• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
میں کراچی میں بلاول ہاؤس کے آس پاس ایک دفتر کی تلاش میں تھا۔ کچھ دنوں پہلے کی بات ہے۔ ایک نجی اسپتال کے پیچھے، سڑک پر لگی ایک رکاوٹ نے میرا راستہ روک لیا۔ باقاعدہ ایک چوکی تھی اور باوردی اہلکار موجود تھے۔ میں نے کار سے اترکر پوچھا کہ کیا مجھے آگے جانے کی اجازت ملے گی۔ جواب ملا کہ یہاں سے ایوان صدر شروع ہوتا ہے۔ میں وہاں کھڑا یہ سوچتا رہا کہ چلو، یہ تو معلوم ہوگیا کہ ایوان صدر کہاں سے شروع ہوتا ہے۔ اب میں یہ کس سے جاکر پوچھوں کہ پاکستان کہاں سے شروع ہوتا ہے۔ مشکل یہ ہے کہ اگر کوئی آپ کا راستہ روکے اور اس کے ہاتھ میں بندوق بھی ہو اور قانون نافذ کرنے کا سرکاری اختیار بھی ہو تو پھر آپ کوئی سوال نہیں پوچھ سکتے۔ یہ تومیں ایک ایسے علاقے کا ذکر کر رہا ہوں جس کی سیکورٹی کا ایک منظم بندوبست ہے۔ آپ کو معلوم ہے کہ ایک عام شہری کے لئے کون سے راستے بند ہیں۔ لیکن روزمرہ زندگی میں اکثر یہ ہوتا ہے کہ آپ کہیں جارہے ہوں اور راستہ بند ملے۔ بغیر کسی پیشگی اطلاع… اور یہ بھی کوئی نہ بتائے کہ متبادل راستہ کیا ہے۔ تب آپ کافی دیر، ٹریفک میں پھنسے، ادھر ادھر بھٹکتے رہیں گے۔
یہ صورت حال کہ آپ کہیں جارہے ہوں اور کوئی آپ کا راستہ روک لے ایک استعارہ بھی ہے آپ اپنے ملک کے مسائل اور دکھوں کے بارے میں سوچنا شروع کریں تو بار بار ایسا لگے گا کہ کسی نے آپ کی سوچ کا راستہ روک دیا ہے۔ کہیں قومی سلامتی کی دیوار کھڑی ہے۔ کہیں نظریہ پاکستان کے سپاہی پہرہ دے رہے ہیں۔ کہیں فرسودہ رسوم اور رواج کی خاردار جھاڑیاں کھڑی ہیں اور کہیں مذہبی انتہا پسندی کی خندق کھدی ہے۔ ہر موڑ پر کوئی آپ سے پوچھے گا کہ جناب آپ کہاں جارہے ہیں؟ کیا آپ نے اپنی منزل کا تعین کیا ہے اور اگرکیا ہے تو کیا آپ نے اس کے لئے کوئی ”روڈمیپ“ بنایا ہے؟ کوئی نقشہ ہے آپ کے پاس کہ جس کے سہارے آپ اپنا راستہ تلاش کرسکیں؟ پاکستان کا موجودہ منظرنامہ ایسے بے شمار سوالات کا ایک جنگل ہے جس میں ہم بھٹک رہے ہیں۔ خوف کی فضا طاری ہے۔ ڈراؤنی آوازیں تعاقب میں ہیں۔ کسی طرف سے روشنی اگر دکھائی بھی دیتی ہے تو ذرا سی دیر میں اوجھل ہوجاتی ہے۔
اگر یہ تصویر افسانوی ہے تو آئیے، ٹھوس حقیقتوں کا سامنا کرتے ہیں۔ گزرے ہوئے ہفتے کی ہی مثال لے لیجئے۔ ہم بہت زود فراموش ہیں۔ ہر روز کوئی نئی شہ سرخی ہمیں حیران کردیتی ہے اور ہماری سوچ اورگفتگو کا موضوع بن جاتی ہے۔ لیکن صرف ایک ہفتے پہلے، یعنی 16/فروری کا ایک سانحہ تو شاید ابھی تک ہماری نظروں میں ہے۔ اس لئے بھی کہ اس کے بعد کے واقعات نے ہماری زندگی میں کچھ خلل ڈالا۔ کوئٹہ کی ہزارہ برادری پر فرقہ وارانہ دہشت گردی کے جو حملے ہوتے رہے ہیں یہ ان میں سے ایک ہولناک اور دل دہلا دینے والا حملہ تھا۔ اس حوالے سے 10/جنوری کو جو کچھ ہوا تھا اس کو بھی یاد کرلیجئے۔ ان واقعات کی جو خبریں آپ نے ٹیلی وژن پر دیکھی ہیں ان کو یاد کرنے کی کوشش کیجئے۔ صرف ان دو واقعات کی کھڑکی سے اگر آپ اپنے ملک کو، اس کی حاکمیت کو، اس کے مقاصد کو اور اس کی تقدیر کوسمجھنے کی کوشش کریں تو کتنے سوال ابھریں گے اور کتنے سوالات کے جواب آپ کو آتے ہیں۔ میں تو یہ کہوں گا کہ جس طرح ہزارہ برادری کے خاندان، عورتیں اور بچے، پھول جیسے چہرے، اپنے عزیزوں کی میتوں کے ساتھ، کوئٹہ کی شدید سردی میں کھلے آسمان تلے مسلسل بیٹھے رہے تو یہ بھی ایک استعارہ ہے کہ ہم سب اپنی خواہشات اور امیدوں کی میتیں لئے بیٹھے ہیں اور کوئی ہماری فریاد نہیں سنتا۔ جوکچھ ہم پر گزری ہے۔ جوکچھ ہم اپنے ملک میں ہوتا دیکھ رہے ہیں… دیکھ بھی رہے ہیں اور بھولتے بھی جارہے ہیں۔ اس کی اہمیت کیا ہے؟ اب یہ دیکھئے کہ کراچی میں گزشتہ اختتام ہفتہ ایک ایسا تین روزہ ادبی میلہ منعقد ہوا کہ جس نے چند ہزار باذوق اور ادب نواز افراد کی زندگی میں ایک ہلچل پیدا کردی۔ اتوار کے دن کی تقریبات پر، کوئٹہ کے سانحے کا سایہ پڑا۔ ہر سیشن میں اس کا ذکر ہوا۔ ہزارہ برادری سے یکجہتی کا اظہارکیا گیا۔ ایک منٹ کی خاموشی اختیارکی گئی۔ ایک سیشن کا موضوع یہ تھا کہ غیرملکی نظروں سے پاکستان کیسا دکھائی دیتا ہے۔ پاکستان سے واقف، تین غیرملکی صحافی پینل پر موجود تھے۔ ایک نے یہ سوال اٹھایا کہ کیا پاکستانی سخت جان ہیں یا بے حس… کیونکہ اس کے خیال میں کوئٹہ میں ایک دن پہلے جو سانحہ ہوا تھا اور جو اس کی نوعیت تھی، وہ اگر کسی اور ملک میں ہوتا تو کئی دن کے لئے پورا ملک ہل جاتا، تڑپ اٹھتا۔ اس نے کہا: ”اور ہم یہاں بیٹھے ہیں اور یہ سب کچھ ہورہا ہے“۔ ہاں، ہمارے ملک پر اس کا اثر یوں بہت پڑا کہ احتجاجی دھرنوں نے کسی حد تک زندگی کو مفلوج کردیا۔ ان احتجاجی دھرنوں میں تمام سیاسی جماعتوں، فرقوں، شعبوں اور علاقوں کی ایسی نمائندگی نہ ہوپائی کہ کوئی یہ کہے کہ ملک کا اجتماعی ضمیر جاگ اٹھا ہے اور اب یہ قوم فرقہ واریت اور دہشت گردی کے خلاف کم از کم ایک ایسی دیوار بن گئی ہے جو کراچی کے بلاول ہاؤس کے گرد بنی ہے۔
بے حسی کا ذکر آیا ہے تو میں آپ کو یاد دلاؤں کہ ”جنگ“ میں کالم نگاری کے موجودہ ”سیزن“ کا پہلا کالم میں نے دو آتش زدگیوں پر لکھا تھا۔ اب شاید یہ حادثہ بھی آپ کی یادداشت میں دھندلا چکا ہوکہ چند ماہ پہلے ہی، 11/ستمبر 2012ء کو کراچی میں ایک ایسی آگ لگی کہ جس میں 260جانیں ضائع ہوئیں۔ ان میں خواتین بھی شامل تھیں۔ بلدیہ میں ملبوسات کی ایک فیکٹری میں لگی اس آگ نے اس وقت تو ملک کے احساس کو جھلسا دیا۔ ٹیلی وژن نے وہ مناظر دکھائے کہ آنکھیں نم ہوگئیں۔ یہ بات میں دہراؤں گا کہ اس حادثے میں 260قیمتی، بے بدل زندگیاں خاکستر ہوگئیں۔ میرے خدا، یہ کتنی بڑی تعداد ہے۔ پھرکیا ہوا؟ چند روز بعد ہی میڈیا کی توجہ ایک اور خبر نے حاصل کرلی جب ”یوٹیوب“ پر کسی پاگل نے ایک اسلام دشمن، توہین آمیز وڈیو جاری کردی۔ پورے ملک میں آگ سی لگ گئی۔ سول سوسائٹی اور مزدور تنظیموں کے کچھ سر پھرے ابھی تک بلدیہ کی آتشزدگی سے پیدا ہونے والی صورت حال پر احتجاج کررہے ہیں۔ اس کے برعکس، نیویارک میں ایک سو سال پہلے، یعنی 1911ء میں ایسی ہی ایک آگ لگی جس میں 145ہلاکتیں ہوئیں اور پورا ملک ہل گیا۔ نیویارک تبدیل ہوگیا۔ قوانین بدل گئے۔ لاکھوں افراد نے احتجاج میں اور سوگ میں شرکت کی۔ کتابیں لکھی گئیں۔ فلمیں بنیں۔ ابھی تک کہیں نہ کہیں اس آگ کا حوالہ مل جاتا ہے۔
وہ جوغیرملکی نظروں سے پاکستان کو دیکھنے کا معاملہ ہے تو ایک تبصرہ یہ بھی کیا گیا کہ پاکستانی اس بات پر بہت جزبز ہوتے ہیں کہ کسی ادارے، کسی شخصیت یا اخبار نے پاکستان کے بارے میں کیا کہہ دیا۔ ان کے اپنے ملک میں جوکچھ ہورہا ہے اس کی انہیں کوئی فکر نہیں۔ کوئٹہ کے دوسانحوں کا میں نے ذکرکیا۔ ہزارہ برادری پر جس طرح مسلسل حملے کئے جاتے رہے اسے ہماری حکومتیں، ہماری افواج، ہماری سیاسی جماعتیں اور سماجی ادارے بڑی حد تک صرف دیکھتے ہی رہے۔ اکیلے اکیلے، اپنا دل دکھانے والے لوگ تو ہمہ گیر نوعیت کے قومی مسائل حل نہیں کرسکتے۔ پھر ہزارہ برادری کی کہانی تو پورے المئے کا محض ایک باب ہے۔ اس ملک میں توکیا کچھ ہورہا ہے۔ ہم سب دیکھ رہے ہیں۔ مذہبی انتہا پسندی، دہشت گردی، لوٹ مار، کرپشن… ذرا کراچی پر بھی ایک نظر ڈال لیں۔ جہاں تک فرقہ واریت کا سوال ہے تو2012ء میں اس سے پہلے کے سال سے زیادہ اموات ریکارڈ کی گئیں۔ تین ہزار سے زیادہ شہری اس سال ہلاک ہوئے اور موجودہ سال کے پہلے دو مہینے زیادہ مہلک ثابت ہوئے ہیں۔ اگر یہی روش جاری رہی تو ماہرین کہتے ہیں کہ اس سال ہلاکتوں کی تعداد دگنی بھی ہوسکتی ہے۔ہاں، میں غیرملکی ماہرین کی بات کررہا ہوں۔ ہمارے اپنے ماہرین جو ٹیلی وژن کے ٹاک شوز میں ایک دوسرے سے الجھ کر آپ کا دل بہلاتے ہیں وہ ان معاملات کے بارے میں زیادہ سوچنے کے عادی نہیں ہیں۔ وہ شاید یہ بھی نہیں سوچتے کہ کیا ہم واقعی اجتماعی بے حسی اور بے عملی کا شکار ہیں اور اگر ایسا ہے تو اس کا علاج کیا ہے۔ جو لوگ سوچتے ہیں ان کی سوچ کی راہیں، جیسا کہ میں نے شروع میں کہا، مسدود ہیں۔ ہمارا ملک، ہمارا معاشرہ کس راستے پر چل رہا ہے اس کا ہمیں علم نہیں۔ یہ ضرور سمجھ میں آتا ہے کہ اگر اس نے اپنا راستہ تبدیل نہ کیا تو جنگل میں بھٹکنے کے سوا کوئی اور چارہ نہیں۔
تازہ ترین