• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
مایوسی مزید تباہی کا موجب بنتی ہے لیکن کیا کریں امید کا کوئی ساماں بھی نظر نہیں آتا۔ آئندہ سال بڑے خونی نظرآرہے ہیں۔ ہم جیسے تو بدقسمتی سے اس سے زندہ نکل سکیں گے لیکن اب تو اگلی نسل کا مستقبل بھی خونی نظر آنے لگا۔ جس طریقے سے کوئٹہ میں ہزارہ برادری کا قتل عام ہوا ‘ جس طریقے سے کراچی اور ملک کے دیگر حصوں میں اہل سنت کے علماء مارے گئے ‘یہ اس گندے کھیل کا اختتام نہیں بلکہ آغاز ہے۔ اس خونی کھیل کے جس طرح بیج بوئے گئے ہیں‘ جس طرح ریاستوں کی سطح پر اس کی آبیاری ہورہی ہے ‘ جس طرح نظریاتی ‘ معاشی اور حربی محاذوں پر اس جنگ کو زیادہ سے زیادہ تباہ کن بنانے کی تیاریاں زوروں پر ہیں اور جواب میں جس طرح ریاست خاموش تماشائی بن کر پسپائی پر مجبور ہورہی ہے‘اس کے بعد تو اس ملک کو خانہ جنگی سے کوئی معجزہ ہی بچاسکے گا۔ کوئی مسئلہ کی تشخیص کرنے کو تیار ہے اور نہ اسے ترجیح دینے کو ۔ اداروں کو اپنا اپنا ادارہ جاتی مفاد عزیز ہے ‘ سیاستدانوں کو اپنی سیاست پیاری ہے اور ہم جیسوں کو جان عزیز ہے ۔ سب اپنی اپنی جگہ شترمرغ بنے ہوئے ہیں ۔ ہم مچھروں کو چھان اور اونٹوں کو نگل رہے ہیں ۔ انیس بیس فرق پڑسکتا ہے لیکن نہ تو گورنر راج مسئلے کا حل ہے اور نہ کراچی یا کوئٹہ میں فوج طلب کرنے سے دائمی سکون نصیب ہوگا۔ سپریم کورٹ میں چند سماعتوں اور بعض اداروں کی ڈانٹ ڈپٹ سے امن آسکتا ہے اور نہ وفود کے تبادلوں اور دھرنوں سے جان ومال کو تحفظ مل سکتا ہے ۔ دہشت گردی کے مسئلے کی جڑ خارجہ پالیسی اور مجموعی قومی سلامتی کے تصورات میں پیوستہ ہے ۔ جب تک ان نقائص کو دور کرکے کنفیوژن‘ تضادات اور دوغلے پن کو دور نہیں کیا جاتا ‘ گھر گھر فوجی بٹھانے سے بھی پاکستان میں دہشت گردی کا مسئلہ حل نہیں ہوسکتا ۔ اسی طرح فرقہ واریت کی عفریت کو جو چیزیں بڑھاوا دے رہی ہیں ‘ کسی فورم‘ کسی جلسے اور کسی عدالت میں ان کا ذکر ہی نہیں ہورہا لیکن ہم سمجھ بیٹھے ہیں کہ چند انتظامی اقدامات کے ذریعے اس مسئلے کو حل کرلیں گے ۔ شیعہ سنی کا مسلکی اختلاف چودہ سو سالہ پرانا ہے اور برصغیر میں یہ دونوں سالوں سے یہاں پر اکٹھے رہ رہے تھے ۔ سوال یہ ہے کہ پچھلے چند سالوں میں کیا ہوا ہے کہ ان کے بعض لوگ (نہ سب سنی اور نہ سب شیعہ) ایک دوسرے کے خلاف مورچہ زن ہوگئے۔ میری دانست کے مطابق وجہ اس کی یہی ہے کہ یہاں مسلک اور فقہ کی بنیاد پر سیاسی جماعتیں بنانے کی اجازت دی گئی ۔ چنانچہ وہ فقہی اور مسلکی اختلاف جو پہلے صرف علمی حلقوں اور مناظروں تک محدود تھا‘ گلی کوچے اور جلسہ گاہ تک آگیا۔ وہ علماء کی بجائے عام پاکستانیوں کی بحث کا موضوع بن گیا اور چونکہ علماء کے برعکس عام آدمی اختلاف کے آداب کو نہیں سمجھتا ‘ اس لئے وہ گالی اور گولی سے جواب دینے لگا۔ چنانچہ پہلا کام یہ ہونا چاہئے کہ مسلک اور فقہ کی بنیاد پر تنظیم سازی پر پابندی لگادی جائے ۔ قومی سیاسی جماعتوں کو چاہئے کہ وہ سیاسی مصلحتوں سے بالاتر ہو کر اس طرح کی قانون سازی اور اس پر اس کی روح کے مطابق عمل درآمد کے لئے آگے بڑھیں۔ یہ اسلام کے نام پر بننے والا مسلمانوں کا ملک ہے لیکن اگر اسی طرح یہاں مسلک اور فقہ کی بنیاد پر یہ کھیل جاری رہا تو خاکم بدہن نہ یہ ملک رہے گا ‘ نہ اس میں اسلام آسکے گا اور نہ یہاں کوئی مسلمان زندہ رہ سکے گا ۔ اس لئے اسلام اور پاکستان کی خاطر پہلی فرصت میں یہ قدم اٹھادینا چاہیے ۔ فرقہ وارانہ خونریزی کی دوسری بڑی وجہ اسٹریٹجک مقاصد کے لئے فرقہ وارانہ اور عسکری تنظیموں یا پھر مذہب کا استعمال ہے ۔ یوں فوری طور پر اس سلسلے کو ختم کرکے خطے میں اپنے اسٹریٹجک اہداف کے لئے ان طریقوں سے رجوع کرنا چاہئے جو مہذب دنیا آزماچکی ہیں ۔ پڑوسی ممالک کے ساتھ تنازعات کا صرف پاکستان کو سامنا نہیں دنیا کے کئی اور ممالک بھی اس صورت حال سے گزررہے ہیں ۔ وہ پڑوسی ممالک میں اپنے اسٹریٹجک اہداف کے حصول کو یقینی بناتے ہیں لیکن اپنی سوسائٹی کو تباہ کرنے اور اپنے ملک سے قانون کو رخصت کرنے کے عوض نہیں ۔ ہم تو میرے پردادا کی پالیسی پر عمل پیرا ہیں جو کہا کرتے تھے کہ دشمن کی مرغی کو مارنے کے لئے اگر اپنے گھر کی دیوار کو اس کے اوپر گراسکتے ہو تو خوشی سے گرا ڈالو۔ میرے دادا تو پھر بھی اپنے گھر کی دیوار گرا کر دشمن پڑوسی کی مرغی مارلیتے تھے لیکن ہمارا تو المیہ یہ ہے کہ ہم نے گھر کی دیواریں بھی گرادیں اور پڑوسی دشمن کی مرغی بھی نہ مارسکے ۔ کشمیر آزاد کراسکے اور نہ افغانستان کو دسترس میں لاسکے لیکن اپنے پاکستان کو شہرناپرسان بنادیا ۔ ذرا سوچئے کہ کیا دنیا کے کسی اور ملک میں روزانہ پچاس ہزار سے زائد افراد ویزے اور پاسپورٹ کے بغیر داخل ہوسکتے ہیں لیکن ہم نے اپنے افغان بارڈر پر یہ اجازت دے رکھی ہے ۔ پاکستانیوں کے لئے افغانستان کے ویزے کا اور افغانیوں کے لئے پاکستان کے ویزے کا حصول خاصا مشکل کام ہے لیکن بغیر ویزے اور پاسپورٹ کے روزانہ پچاس ہزار سے زائد افراد سرحد پار کرتے ہیں ۔ایک پرامن شہری کے لئے اسلحہ کے لائسنس کا حصول جوئے شیرلانے کے مترادف ہے لیکن بعض اداروں کو یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ اپنے منظور نظر افراد یا تنظیموں پر کلاشنکوفوں کے پرمٹوں کی بارش کردے ۔ لہذا یہ ڈرامے اب بند ہونے چاہئیں اور اس ملک میں رہنے والے ہرفرد اور ہر گروہ کو یکساں قانون کا پابند بنادینا چاہئے۔ ایک اوربڑا مسئلہ اشتعال انگیز اور مخالف فرقہ کے اکابر کی توہین پر مبنی لٹریچر اور تقاریر کی بہتات ہے ۔ پہلے تو یہ مواد کتابی شکل میں دستیاب تھا لیکن اب انٹرنیٹ اور یوٹیوب کی وجہ سے گھر گھر پھیل گیا۔ اپنے اکابر اور محترم ہستیوں کے خلاف وہ مواد جب ایک مسلک کا بندہ دیکھتا ہے تو مشتعل ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا اور جب دوسرے مسلک والا اپنے مسلک کے خلاف دیکھتا ہے تو لامحالہ وہ بھی بھڑک اٹھتا ہے ۔ یہی مواد ہے جو دونوں مسلکوں کے انتہاپسند لوگوں کے پیغام کو پرکشش بناتا ہے اور بعض جذباتی لوگ ان کے کہنے پر مرنے مارنے پر آمادہ ہوجاتے ہیں ۔ لہذا فوری طور پر اس طرح کے مواد کا صفایا ضروری ہے ۔ چوتھی مگر شاید سب سے بڑی وجہ اس خطے میں ایرانی اور عرب بلاک کی پراکسی وار ہے ۔ ان دونوں نے سخت قوانین کے ذریعے اپنے اپنے ملکوں کو تو محفوظ بنادیا ہے لیکن ایک دوسرے کے ساتھ اپنا حساب ہمارے ملک میں ہمارے کاندھوں کو استعمال کرکے اور ہمارا خون بہاکر پورا کررہے ہیں ۔ سچ تو یہ ہے کہ ہمارے ملک کو اتنا نقصان امریکہ اور ہندوستان نے نہیں پہنچایا جتنا کہ ان دوبلاکوں نے پہنچایا ہے اور ہمارے ہاں ان کی مداخلت امریکہ اور ہندوستان سے بہت زیادہ ہے لیکن چونکہ وہ مذہب کی آڑ لیتے اور پاکستان میں مذہبی اور سیاسی لیڈروں کی مٹھی گرم کرتے ہیں ‘ اس لئے کوئی ان کا نام نہیں لیتا۔ اب تو نوبت یہاں تک آگئی ہے کہ دونوں فرقوں کے لوگ پاکستان سے زیادہ اپنے اپنے سرپرست ملک کے وفادار ہیں۔ پاکستان کی تباہی سے انہیں تکلیف نہیں ہوتی لیکن ان ممالک میں سے کسی پر تنقید کرو تو یہ لوگ بھڑک اٹھتے ہیں ۔ اس بات پرکہ یہ جنگ ان ممالک کی جنگ ہے ‘ کا اس سے بڑا ثبوت اور کیا ہوسکتا ہے کہ جوں جوں ان کی کشمکش خلیجی ریاستوں میں شدت اختیار کررہی ہے توں توں پاکستان میں اس جنگ میں شدت آرہی ہے ۔چنانچہ اب تمام مصلحتوں کو بالائے طاق رکھ کر ان دونوں بلاکوں کو شٹ اپ کال دینی چاہئے ۔ ان اقدامات کے بعد اگر انتظامی اور عدالتی سطح پر اقدامات اٹھائے جائیں تو امن کا خواب شرمندہ تعبیر ہوسکتا ہے لیکن ان سمتوں میں قدم اٹھائے بغیر انتظامی اور عدالتی سطح پر کچھ بھی کرنا مچھروں کو چھاننے اور اونٹوں کو نگلنے کے مترادف ہے ۔
تازہ ترین