• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پاکستان کی موجودہ حکومت جو کرپشن کے الزامات میں سر سے پیر تک ڈوبی ہوئی ہے، مگر جاتے جاتے کم از کم دو اسٹریٹیجک کام کر گئی ہے ایک چین کی کمپنی کو گوادر بندرگاہ کا انتظام سنبھالنے کا، جس سے پاکستان میں کشمکش وقتی طور پر تو بڑھے گی مگر بالآخر پاکستان مضبوط ہوگا، دوسرا کام ایران سے گیس سپلائی کا معاہدہ ہے، اس سے بھی گھمسان کی جنگ کا امکان ہے مگر حتمی نتائج پاکستان اور اس کے عوام کے لئے خوشخبری لیکر آئیں گے۔ امریکہ کے سخت دباوٴ کا مقابلہ کرتے ہوئے کہ وہ ایران سے گیس پائپ لائن نہ بچھائے اور قطر سے مائع گیس فراہم کرنے کے لالچ اور پاکستان کو سخت پابندیوں کی زد میں لانے کی دھمکی کے باوجود پاکستان اور ایران مل کر اس مسئلے کا حل تلاش کرتے رہے۔ پہلے کوئی ملک پاکستان کو500 ملین ڈالرز امداد دینے کو تیار نہیں تھا۔ یہاں تک کہ چینی حکومت بھی مزید پاکستان میں الجھنے سے گریز کر گئی کیونکہ اُن کو گوادر بندرگاہ کے بعد امریکیوں اور امریکہ حمایت یافتہ بلوچ آزادی کا نعرہ بلند کرنے والوں سے خطرات لاحق تھے۔ ورلڈ بینک یا ایشین بینک نے امریکہ کے کہنے پر راہِ فرار اختیار کی تاہم یہ پائپ لائن پاکستان اور ایران دونوں کیلئے اہم ہے اور یہ کہ دونوں کی زندگی کی نوید ہے اس لئے پہلے ایران پاکستان سرزمین پر گیس پائپ لائن بچھانے کیلئے 500 ملین ڈالرز کا قرضہ دینے کا فیصلہ کیا اور اس کے باوجود بھی پاکستان کو دباوٴ کا سامنا تھا پاکستان کے صدر کو ایران گیس پائپ لائن پر دستخط کرنے کیلئے دسمبر میں تہران جانا تھا مگر وہ لندن چلے گئے اور اِس معاہدے کی تکمیل کیلئے جو فنڈز کی ضرورت تھی اس پر دستخط ہوگئے مگر منصوبہ کی تکمیل کے معاہدے پر دستخط نہ ہو سکے۔ پاکستان اور ایران نے9 جنوری 2012ء کو اس کا ایک حل تلاش کر لیا ہے کہ پاکستان میں ایک ایسی ایرانی کمپنی پائپ لائن بچھائے گی جس پر امریکہ یا اقوام متحدہ کی طرف سے کوئی پابندی نہیں لگی ہوئی ہے۔ جو کمپنی یہ پائپ لائن بچھائے گی اس کا نام تدبیر انرجی گیس بور ایران ہے۔ یہ امام خمینی فاوٴنڈیشن کے ماتحت ہے جو ایران کی سب سے بڑا خیراتی گروپ ہے۔ یوں پاکستان کو ایران فنڈز بجھوانے کی ضرورت نہیں پڑے گی اور اس طرح وہ اقوام متحدہ کی پابندیوں سے بچ جائے گا اور بالآخر پاکستانی کابینہ نے30جنوری 2013ء کو اس کی حتمی منظوری دے دی۔ پاکستان اور ایران کے درمیان گیس پائپ لائن کا معاہدہ 1996ء میں ہوا تھا اور اس کا نام انڈیا پاکستان گیس پائپ لائن رکھا گیا۔ پہلے انڈیا کو یہ اعتراض تھا کہ پائپ لائن اگر پاکستان سے گزری تو پاکستان کسی وقت بھی گیس روک سکتا ہے مگر پاکستان نے اور خود ایران نے انڈیا کو ہر طرح کی یقین دہانی کرائی مگر انڈیا کسی طور پر راضی نہیں ہوا۔ بعد میں وہ امریکہ کے کہنے سے اس منصوبے سے مکمل طور سے نکل گیا مگر پاکستان اور ایران اس منصوبے میں دلچسپی لیتے رہے اگرچہ دیر ہوتی رہی، رکاوٹیں آتی رہیں اور مشکلات بڑھتی رہیں مگر پاکستان نے اس کا مقابلہ کیا اور ایران کے ساتھ مل کر کام کرتا رہا۔ پاکستان امریکی دباوٴ کے ساتھ ساتھ عرب دباوٴ کا بھی سامنا کرتا رہا ہے کیونکہ اس کو گیس کی سخت ضرورت ہے۔ گیس کی قلت نے پاکستانیوں کو ہراساں کیا ہوا ہے۔ چولہے ٹھنڈے پڑ رہے ہیں یا گیس کا پریشر کم ہو رہا ہے اور گاڑیوں کیلئے سی این جی اسٹیشنز پر لمبی لمبی قطاروں نے پاکستانیوں کی زندگیوں کو اجیرن بنا دیا ہے اس لئے یہ گیس پائپ لائن پاکستان اور ایران دونوں کی مشکلات کا حل ہے۔ ایران امریکی اور اقوام متحدہ کی پابندیوں سے نکل کر کام کرنا چاہتا ہے۔ یہ بھی ڈر ہے کہ اگر اس نے یہاں سے گیس نہ نکالی تو یہ گیس قطر کی طرف چلی جائے گی اور ایران گیس سے محروم ہو جائے گا کیونکہ قطر و ایران کے گیس فیلڈز کی سرحدیں ملتی ہیں۔ اگرچہ پاکستان اور ایران فنڈز کے حصول اور اُس کے لین دین کے مسئلے پر قابو پا چکے ہیں مگر ابھی یہ مسئلہ طے نہیں ہوا کہ پاکستان یا ایران اس گیس پائپ لائن کو بچھانے کے لئے آلات اور مشینری کہاں سے خریدے گا مگر شاید اس کا کوئی نہ کوئی حل نکل ہی آئے گا اس منصوبے سے پاکستان کو750 ملین کیوبک فٹ گیس روزانہ دستیاب ہو گی اور اس سے 4 ہزار میگاواٹ بجلی بن سکے گی، یہ منصوبہ 2014ء میں پایہٴ تکمیل کو پہنچے گا۔ حیرت انگیز طور پر جس علاقے سے اس گیس پائپ لائن کو گزرنا ہے ان علاقوں کو غیرملکی طاقتوں نے شورش زدہ بنا دیا ہے جس پر پاکستانی ایف سی قابو پانے کی کوشش کر رہی ہے۔ پاکستان نے اپنا سروے اور انجینئرنگ کا کام اپریل 2011ء میں پہلے ہی مکمل کرلیا ہے۔ ساتھ ساتھ اس کے راستے کا تعین بھی ہو چکا اور اس کا حتمی انجینئرنگ ڈیزائن تکمیل کے مراحل طے کر رہا ہے۔
اِن منصوبوں کو ایرانی بڑی تیزی کے ساتھ مکمل کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں اور توقع ہے کہ 2014ء کے دسمبر تک یہ منصوبہ پایہٴ تکمیل کو پہنچے گا اور پاکستان کی گیس اور بجلی کی ضروریات پوری ہو سکیں گی۔ ہمارا خیال ہے کہ اس منصوبے کی تکمیل میں ہماری دلچسپی بہت زیادہ ہونی چاہئے کیونکہ یہ پاکستان کی لائف لائن ہے اور اغیار اس لائف لائن کی راہ میں ہر طرح کی رکاوٹ ڈالیں گے جس کا مقابلہ کرنے کیلئے تیار رہنا چاہئے۔ یہ ہماری آزاد پالیسی کی طرف بڑھتے ہوئے قدم کی نشاندہی کرے گا، پاکستان کی صنعت اور پاکستان کے شہریوں کی انرجی کی ضروریات کی تکمیل کو ممکن بنایا جاسکے گا۔ دنیا بھر کے ممالک کی انرجی کی ضروریات اس قدر اہم ہیں کہ چین نے اسرائیل کے گیس و آئل فیلڈ تک سے سپلائی حاصل کرنے کا معاہدہ کر لیا ہے۔ پاکستان کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ ایران سے گیس حاصل کرے، یہاں امریکہ اور دوسرے پاکستان دشمن عناصر پاکستان ایران گیس پائپ لائن کی راہ میں رکاوٹ ڈالیں گے، سبوتاژ کرنے کا ہر حربہ استعمال کریں گے مگر پاکستان کو اُن کے ہر حربے کے توڑ کرنے کی تیاری مکمل کرنا چاہئے۔ پاکستان کے آرمی چیف نے درست کہا کہ پاکستان کو اپنے اندرونی و بیرونی خطرات کے پیچیدہ خطرات سے نمٹنے کیلئے تیار رہنا ہے۔
تازہ ترین