• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پہلا منظر
مینار پاکستان کے زیرِ سایہ عمران خان،الطاف حسین، منور حسن اور ڈاکٹر طاہر القادری کامشترکہ جلسہ شروع ہونے والاہے ۔تاحد ِنظر سر ہی سر نظر آرہے ہیں۔ لاہور میں پچاس لاکھ سے زائد افراد ایک جگہ اکٹھے ہیں۔ ترانے بج رہے ہیں ، بھنگڑے ڈالے جارہے ہیں،نعرے گونج رہے ہیں۔ بادشاہی مسجد کی دیوار تک لوگوں سے بھری ہوئی ہے۔ میناروں کی آخری ڈیوڑھیوں پر نیوز کیمرہ مین اپنے کیمروں کو (Pan)پین کئے جارہے ہیں ۔تمام ٹیلیویژن لمحہ بہ لمحہ کی رپورٹ نشر کر رہے ہیں پچھلے کئی گھنٹوں سے ٹیلیویژن پر صرف یہی علاقہ لائیو دکھایا جارہا ہے ۔دور دراز سے آنے والوں کے انٹرویو کئے جارہے ہیں۔ صحافیوں کے تجزیئے جاری ہیں البتہ پیپلز پارٹی اور نون لیگ کے زیادہ تر تجزیہ کاروں نے اپنے موبائل فون آف کر رکھے ہیں۔
دوسرا منظر
جاتی عمرہ کے ایک ہال میں نواز شریف اور شہباز شریف موجود ہیں۔ نون لیگ کے اور بہت سے اہم ممبران بھی بیٹھے ہوئے ہیں ان میں کچھ وہ بھی ہیں جنہیں الیکشن کمیشن نے نااہل قرار دے دیا ہے۔ سب کی نظریں ایک سو بیس انچ کے وسیع و عریض ٹیلیویژن پر لگی ہوئی ہیں۔ریموٹ کنٹرول نواز شریف کے ہاتھ میں ہے اور وہ تیزی کے ساتھ چینل بدل رہے ہیں مگر ہر طرف ایک ہی منظر ہے،ہر ٹی وی پر اسی جلسے کی لائیو کوریج جاری ہے ۔ایک جگہ طاہرہ سید گارہی ہیں ۔نواز شریف نے وہی چینل لگا لیا ہے۔ طاہرہ سید لہک لہک کر یہ مصرعہ بار بارگارہی ہیں ”یہ منظر بارہا دیکھا نہ جائے“۔
تیسرا منظر
چوہدری شجاعت اور چوہدری پرویز الٰہی اپنے عالیشان ڈرائنگ روم میں بیٹھے ہوئے ہیں۔ ق لیگ کے دوسرے رہنما بھی موجود ہیں۔ ٹیلیویژن پر جیو نیوز کی لائیو نشریات میں ایک کیمرہ نے ایک طویل (Pan)پین آہستہ آہستہ جاری ہے۔ شاٹ میں دور تک سروں کے سوا کچھ اور نظر نہیں آرہا۔ چوہدری شجاعت،چوہدری پرویز الٰہی سے کہنے لگے ”اب دیکھ لے، تمہیں کہتا تھا نا پیپلزپارٹی سے اتحاد نہ کرو ڈاکٹر طاہر القادری کو اپنے ساتھ ملا لو مگر تم مونس کے مشورے مان کر زرداری کے چکر میں آگئے“ ۔ پرویز الٰہی بولے ” اس جلسے سے آپ کیوں پریشان ہو رہے ہیں۔ لاہور میں ہمارے پاس پہلے بھی کوئی سیٹ نہیں تھی، آپ کو تو یہ سوچ کر خوش ہونا چاہئے کہ اس وقت شریف برادران کے ہاتھوں سے طوطے اڑ رہے ہوں گے“۔ چوہدری شجاعت کہنے لگے ”ان کے طوطے اتنی آسانی سے نہیں اڑتے، انہیں چُوری ملتی ہے اور اگر کچھ اُڑ بھی گئے تو انہوں نے بہت سے پال رکھے ہیں ۔
چوتھا منظر
صدر ہاؤس میں آصف علی زرداری پارٹی کے کچھ لوگوں کے ساتھ محو گفتگو ہیں ۔ بلاول زرداری بھٹو ایک طرف بیٹھے ہوئے ٹی وی دیکھ رہے ہیں۔ زرداری صاحب کے پاس بیٹھے ہوئے لوگ بھی کبھی کبھی نظر چرا کر ٹی وی کی طرف دیکھتے ہیں اور پھر زرداری صاحب کی طرف دیکھنے لگتے ہیں۔ اچانک بلاول زرداری نے کہا ”ڈیڈ میں بھی مینارِ پاکستان پر اتنا ہی بڑا جلسہ کرنا چاہتا ہوں“۔ زرداری صاحب کہتے ہیں ”بیٹے فکر نہ کرو تمہارا جلسہ اس سے بھی بڑا ہوگا میں آج ہی منظور وٹو اور پرویز الٰہی سے بات کرتا ہوں“۔ بلاول بھٹو بولا ”ڈیڈ اگر وہ اتنے لوگ جمع کر سکتے تو ہماری پارٹی میں کبھی شامل نہ ہوتے اگر انکل نواز شریف کے ساتھ اعلانیہ اتحاد کر لیا جائے تو پھر یہ ممکن ہے“۔ زرداری صاحب نے سوچتی ہوئی نظروں سے بلاول بھٹو کی طرف دیکھا اور ڈاکٹر قیوم سومرو سے اپنے بیمار گھوڑے کے متعلق پوچھنے لگے۔
پانچواں منظر
مولانا فضل الرحمن اپنے کمرے میں اکیلے ہیں، ٹی وی چل رہا ہے اور بڑے بے چین ہیں۔ بار بار اپنے موبائل سے کوئی فون کال ملانے کی کوشش کرتے ہیں۔ ایک بیل بجتی ہے اور کوئی آگے سے فون کال کاٹ دیتا ہے۔ ان کے بھائی مولانا عطاء الرحمن اندر آتے ہیں۔ وہ ان کی طرف دیکھتے ہوئے کہتے ہیں ”چیونٹیاں بڑھتی جا رہی ہیں اور محسود کا فون نہیں مل رہا“ اور عطاء الرحمن آہستہ سے بولے ”لگتا ہے طالبان بھی عمران خان کے ساتھ مل گئے ہیں“ مولانا فضل الرحمن غصے کے عالم میں کہنے لگے ”یہ سارا اسی منور حسن کا کیا دھرا ہے“۔
اختتامیہ
(یہ جو کچھ اوپر میں نے تصور کی آنکھ سے دیکھا ہے۔ بظاہر اس تصور کے حقیقت میں بدلنے کے امکان نہ ہونے کے برابر ہیں مگر میں اتنا تو حق رکھتا ہوں کہ جس طرح کی چاہوں، خواہش کا اظہار کروں۔ ویسے بھی زندگی میں ہزاروں خواہشیں ایسی ہیں کہ ہر خواہش پہ دم نکلے، ایک اور بھی سہی)۔
تازہ ترین