• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
تحریر: مولانا ضیاء المحسن طیب۔۔برمنگھم
ربیع الاول چونکہ آنحضرت ﷺ کی ولادت باسعادت کا مہینہ ہے، اسلئے اس مہینہ کے اندر پوری دنیا کے مسلمان اپنے اپنے انداز اور طریقے سے آپؐ کی ولادت باسعادت کے سلسلہ میں تقریبات منعقد کرتے ہیں، جس میں آپؐ کی سیرت و حیات طیبہ اور آپؐ کے اخلاق و کردار اور محاسن پر گفتگو کی جاتی ہے، اس بات کو مدنظر رکھتے ہوئے آج کے کالم میں آپؐ کے محاسن و اخلاق ایک مختلف انداز سے بیان کئے جائیں گے جوکہ احادیث نبویہ کی روشنی میں مرتب کئے گئے ہیں۔
حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں میں سب سے زیادہ حلیم تھے، سب سے زیادہ بہادر تھے، سب سے زیادہ پاک دامن تھے، آپؐ نے کسی ایسی عورت کو ہاتھ تک نہیں لگایا جو آپؐ کی مملوکہ یا منکوحہ نہ ہو یا آپؐ کی محرم نہ ہو،آپؐ لوگوں میں سب سے زیادہ سخی تھے، آپؐ کے پاس درہم و دینار پر رات نہیں گزرتی تھی، اگر رات ہونے سے پہلے کچھ مال بچ جاتا اور کوئی ایسا شخص نہ ملتا جسے وہ مال دیا جاسکے تو اس وقت تک گھر تشریف نہ لاتے تھے، جب تک اس سے چھٹکارا نہ پالیتے، آپؐ اللہ کے عطا کردہ رزق میں سے صرف اتنی مقدار اپنے پاس رکھتے تھے جو آپ کے اور اہل خانہ کے لئے کافی ہو۔
اس سے زائد آپؐ سب اللہ کی راہ میں خیرات کردیتے تھے، آپؐ سے کوئی چیز اگر مانگی جاتی تو وہ آپؐ عطا کردیتے، آپؐ اپنے جوتے خود سی لیتے، کپڑوں میں پیوند لگالیتے اور اپنے گھر کے تمام کام کرلیتے، آپؐ ازدواج مطہرات کے ساتھ مل کر گوشت بنالیتے تھے، آپؐ لوگوں میں سب سے زیادہ حیا دار تھے، حیا کی وجہ سے آپؐ کی نگاہ کسی شخص کے چہرے پر نہیں ٹھہرتی تھی، آپؐ غلام اور آزاد کی دعوت یکساں طور پر قبول فرمایا کرتے تھے، یعنی امیر اور غریب کا کوئی فرق نہ تھا، آپؐ کسی کا بھی ہدیہ قبول فرمالیتے، اگرچہ وہ ایک گھونٹ دودھ یا خرگوش کی ران ہی کیوں ہو، آپؐ ہدیہ کا بدلہ بھی اتارتے، آپؐ صدقہ کا کھانا تناول نہیں فرماتے تھے، آپؐ رب تعالیٰ کی خاطر غصہ فرماتے، اپنی ذات کے لئے کسی سے خفا نہ ہوتے، بعض اوقات بھوک کی وجہ سے آپؐ کے پیٹ پر پتھر بندھے ہوتے، جو موجود ہوتا تناول فرمالیتے، آپؐ ٹیک لگاکر کھانا نہ کھاتے، آپؐ ولیمہ کی دعوت میں شریک ہوتے، آپؐ نے زندگی بھر مسلسل تین روز تک گندم کی روٹی نہیں کھائی، آپؐ مریضوں کی عیادت اور جنازوں میں شرکت فرماتے، آپؐ دشمنوں کے درمیان سے بغیر کسی محافظ کے تن تنہا گزر جاتے، آپؐ لوگوں میں سب سے زیادہ با وقار تھے تکبر کا شائبہ تک نہ تھا، آپؐ سب سے زیادہ فصیح و بلیغ تھے، کلام میں طوالت نہ تھی، سب سے زیادہ خندہ پیشانی سے ملتے تھے، دنیا کی کوئی چیز آپؐ کو تعجب میں نہیں ڈالتی، جو کپڑا ملتا زیب تن فرمالیتے۔ آپ اپنی سواری پر غلام یا کسی کو بٹھالیا کرتے تھے، وقت پر جو سوری مہیا ہوتی اسے استعمال کرتے، چنانچہ آپ نے گھوڑے، اونٹ اور گدھے پر بھی سوار کی ہے۔ آپؐ چادر و عمامہ کے بغیر برہنہ سر اور پیدل بھی چلے، مدینہ کے آخری کنارے پر رہنے والے مریضوں کی عیادت کے لئے بھی آپؐ تشریف لے جاتے، آپؐ کو خوشبو بے حد پسند تھی، بدبو سے سخت کراہت ہوتی تھی، آپؐ غریب اور فقیر لوگوں کے ساتھ نشست فرماتے، قوم کے شرفا اور روئسا کے ساتھ ان کے مقام و مرتبہ کے مطابق سلوک فرماتے، آپؐ کسی پر ظلم نہ فرماتے، عذر کرنے والے کی معذرت قبول فرمالیتے، مزاح بھی فرماتے، مگر اس میں بھی حق بات ہی ہوتی، آپؐ مسکراتے، مگر آواز سے نہ ہنستے، مباح یعنی جائز کھیل خود بھی کھیل لیتے اور دوسروں کو بھی منع نہ فرماتے، اپنی بیویوں کے ساتھ دوڑ بھی لگالیتے، جوانی میں مکہ کے لوگوں کی بکریاں چرایا کرتے تھے، آپؐ نے نہ کبھی کسی عورت کو ملعون کہا اور نہ کسی خادم کو، جنگ میں آپؐ سے کہا گیا کہ آپؐ دشمنوں پر لعنت کریں، آپؐ نے فرمایا کہ رحمت بناکر بھیجا گیا ہوں نہ کہ لعنت کرنے والا، آپؐ نے اپنے ہاتھ سے کسی کو نہیں مارا، آپؐ نے کسی سے انتقام نہیں لیا، آپؐ ہر آنے والے کی ضرورت کو پورا کرنے کے لئے کھڑے ہوجاتے، آنے والا خواہ غلام ہو یا آزاد، حضرت انسؓ فرماتے ہیں اس ذات کی قسم جس نے آپؐ کو حق کے ساتھ مبعوث فرمایا۔ آپؐ نے کبھی میری غلطی پر برا نہیں کہا، بلکہ اگر ازدواج مطہرات نے ملامت کی تو آپؐ نے روک دیا، اس کو کچھ نہ کہو، اگر کوئی شخص راستہ میں آپؐ کو اپنی کسی ضرورت کے لئے روک لیتا تو آپؐ صبر فرماتے، یہاں تک کہ وہ شخص خود ہی چلا جاتا، آپؐ سلام میں پہل کرتے، اگر کوئی شخص آپؐ کا ہاتھ پکڑ لیتا تو آپؐ خود اپنا ہاتھ نہ چھڑاتے، یہاں تک کہ وہ خود ہی چھڑا لیتا، آپؐ نے کبھی کھانے میں نقص نہیں نکالا، پسند ہوتا تو کھالیتے اور اگر پسند نہ ہوتا تو ہاتھ اٹھالیتے، تورات میں آپؐ کے اوصاف اس طرح بیان ہوئے ہیں۔ محمدؐ میرے برگزیدہ بندے ہیں، نہ وہ بدمزاج ہیں، نہ سخت مزاج، نہ بازاروں میں شور مچانے والے ہیں، نہ برائی کا بدلہ برائی سے دیتے ہیں، بلکہ معاف اور درگزر سے کام لیتے ہیں، ان کا مقام پیدائش مکہ ہے، مقام ہجرت طابہ ہے، یعنی مدینہ طیبہ، آپؐ کی عادت طیبہ تھی کہ آپؐ سلام کرنے میں پہل کرتے تھے، اگر آپؐ نماز میں مشغول ہوتے اور کوئی شخص آپؐ سے ملنے آجاتا تو آپؐ اپنی نماز کو مختصر کردیتے، اس کی ضرورت پوری کرنے کے بعد نماز مکمل کرتے، آپؐ کی نشست آپؐ کے اصحاب سے اعلیٰ اور ممتاز نہیں تھی، مہمان کا اکرام کرتے جو تکیہ آپؐ کے پیچھے ہوتا آنے والے کی طرف بڑھا دیتے، اگر وہ انکار کرتا تو آپؐ اتنا اصرار کرتے کہ وہ لینے پر مجبور ہوجاتا۔
تازہ ترین