈال میں خوب جی بھر کر استعمال ہوئیں۔
میں لاہور گئی تھی، روز اتوار کا تھا۔ جی بھی کر رہا تھا کہ آج کے دن تو شام کو ادیب، نیرنگ گیلری میں جمع ہوتے ہیں وہاں چلا جائے مگر پھر خوف تھا بنی بی بی کا کہ تم لوگ تو میری کانفرنس کے لئے آئے ہو، خبردار جو ہلے بھی۔ میں لاہور گئی تھی یہ سوچ کر کہ مدت کے بعد بشیر ماہی سے مچھلی کھائی جائے، لکشمی چوک سے مونگ پھلی والی کشمیری چائے پی جائے اور مرغ چھولے کھائیں مگر کانفرنس میں تو بنی بی بی کی گئے تھے۔آپ پوچھیں گے یہ بنی بی بی کون ہیں اور ان کا خوف اس قدرکیوں تھا۔ ان کا اصلی نام نگہت سعید خان ہے، پیار سے ہم سب لوگ بنی کہتے ہیں۔ اصل موقع تھا کہ 12فروری کو پاکستانی خواتین کی جدوجہد اور ویف کے تیس سال مکمل ہو رہے تھے۔ ساتھ ہی ساتھ خواتین کی تربیت اور اشاعتی ادارہ ”اثر“کے بیس سال مکمل ہو رہے تھے جشن کا سماں بھی تھا اور احتساب کا لمحہ بھی کہ موقع محل کے مطابق ویمن ایکشن فورم جسے ہم ویف بھی کہتے ہیں اس کی جانب سے بھولے سے کوئی ایک بیان آجاتا ہے۔ کبھی دس پندرہ عورتوں کا مظاہرہ بھی ہو جاتا ہے۔ یہ وہی ویف ہے جس میں شامل ہونے کو ساری فیشن ایبل عورتیں بلکہ کالا چشمہ پہننے والی عورتیں بھی بے قرار رہتی تھیں۔ جس میں ہم جیسے فقیر بھی حسب مقدور ہاتھ بٹاتے تھے۔ کہیں لکھنے کا کام، کہیں جلسہ کرنے کا کام اور کہیں شعر سنانے کا مرحلہ۔ اس تحریک یعنی ویف میں صرف خواتین ہی نہیں تھیں۔ اس میں وہ تمام لبرل لوگ بھی شامل تھے جیسے عابد حسن منٹو، صفدر میر، اعتزاز احسن، حسین نقی، آئی اے رحمن، منو بھائی اور حبیب جالب بھی شامل تھے۔ یہ دن خاص کر 12 فروری تھا۔ 1983ء میں تین سو خواتین ہال روڈ سے ہائی کورٹ تک ایک پٹیشن دینے کے لئے جمع ہو کر، آگے بڑھنا چاہتی تھیں۔ جیسے ہی جالب صاحب نے نظم پڑھی کہ ”اب دھر میں بے یار و مددگار نہیں ہم۔ پہلے کی طرح بے کس و لاچار نہیں ہم“ اب قافلہ رواں ہونے لگا تو چاروں جانب سے آنسو گیس اور ڈنڈے ہم پر برسنے لگے ۔ بس انجام یہ ہوا کہ آدھی عورتیں اور حبیب جالب اسپتال پہنچا دیئے گئے اور آدھی جیل بھیج دی گئیں۔ اس طرح 12 فروری پاکستانی خواتین کا قومی دن قرار پایا۔ اسی دن کے تیس برس مکمل ہونے کا جائزہ لینے اور اپنا اپنا احتساب کرنے کے لئے ”اثہ“ نے قومی کانفرنس منعقد کی تھی جس میں پاکستان کے مضافاتی علاقوں سے نوجوان لڑکیوں کے وفود بھی بلائے گئے تھے کہ معلوم ہو سکے یہ نئی پود جو تیس برس میں جوان ہوئی ہے آخر اس نے شعوری طور پر کیا سیکھا، ذہنی طور پرکتنی بالغ ہوئیں، سماجی طور پر اپنا مرتبہ حاصل کیا کہ نہیں اور سیاسی طور پر کسی نقطہٴ نظر کی حامل ہیں کہ نہیں۔
ان نوجوان لڑکیوں نے تو ہم سے حساب لینا شروع کردیا۔ پوچھا گیا وہ ویف کہاں گئی جو پاکستان میں ہر ظلم کے خلاف آواز اٹھاتی تھی اور ہر رجعت پسندی کے خلاف سینہ سپر ہو جاتی تھی۔ کیا اس کی تمام خواتین این جی اوز بنا کر مغرب کے ایجنڈے پر کام کرنے لگیں۔ کیا انہوں نے ملک بھر میں Paid activisme کی بنیاد رکھی۔ کیا انہوں نے خود کو ویف کہنے کے بجائے سول سوسائٹی کہلانا پسند کر لیا، کیا ویف کو سول سوسائٹی میں دبا دیا۔ اب جبکہ مسلسل خون بہہ رہا ہے، اب جبکہ دہشت گردی کی انتہا ہو چکی ہے، اور حکومت کہہ رہی ہے کہ طالبان سے گفتگو کرنا عین مناسب ہے۔ اس حکومت سے کون پوچھے گا کہ کس کے کہنے پر آپ گرفتار دہشت گردوں کو رہا کر رہے ہیں۔ بلوچستان میں ایک وقت میں سو لاشیں پڑی رہیں، وہاں کے لوگ جس میں عورتیں بھی شامل تھیں برف زدہ زمین پر بیٹھے رہے، بتائیں ویف کہاں تھی؟
جب انہیں تمام سوالوں کے جواب دیتے ہوئے بتایا گیا کہ جیسے جیسے وقت گزرتا ہے ہرتحریک کے کام کرنے کا انداز اور لائحہ عمل غیر محسوس طریقے پر بدلتا جاتا ہے۔ یہ ویف ہی تھی جس کے پریشر پر خواتین کی وزارت بنائی گئی، یہ ویف ہی تھی جس نے ویمن کمیشن کو وہ مقام دلوایا کہ اس وقت وہ انفرادی حیثیت میں کام کر سکتا ہے، یہ ویف ہی تھی جس نے جنسی ہراسانی کے خلاف قانون بنوایا۔ بچوں کی کتابوں میں نصاب کی تبدیلیاں کرائیں اور یہ ویف ہی ہے جس نے نوجوان لڑکیوں کو شعر لکھنے، سوال کرنے اور موجودہ سیاسی صورتحال کا تجزیہ کرنے کا شعور دیا۔ خواتین کی جدوجہد، دس سال کا یا سو سال کا مرحلہ نہیں ہے معاشرے کو ذہنی طور پر بدلنے کے لئے صحافتی سطح پرجس قدر کام ہوا ہے اسی سے ریحانہ کلیم اور شیری رحمن سامنے آئی ہیں۔ وکالت اور انسانی حقوق کی سطح پر عاصمہ، حنا اور ماجدہ سامنے آئی ہیں۔ افسانوں کی سطح پر تو کہانی رشید النساء سے شروع ہو کر، عصمت چغتائی ، قرة العین حیدر سے ہوتی ہوئی زاہدہ حنا تک آتی ہے اور شاعری کا منظر نامہ تو اس شام ہونے والے مشاعرے نے واضح کر دیا کہ بارہ شاعرات نے اپنا کلام سنایا اور آج کی عورت کے مسائل کو سامنے لائیں۔ عذرا عباس ہوں کہ گلبدن، سب کو اپنی ذات اور اس کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کا احساس تھا۔ پاکستان میں دہشت گردی کو صرف مطعون کرنا ہی کافی نہیں، ہمیں اپنی ماؤں کو آگاہ کرنا ہوگا کہ وہ اپنے بچوں کو مدرسوں میں اس لئے نہ بھیجیں کہ ایک معقول رقم کے عوض ان بچوں کو جنت جانے کا وعدہ دے کر، دہشت گرد بنا دیا جائے گا یہ خود سے سوال کرنے اور خود ہی جواب دینے کا سلسلہ تین دن جاری رہا۔ زندہ باد اثر، زندہ باد ویف اور عورتوں کی تحریک۔
تازہ ترین