• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
تحریر :قاری عبدالرشید۔اولڈھم
27 اکتوبر کو کراچی سے چل کر یکم نومبر کو علی الصباح اسلام آباد میں لوگوں کے منظم ہجوم کے ساتھ مولانا فضل الرحمٰن داخل ہوئے۔ اپنے موقف پر قائم مولانا فضل الرحمٰن کو آٹھواں دن ہو چکا ہے۔ اس دوران اپوزیشن کے حوالے سے مختلف خبریں بھی آئیں۔ تاہم مولانا فضل الرحمٰن کی ثابت قدمی نے ساری اپوزیشن جماعتوں کو اپنے کنٹینر پر آکر خطاب کرنے پر مجبور کردیا۔ اب یہ پروپیگنڈا بھی دم توڑ گیا کہ ساری اپوزیشن ساتھ نہیں۔ اس دوران اپوزیشن کی رہبر کمیٹی اکرم درانی کی قیادت میں اور حکومتی کمیٹی پرویز خٹک کی قیادت میں آپس میں مذاکرات کر رہی ہیں اور کئی دور ہو بھی چکے ہیں۔ آخری اطلاعات تک حکومت اپوزیشن کے ایک کے علاوہ باقی سارے مطالبے ماننے کے لئے تیار ہو چکی ہے لیکن جوایک مطالبہ نہیں مانا جا رہا وہ مطالبات کی فہرست میں اصل ہے۔ اور وہ ہے وزیر اعظم عمران خان کا استعفیٰ۔ گجرات کے چوہدری برادران کے بھی دو دور مولانا فضل الرحمٰن کے ساتھ ملاقات کے ہو چکے ہیں تاہم نتیجہ کوئی نہیں نکلا۔ یاد رہے کہ مولانا فضل الرحمٰن آزادی مارچ کی قیادت کرتے ہوئے 31 مارچ کو جب اسلام آباد پہنچے اور یکم نومبر کو انھوں نے اپنے خطاب میں وزیر اعظم عمران خان کو استعفیٰ دینے کے لئے دو روز کی ڈیڈ لائن دی تو ان کے مطالبات کی فہرست میں وزیر اعظم عمران خان کا استعفیٰ سرفہرست تھا۔ ان مطالبات میں یہ بات بھی سر فہرست رکھی گئی کہ انتخابات فوج کی نگرانی میں نہ ہوں یعنی پولنگ اسٹیشن کے اندر اور باہر فوج تعینات نہ ہو۔ متحدہ اپوزیشن کی طرف سے فوج کے بارے میں کھلا مطالبہ بڑا لمحہ فکریہ ہے۔ ساری اپوزیشن کو متفقہ طور پر یہ مطالبہ کیوں کرنا پڑ گیا، حکومت سے یہ بھی مطالبہ کیا گیا کہ آئین میں موجود اسلامی دفعات کے ساتھ کسی بھی قسم کی چھیڑ چھاڑ نہیں کی جائے گی۔جے یو آئی کے مطابق ان کی جماعت فوج سمیت کسی بھی ادارے کے خلاف نہیں ہے۔ مسلم لیگ ن کے رکن قومی اسمبلی مرتضیٰ عباسی کا کہنا ہے کہ ان کی جماعت ان تمام مطالبات کی حمایت کرتی ہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی کے ترجمان سینیٹر مصطفیٰ نواز کھوکھر نے بی بی سی کو بتایا کہ یہ ان کے مشترکہ مطالبات ہیں۔ واضح رہے کہ عمران خان کی زیر صدارت تحریک انصاف کے پارلیمانی پارٹی اجلاس میں دو ٹوک کہا گیا کہ وزیر اعظم کسی بھی صورت میں استعفیٰ نہیں دیں گے اور نہ ہی نئے انتخابات کا انعقاد کیا جائے گا۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ مولانا فضل الرحمٰن کا موقف اتنا سخت کیوں ہو گیا ہے،جے یو آئی کے ایک رہنما کے مطابق وزیر اعظم عمران خان کی جانب سے ایک تسلسل کے ساتھ مولانا کے خلاف توہین آمیز رویہ اختیار کئے جانے پر کارکنوں میں شدید اشتعال پایا جاتا ہے۔ کارکن چاہتے ہیں کہ احتجاج کا اگلا لائحہ عمل سخت ہونا چاہئے مگر جے یو آئی کی قیادت بظاہر اس معاملے پر صبر و تحمل کا مظاہرہ کر رہی ہے۔ کچھ لوگوں کی رائے میں متحدہ اپوزیشن کے بغیر کسی بھی مزید احتجاج کا فائدہ نہیں ہو گا اور جے یو آئی کو تنہا ہی اس کے ناخوشگوار نتائج بھگتنا پڑیں گے۔ لیکن جے یو آئی کی قیادت کو آگے بڑھنے میں افرادی طور پر تو کسی کی محتاجی نہیں البتہ سیاسی حکمت عملی میں سب کے ساتھ رہنے میں فائدہ ہے۔ دیگر کچھ رہنما مذاکرات کو ہی بہترین آپشن گردانتے ہیں۔ شاید اس لئے سخت احتجاج والے آپشن پر فی الحال سب پُرجوش نہیں ہیں لیکن جمعیت کے کارکن ہر فیصلے کے لئے تیار بیٹھے ہیں۔ سابق گورنر بلوچستان سید فضل آغا جو جے یو آئی کے مرکزی رہنما ہیں کا کہنا ہے کہ ان کی جماعت ذاتی مفادات کے لئے نہیں بلکہ قومی و ملکی مفادات میں مارچ کر رہی ہے۔ بہرحال اس آزادی مارچ نے اپنے بڑے اہداف کس قدر حاصل کئے؟ یہ تو چند روز میں ظاہر ہو جائے گا۔ہمارے خیال میں مذہبی طبقے کے اوپر لگائے جانے والے الزامات خدشات اور شکوک و شبہات کو جس خوبصورتی کے ساتھ مولانا کے کارکنوں نے دھو ڈالا ہے اس کے اثرات اب وطن عزیز پاکستان میں ہی نہیں ساری دنیا میں پھیل چکے ہیں۔ علماءوطلباء اور مذہبی لوگوں کو میڈیا پر جیسے دکھایا جا رہا تھا دنیا نے اب ان کےکردار کوبھی دیکھ لیا۔یہ اثرات تا دیر باقی رہیں گے۔
تازہ ترین