• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
اگر ہم نے یہی دن دیکھنے تھے توتقسیم ہند کی اذیت سے کیوں گزرے ؟یہ سوال برسہا برس سے میرے ذہن میں رہا ہے اور میں اسے پوچھناچاہتا تھا ، لیکن زبان پر لانے کا حوصلہ نہ ہوا کیونکہ ایسا کرنا پاکستان کے وجود پر سوال اٹھانے کے مترادف سمجھا جاتا۔ تاہم آج جب ہم انتہا پسندی اور تشدد کے نت نئے طریقے اپناتے ہوئے عقیدے اور نظریات کے نام پر وحشیانہ طریقے سے خون بہارہے ہیں تو یہ سوال بر محل لگتا ہے۔ میں سمجھ سکتا ہوں کہ ہمارے دفاعی ادارے حکیم الله محسود اور اس طرح کے دیگر غیر ریاستی عناصر کو گرفت میں لانے سے کیوں قاصر ہیں۔ اس کی محض فوجی وجوہات ہیں کیونکہ وہ ایسے دشوار گزار پہاڑی علاقوں میں چھپے ہوئے ہیں جہاں ہمارے فوجی جوانوں کی رسائی مشکل ہے۔امریکہ جیسے ملک کے لئے بھی ویت کانگ سے لڑنا آسان نہ تھا ۔ ہمارے لئے طالبان اورالقائدہ کا اشتراک ”ویت کانگ “ سے کم نہیں۔ تاہم مجھ جیسا سادہ سا شخص اس بات کی تفہیم سے قاصر ہے کہ ہمارے سیکورٹی ادارے مذہبی انتہا پسندوں جو پہاڑوں میں نہیں بلکہ کراچی اور لاہور اور دیگر شہری علاقوں میں موجود ہیں، کو گرفت میں کیوں نہیں لا سکتے ؟ پہاڑی علاقوں میں مورچہ بند طالبان کے حوالے سے بے بسی سمجھ میں آتی ہے لیکن اندرون ملک قتل وغارت کا بازار گرم کرنے والے عناصر کو کیوں کھلی چھٹی ملی ہوئی ہے؟
اَکسفورڈ اور کیمبرج کو اپنی تعلیمی دانش گاہوں پر فخر ہو سکتا ہے تو ہم بھی کسی سے کم نہیں! مذہبی انتہا پسندی کا شکریہ کہ کچھ ” برادر اسلامی ممالک“، جو کسی بھی معاملے میں ہمیں اپنے دست ِ شفقت سے محروم نہیں ہونے دیتے،کے موثر اور عملی تعاون سے آج ہمارے ہاں دینی تعلیم دینے والے مکتبوں اور مدرسوں کی تعداد دنیا میں سب سے زیادہ ہے…․اسے کہتے ہیں ترقی!کیا مغربی درسگاہوں کے فارغ التحصیل سائنسدان ، دانشور اور ماہر ِ تعلیم کوئی ایسا ادارہ بناسکے ہیں جہاں قدم رکھتے ہی ”ذہن“ بدل جائیں؟ہمارے ہاں ان کی لائن لگی ہوئی ہے اور ہر طلوع ہوتا ہوا سورج ان میں درجنوں کے حساب سے اضافہ ہی دیکھتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے ہاں محبت، اخوت اور بھائی چارے کے دریا موجزن ہیں… یہ اور بات ہے کہ ان کا پانی سرخی مائل ہے۔ ترقی کے اس لازوال دور میں حکومت اور دفاعی ادارے بے بسی، سستی، نااہلی اور کاہلی کی تصویر بنے کھوکھلے نعرے ، جن میں فعل مستقبل کا استعمال بکثرت پایاجاتا ہے، لگاتے رہتے ہیں کیونکہ وہ صرف گفتار کے ہی غازی ہیں جبکہ میدان میں ”سرگرم ِعمل“ قوتیں ان کے کہے ہوئے الفاظ کا برا نہیں مناتیں، کہ یہ باعمل لوگوں کو زیب نہیں دیتا۔دربار کے بہادروں کے لئے مغل شہشاہوں کے القاب ایسے ہوتے تھے ، جیسا کہ ”شیرِ قالین“۔ ان کی جرأت و بہادری کی داستانیں دراز تکیوں پر رقم ہوتیں(یہ معلومات میرے کالم نگار دوست مسٹر اکار پٹیل کی فرستادہ ہیں)۔
اس ”پاک “ سرزمین میں کچھ بھی پوشیدہ نہیں ہے۔ ہزارہ قبیلے کے قتل ِ عام کی ذمہ داری لشکر ِ جھنگوی نے قبول کی ہے۔ ہو سکتا ہے کہ بلوچستان میں اس گروہ کو زیادہ نہ جانا جاتا ہو لیکن کیا یہ ہمارے لئے بھی اجنبی ہیں؟ کیا ملک کے سب سے بڑے صوبے کے چاروں کونوں میں ان کی موجودگی نہیں ہے؟کیا ان کے خلاف کوئی کارروائی کی جائے گی؟ہماری شعلہ بیانی تو شاید صحراکا کلیجہ بھی پانی کردے لیکن عملی طور پر ہم ایک تنکا بھی دہرا کرنے کے روادار نہیں ہیں۔ کالم کے آغاز میں اٹھائے گئے سوال میں ایک نئے پیرائے میں پوچھتا ہوں…کیا مہربانی فرما کر کوئی نجومی ہمیں یہ بتاسکتا ہے کہ ہمارے مقدر میں کیا ہے؟ ہم کس طرف بڑھ رہے ہیں؟ ہمارا جمود کس رستخیز کو دعوت دے گا؟طوفان میں گھری ہماری کشتی کس کنارے اترے گی؟ اترے گی بھی یا نہیں؟کسی بھی معاشرے کے قیام کا مقصد عوام کے لئے امن اور خوشحالی کو یقینی بناتے ہوئے اُن کے دلوں میں بہتر مستقبل کی امید پیداکرنا ہوتا ہے تاکہ اُن کی آنے والے نسلیں ان سے بھی بہتر ماحول میں زندگی بسر کر سکیں۔ تاہم آزادی کے65 سال گزارنے کے بعد آج ہم جس دلدل میں دھنس چکے ہیں․․․ اور اس میں ہم نے حادثاتی طورپر نہیں بلکہ برضا ورغبت سے قدم رکھا ہے… کوئی احمق ہی کہے گا کہ ہم آزادی کا مقصد پورا کرتے ہوئے قوم سازی کے عمل سے گزر رہے ہیں۔
پاکستان ایک وسیع تر جغرافیائی خطے میں موجود ہے۔ اس کے اسٹرٹیجک محل ِ وقوع ، جس کی اہمیت ہمارے نام نہاد عسکری ماہرین کے وردِ زبان رہتی ہے، کا ہمیں اس کے سوا اور کیا فائدہ ہوا ہے کہ ہم بیرونی طاقتوں کے آلہ ِ کار بن کر اپنے قومی مقاصد کا خیال کیے بغیر ، محض چند ٹکوں کی خاطر، غیر ضروری احمقانہ جنگوں میں الجھ کر خود کو بڑی ”کامیابی “ سے لہو لہان کرا چکے ہیں۔ اس سے زیادہ افسوس ناک ناکامی کا تصور محال ہے۔ کیا ابھی بھی ہمیں اپنے دشمن کی پہچان میں کوئی مغالطہ ہے؟ کیا اب وقت نہیں آگیا کہ ہم بھارت کو دشمن سمجھنے کی پالیسی سے کنارہ کشی اختیار کریں کیونکہ جس مگر مچھ کے منہ میں ہم نے اپنی ٹانگ دے لی ہے، اس میں بھارت کا کوئی قصور نہیں ہے۔ بھارتی خفیہ ادارہ ”را“ سینکڑوں سالوں کی محنت اور مکاری سے وہ لشکر، تنظیمیں اور گروہ تشکیل نہیں دے سکتا تھا جن سے ہماری دھرتی بھری پڑی ہے۔ ان عناصر سے دنیا کو اتنا خطرہ نہیں ہے جتنا ہمیں ہے۔میری عمر کے مجھ جیسے افراد ایک عجیب مخمصے کا شکار ہیں۔ ہمیں یاد ہے کہ پاکستان کیسا ہوا کرتا تھا۔ یہ کوئی مثالی ریاست نہیں تھی ، اسے بہت سے مسائل کا سامنا تھا لیکن اس کے باوجود یہ رہنے کے لئے بہت اچھی جگہ تھی۔ لیکن اب اس وطن کے جسم کو جہالت اور تنگ نظری کی خون آشام جونکیں چمٹی ہوئی ہیں جبکہ آبادی میں اضافہ اس طرح ہورہا ہے کہ لگتا ہے کہ باقی دنیاکی آبادی آٹھ ارب تک پہنچے نہ پہنچے، پاکستان اس دہشت ناک ہندسے کو اکیلے ہی عبور کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔ جہاں تک ہماری قومی قیادت کا تعلق ہے ہر کوئی دوسرے سے منافقت اور حماقت میں بڑھ کرہے۔ ایک اور حماقت پر غور کریں… الیکشن کمیشن امیدواروں کو پر ہیز گاری کے انتہائی کڑے ترازو پر تولنا چاہتا ہے۔ کیا میرے دوست فخرالدین جی ابراہیم صاحب ہر کولیس کی سی طاقت رکھتے ہیں کہ وہ اس پہاڑ کا ساکام اپنے کندھوں پر اٹھا نے کیلئے تیار ہیں؟اگر کوئی انسان دیومالائی طاقتیں ہی کیوں نہ رکھتا ہو، یہ کام، جو چند انسانوں نے اپنے سر لے لیا ہے،ہر گزہونے کا نہیں ہے۔ اگر صرف معاف شدہ قرضہ جات یا نادہندگان کے ضابطے پر عمل کرنا یقینی بنالیا جائے تو نصف سے زیادہ قومی قیادت سیاسی عمل سے باہر ہوجائے گی۔ اس لیے ایسا کچھ نہیں ہوگا۔ چنانچہ خاطر جمع رکھیں، الیکشن کمیشن کی طرف سے وارننگ دی جاتی رہے گی لیکن عملی طور پر کچھ نہیں ہوگا۔
ہم کب اتنے خوش قسمت تھے کہ بیک جنبش ِ قلم تمام برائیوں اور نااہل سیاست دانوں، جو اس ملک میں انقلاب لانے پر تلے ہوئے ہیں، سے چھٹکارا پالیں۔ یہ بھی درست ہے کہ اس سرزمین پر ایماندار عام افرادکی حکمرانی قائم ہونی چاہیے لیکن ایسا راتوں رات نہیں ہو گا۔ ابھی ہم دہری شہریت سے مسئلے سے نمٹے ہیں اور ٹھیک کیا ہے، لیکن ہم اُن سیاست دانوں ، جن کی نظریں اعلیٰ ترین عہدوں پر ہیں، کے بارے میں کیوں کوئی بات نہیں کرتے جن کے بھاری بھرکم اکاؤنٹس اور وسیع اور مہنگی جائیدادیں بیرونی ممالک میں ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ ہمارے بڑے بڑے رہنماء اپنی منقولہ و غیر منقولہ بیرون ِ ملک رکھنا ہی پسند کرتے ہیں، اس لیے اگر دہری شہریت کا مسئلہ اتنا شدید ہے تو ” دہری جائیداد “ رکھنا بھی کم سنگین نہیں ہے، بلکہ جائیداد رکھتے ہوئے تو وفاداری مزید منقسم ہو جاتی ہے۔
ملک کے صدر کو لاہور میں پچیس ایکڑ کی وسیع و عریض اراضی بطور تحفہ دینا (اگر تحفہ واقعی دیا گیا ہو تو) یقینا انسانی بھلائی کے زمرے میں نہیںآ تا ہے۔ اگر دنیا کے کسی اور ملک میں ایسا واقعہ پیش آیا ہوتا تو ایک طوفان کھڑا ہوجاتا۔ملک کے صدر کو پچیس ایکڑ زمین تحفے میں دے دی گئی؟تاہم یہ پاکستان ہے اوریہاں، خاص طور پرلاہور میں، ”اعلیٰ ظرفی “ اتنی زیادہ ہے کہ ایسی باتوں کا کوئی برا نہیں مناتا… اس کے علاوہ سنگ باری کرنے والے بھی ایسے ہی شیشے کے گھروں میں رہتے ہیں۔ بہرحال ایسے ہی ”آئینہ سازوں“ نے ہمیں انقلاب کے خواب دکھائے ہوئے ہیں۔
یہ دو ممالک کی کہانی ہے… ان دونوں کا نام پاکستان ہی ہے۔ ایک وہ پاکستان جو 1947 میں وجود میں آیا اور 1971 میں خلیج بنگال میں اٹھنے والی شوریدہ سر لہروں کی نذر ہو گیا۔ اس سانحے کے بعد دوسرا پاکستان ذوالفقارعلی بھٹو کے سیاسی نظرئیے نے تراشا، لیکن تاریخ سے سبق نہ سیکھنے کا تہیہ کرتے ہوئے ، ہم التباسات کے گھوڑے پر سوار رہے ، یہاں تک کہ بحر ِ ظلمات آگیا۔ ہمارے اوہام نے جو طلسمات تراش رکھے ہیں، اُن کے سامنے طلسم ِہوشربا ایک تاریخی حقیقت لگتا ہے۔ اب جب حقائق کے پتھروں نے پاؤں چھلنی کئے ہیں تو ایسی ویرانی ہے کہ کسی دشت کو دیکھ کر بھی گھر یاد نہیں آتا۔ اس عالم میں ہم اپنی ترجیحات کا تعین کیسے کر سکتے ہیں؟ہم اپنی معیشت کو بحال کرتے ہوئے کاسہٴ گدائی، جو ہمارا قومی نشان بن چکا ہے، کیسے توڑ سکتے ہیں؟ اس میں کوئی شک نہیں کہ باصلاحیت اور محنتی لوگ موجود ہیں لیکن جس راہ سے بھٹکے ہوئے مدت گزری ہے، اُس پر واپس کون لائے گا۔
تازہ ترین