• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ریحان اعظمیؔ

قانونِ قدرت ہے کہ دنیا میں آنے والے کو ایک دن واپس بھی جانا ہے۔ انسان گنتی کی سانسیں لے کر پیدا ہوتا ہے، ایک سانس کم، نہ ایک زیادہ۔ خدائے بزرگ و برتر کے سوا کوئی نہیں جانتا کہ رُوح کا جسم سے رشتہ کب ٹُوٹ جائے۔ کب انسان کی زندگی کی ڈور منقطع ہو اور وہ اپنے مستقل گھر کا مکین ہوجائے۔ سن و سال کی کوئی قید نہیں اور کوئی بھی وجہ بن سکتی ہے، جس سے خالقِ حقیقی کے علاوہ کوئی واقف نہیں۔ مگر…مَیں ایک ایسا بدقسمت باپ ہوں، جو اپنی عارضی بیماری کے باعث، اپنے 32برس کے جوان بیٹے کے جنازے کو کندھا بھی نہ دے سکا۔ 

نہ جانے ہمارے گھر کو کس کی نظر لگ گئی؟ کینیڈا میں ہوئی ایک سرجری کے باعث اب تک اپنے پیروں پر چلنے کے قابل نہیں ہوں۔ میری شریکِ حیات کینسر کے باعث بچّوں کو روتا چھوڑ گئیں۔ مَیں اکثر سوچتا تھا کہ سلمان کو ریحان بنتا دیکھوں گا،مگر وہ بھی مجھے روتا چھوڑ گیا۔ مَیں نے حضرت امام سیّد الشہداءؓ کے حوالے سے بہت نوحے کہے، مرثیے لکھے، حضرت علی اکبرؓ کا مرثیہ کہا۔ مَیں باپ ہونے کی حیثیت سے محسوس کرسکتا تھا کہ ایک باپ کی اپنے بچّے کا لاشہ دیکھنے پر کیا کیفیت ہوتی ہے۔لیکن جب درد، احساس کے بجائے، مجسّم ہوکر سامنے آیا، تو مجھے اُس بے کسی و بے بسی کا احساس کہیں زیادہ شدّت سے ہوا کہ کیسے حضرت امام حسینؓ نے تنہا اپنے بچّے کا لاشہ اُٹھایا ہوگا۔ 

میرا شرف، میری عزّت یہی ہے کہ امام عالی مقامؓ نے مجھے اور میرے خانوادے کو اپنی نوکری کے قابل سمجھا اور ہمیں اپنے حوالے سے عزّت و شہرت بخشی۔ایک سال پہلے تک مجھے یہ خوشی تھی کہ میرا بچّہ اُسی آب و تاب کے ساتھ مجمع لگا کر، ایک سے زائد نوحہ خوانوں کو پاس بٹھا کر، اُسی انداز سے اہلِ بیتؓ کی نوکری کررہا ہے، جو خاص میرا انداز تھا۔ کبھی کبھی تو وہ ایسے شعر کہہ جاتا کہ مَیں رشک کرتا کہ کاش! یہ شعر مَیں نے کہا ہوتا۔ 

سلمان کے پاس جو نئے عنوانات تھے، وہ ہزاروں نوحے کہنے کے باوجود میرے خیال میں نہ اُترے، شاید معصومینؓ کے لیے وہ عنوانات اور نوحے سلمان کے حصّے میں لکھے تھے۔ لیکن میرا بچّہ میرا ایسا قدردان تھا کہ کہا کرتا؎’’ اب کوئی مظہرِ یزدان نہیں بن سکتا…دوسرا منبر پالان نہیں بن سکتا…دیکھو سلمانؔ !بہت سخت مراحل ہوں گے…ایک دن میں کوئی ریحانؔ نہیں بن سکتا۔‘‘

دنیا آکر مجھے مبارک باد دیتی کہ تمہارا بیٹا ماشاء اللہ بالکل تمہاری طرح لکھ رہا ہے۔ وہی انداز، وہی اٹھنا بیٹھنا، وہی طور طریقہ، وہی ادب آداب۔ تم ان خوش نصیب افراد میں سے ہو، جو اپنے وارث کو اپنے جگہ سنبھالتے دیکھ رہے ہو۔ یہ الگ بات کہ گھریلو معاملات میں اپنے بچّے سے لڑکر مَیں اکثر کہا کرتا کہ’’ میری طرح مجمع لگا کر تم اپنے باپ جیسا بننا چاہ رہے ہو؟‘‘ آہ سلمان! کیا تمھیں میری یہ بات بُری لگ گئی، میرے چاند؟تم اپنے ساتھ وہ مجمع بھی لے گئے۔ میرا گھر ویران کرگئے۔ 

یار! باپ سے ایسے کوئی ناراض ہوتا ہے کیا؟بیٹا! ابھی تمہارے جانے کے دن تو نہیں تھے۔ مَیں نے تو تمہارا سہرا بھی نہیں لکھا۔ ہم نے تمہاری شادی کے کتنے ارمان سجا رکھے تھے اور تم سر پر سہرا سجائے بغیر ہی چلے گئے۔ مَیں نے اپنی کتاب میں لکھا تھا، تمہیں یاد ہے ناں! کیسے یہ شعر پڑھ کے تم مُسکرایا کرتے تھے؎’’ ریحانؔ میرا بیٹا بڑا ہو رہا ہے اب…مَیں دیکھتا ہوں خواب میں بارات اِن دنوں۔‘‘آہ سلمان! تمہاری باتیں…تمہارا میری کتاب پر وہ جملہ لکھنا کہ ’’پپا! آپ ہمیشہ مجلس و ماتم کے سلسلے میں مصروف رہتے ہیں، مجھے آپ سے بہت سی باتیں کرنی ہیں، میرے لیے وقت نکالیں‘‘ مجھے بہت یاد آرہا ہے۔تم شاید مایوس ہوگئے کہ مَیں تمہیں وقت نہیں دے سکا۔ 

مجھے معاف کردینا بیٹا، تمہارے جیتے جی تمہاری یہ خواہش پوری نہ کرسکا۔ آئو اب مَیں تمہیں بلا رہا ہوں سلمان۔ اِدھر آئو، میرے پاس بیٹھو، دیکھو !میری دوا کا خیال کون کرے گا؟ تم ہی کیا کرتے تھے ناں یہ سب۔ دیکھو! لوگ میرے سامنے میٹھی چیزیں لا رہے ہیں، تمہیں معلوم ہے ناں میری شوگر کا، تم تو سب کو روکا کرتے تھے کہ’’ کوئی پپا کے سامنے میٹھا نہ لے جائے۔‘‘ اب کیوں انہیں منع نہیں کرتے، کیوں نہیں روکتے سلمان!تمہیں معلوم ہے؟ جب دروازے کی سمت دیکھتا ہوں، ایسا لگتا ہے بالکونی میں تم ٹہل رہے ہو۔ ارسلان کو آواز دیتا ہوں کہ بھائی آیا ہے، وہ کہتا ہے ’’پپا! بھائی نہیں آیا۔‘‘ مَیں روتا ہوں، اپنا سا منہ لے کر رہ جاتا ہوں۔ 

سلمان! تمہاری بہت یاد آتی ہے۔ مجھے معاف کردینا، مگر مَیں کیا کرتا۔ مَیں تو اپنا گریبان بھی چاک نہ کرسکا۔ معذور تھا، تمہیں کندھا بھی نہ دے سکا۔ میری جان! مجھے معاف کردینا۔اب امامِ عالی مقامؓ کے پاس گئے ہو، تو میری طرف سے قدم بوسی کرنا، اپنے باپ کے لیے صبر کی دُعا کرنا اور کہنا کہ’’ اپنے غلام کا سلام قبول کریں۔‘‘

تازہ ترین