اسلام آباد (فخر درانی) ملک کے قانونی ماہرین اس بات پر متفق ہیں کہ حکومت کا یہ مطالبہ کہ نواز شریف ملک چھوڑنے کے لیے سیکورٹی بانڈ جمع کرائیں، ناجائز ہے جیسا کہ وہ ایسا کرنے کی مجاز نہیں۔ سابق وزیر اعظم کا نام ای سی ایل سے نکالنے کے لیے شرائط رکھنے کے بجائے وفاقی حکومت کو یہ معاملہ عدالت بھیجنا چاہئے تھا۔
ماہرین کا ماننا ہے کہ نواز شریف کی سزا معطل کردی گئی ہے اور وہ پہلے ہی اپنی ضمانت محفوظ بنانے کے لیے ضمانتی مچلکے جمع کراچکے ہیں۔
حکومت کے پاس کسی کا بھی نام ای سی ایل میں رکھنے یا نکالنے کا اختیار ہے لیکن نواز شریف کے معاملے میں یہ ناجائز عمل ہے کیونکہ عدالت نے انہیں اجازت دی ہے کہ وہ اپنی پسند کا علاج کروائیں۔
دی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے عابد حسن منٹو کا کہنا تھا کہ حکومت کے پاس کسی سزا یافتہ یا معصوم کا نام ای سی ایل میں ڈالنے کا اختیار ہے۔ وہ کسی کو بھی ملک میں داخل ہونے یا ملک سے باہر جانے سے روک سکتی ہے۔ تاہم نواز شریف کے معاملے میں اس کا فیصلہ ناجائز ہے۔
جسٹس (ر) ناصر اسلم زاہد کا ماننا ہے کہ حکومت نواز شریف کو باہر جانے سے روک سکتی ہے تاہم خود ایسا کرنے کے بجائے حکومت کو چاہئے کہ وہ عدالت سے رجوع کرے۔
سابق صدر سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کامران مرتضیٰ نے دی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ حکومت کے پاس ضمانتی مچلکے کے مطالبے کا اختیار نہیں۔ صرف عدالتوں کو ہی یہ اختیار حاصل ہے۔ اس لئے یہ مطالبہ غیر ضروری ہے۔ شکایت کنندہ کو اس کیفیت کے خلاف عدالت سے رجوع کرنا چاہئے۔
ایڈوکیٹ اظہر صدیق کا کہنا تھا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ نے ان کی سزا معطل کی ہے۔ اس نے نواز شریف کو علاج کروانے کیلئے مشروط ضمانت دی ہے۔ اس لئے سزا تو برقرار ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ نواز شریف کو اپنا علاج بیرون ملک کروانے کی اجازت لینے کیلئے اسلام آباد ہائی کورٹ سے رجوع کرنا چاہئے تھا۔
ان کا کہنا تھا کہ لاہور ہائی کورٹ کا فیصلہ اسلام آباد ہائی کورٹ سے مختلف ہے کیونکہ چوہدری شوگر ملز کیس اب بھی انکوائری کے مرحلے میں ہے اور لاہور ہائی کورٹ ان کو باہر جانے کی اجازت دے سکتی ہے۔
تاہم العزیزیہ بالکل مختلف ہے کیونکہ نواز شریف اس کیس میں مجرم قرار دئیے گئے ہیں اور اگر وہ علاج کے لیے بیرون ملک جانا چاہتے ہیں تو انہیں اسلام آباد ہائی کورٹ سے اجازت لینا ہوگی۔