• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ایک بڑا غضب ہوگیا۔پندرہ بیس سال بعد ہماری زمین کی کیا درگت بنے گی، اس کرہ ارض پر جینا کتنا دشوار ہو جائے گا اور ہم جو گیس، کوئلہ، پٹرول اور ڈیزل پھونک رہے ہیں، یہ ہماری ہوا، فضا اور ماحول کو پھونک ڈالیں گے، اس تصور کی صبح شام جو تشہیر ہوئی اور آنے والے برسوں کی جو تصویر کھینچی گئی، معمر لوگوں نے ایک کان سے سنا، دوسرے سے اڑا دیا۔

لیکن بچوں پر، خاص طور پر اس دور کے ہونہار اور باشعور بچوں کے ذہنوں پر اس کے بڑے برے اثرات پڑے ہیں۔یہاں مغربی دنیا میں دس دس بارہ بارہ برس کے بچوں نے یہ پوچھنا شروع کردیا ہے کہ اگر دنیا میں زندہ رہنا اتنا ہی دوبھر ہوجائے گا تو ہم لوگ جی کر کیا کریں گے۔ یہ بڑی ہی حساس نسل ہے اور اس کی ذہانت کے آگے ہمارے بزرگوں کی سمجھ بوجھ بہت پیچھے رہ گئی تھی۔

آج کے بچے جو سوال اٹھا رہے ہیں وہ تشویش ناک ہیں اور بہت کچھ سوچنے پر مجبور کرتے ہیں۔اب دو ہی راستے ہیں، یا تو غلط بیانی کی جائے یا سچ کو چھپایا جائے۔اس میں تو کوئی شک نہیں کہ زندگی دشوار ہونے کے سارے آثار نظر آرہے ہیں۔پانی نایاب ہوجائے گا، دریا سوکھ جائیں گے، جھیلوں میں خاک اڑے گی، اور تو اور ہوا میں آکسیجن ختم ہونے لگے گی، سانس لینا دشوار ہوجائے گا۔

یہ باتیں عام طور پر کہی جانے لگی ہیں۔مشکل یہ ہے کہ یہ باتیں کچھ اتنی غلط بھی نہیں،جس طرح درخت کاٹے جارہے ہیں،کرہ ارض گرم ہوتا جارہا ہے جس کے نتیجے میں پہاڑوں پر جمے گلیشیر پگھلنے لگے ہیں اور دریا سوکھنے لگے ہیں، یہ سب علی الا علان کہنے کابڑا مقصد یہی ہے کہ دنیا والے ہوش کے ناخن لیں اور زمین کی فضا کو تباہی سے بچائیں۔

ایسی باتوں کا نئی نسل کے ذہنوں پر جو اثر پڑے گا اور ان کے دماغ پر کیسے اثرات مرتب ہوںگے، یہ قیاس کرنا مشکل نہیں۔ نوعمر لڑکوں لڑکیوں کے نفسیاتی مسائل اور طر ح کے ہوتے ہیں اور صرف ماہرین ہی ان کاقیاس کر سکتے ہیں۔

اب عام طور پر کہا جانے لگا ہے کہ خوف اور دہشت کی فضا نہ قائم کی جائے تو پھر کیا کیا جائے۔ سمندر بری طرح آلودہ ہو رہے ہیں، دنیا میں ہر طرف پلاسٹک کی بھرمار ہے جس کی خوبی یہ ہے کہ خاک میں مل کر بھی خود خاک نہیں ہوتا اور ہزاروں سال تک نہ زنگ کھاتا ہے اور نہ اپنی شکل بدلتا ہے۔ہمارے پھینکے ہوئے پلاسٹک کے تھیلے سب سے گہرے سمندروں کی تہہ تک پہنچ گئے ہیں جہاںسمندری مخلوق اس اجنبی شے کو نگل کر ہلاک ہورہی ہے۔یہ صورت حال دل کو ایک بار تو ضرور دہلاتی ہے۔

اس میں شک نہیں کہ بعض ترقی یافتہ ملکوں نے اور کتنے ہی پسماندہ ممالک نے اس کیفیت سے نمٹنے کی سنجیدہ کوششیں شروع کردی ہیں۔کئی افریقی ملکوں میں پلاسٹک کے تھیلے سختی سے ممنوع قرار دے دئیے گئے ہیں۔ ادھر یورپی ملکوں میں بجلی سے چلنے والی کاروں کو فروغ دیا جارہا ہے۔ اگرچہ ان موٹر گاڑیوں کے اپنے مسائل ہیں لیکن انہیں دور کرنے کے لئے سر توڑ کوشش ہورہی ہے۔

شمسی توانائی مقبول ہونے لگی ہے، میں نے پاکستان کے گاؤں دیہات میں دیکھا کہ لوگ دھوپ کی مدد سے بیٹری چارج کررہے ہیں۔ ہوا سے بجلی بنانے کا رواج عام ہونے لگا ہے اور کچرے سے گیس پید اہونے لگی ہے جو توانائی حاصل کر نے کا سستا اور مفید ذریعہ ہے۔مگر ماہرین کہتے ہیں کہ ان کارروائیوں کے ساتھ ساتھ زمین کی فضا کو نقصان پہنچا نے کی جو سرگرمیاں بلا روک ٹوک جاری ہیں وہ خوفنا ک ہیں، مثال کے طور پرامیزون کے جنگل جو ہماری زمین پر سب سے بڑے اور وسیع جنگل ہیں، بے دردی سے کاٹے جارہے ہیں۔؎

انسان کو آباد ہونے کے لئے سپاٹ زمین چاہئے جس کے حصول کا آسان طریقہ یہی ہے کہ جنگل صاف کئے جائیں، اسی طرح عمارت سازوں کی ٹمبر یعنی لکڑی کی بھوک کی کسی طرح تشفی نہیں ہوتی اور اس کی بجلی بھی ہمارے جنگلوں ہی پر گرتی ہے۔

اس راہ میں ایک بڑی مشکل یہ ہے کہ دنیا کو تباہی سے بچانے کے لئے ساری ہی دنیا کو مل کر کوشش کرنا ہوگی۔ یہ نہیں ہوسکتا کہ مال دار ملک اس راہ میں کچھ تدبیریں کریں اور نادار اور غریب ملک اپنی بے بسی کا رونا روئیں اور اس بھاری بھرکم کارروائی میں اپنا حصہ نہ ڈالیں۔اس موضوع پر ایک بہت بڑی عالمی کانفرنس میں غریب ملکوں نے کہا تھا کہ مال دار دنیا ہمارا ہاتھ بٹائے ورنہ ہمار ے غریب غربا اپنا چولہا جلانے کے لئے درخت کاٹنے پر مجبور ہوں گے۔

دولت مند دنیا نے یہ بات توجہ سے سنی اور اس سلسلے میں پیرس کی ایک کانفرنس میں امریکہ سمیت سارے ہی دولت مند ملکوں نے ایک بڑا معاہدہ بھی کیا تھا لیکن پھر کیا ہوا۔ امریکہ نے ایک نرالی شخصیت کو اپنا صدر چن لیا جس نے اقتدار سنبھالتے ہی بہت بڑے بڑے فیصلے کرنا شروع کردئیے۔ اسی میں ایک فیصلہ یہ تھا کہ امریکہ پیرس کے اس معاہدے کو نہیں مانتا۔ اس سے تو یہی گمان ہوتا ہے کہ کچھ سر پھرے لوگ دنیا کو چین سے جینے نہیں دینا چاہتے۔

برطانیہ میں، جہاں یہ تحریر رقم ہو رہی ہے، موسلا دھار بارشوں نے تباہی مچا دی ہے، بستیاں کی بستیاں زیر آب آگئی ہیں اور گھروں میں رکھا ہوا ساز وسامان پانی میں تیر رہا ہے۔ مکانوں کی قیمتیں خاک میں مل گئی ہیں اور کوئی بیمہ کمپنی عمارتوں اور ان میں سجے دھجے سامان کا انشورنس کرنے کیلئے تیار نہیں۔ ہم نے لوگوں کو پھوٹ پھوٹ کر روتے دیکھا ہے۔

کہتے ہیں کہ دریا اپنے کنارے توڑ کر بستیوں میں آگئے ہیں اور پانی کے بہاؤ کے قدرتی راستوں پر عمارتیں کھڑی کرکے اور پانی کی راہ مسدود کرکے لوگوں نے خود ہی اپنے پاؤں پر کلہاڑی ماری ہے۔ایک طرف یہ حال ہے دوسری جانب پرتگال، آسٹریلیا اور امریکہ کے جنگلوں میں آگ لگی ہوئی ہے جو بستیوں اور آبادیوں کو بھی پھونکے ڈال رہی ہے۔

خود اپنا یہ حال ہے کہ نلکے کی ٹونٹی کھولتے ہیں اور اس میں پانی نکلنے لگتا ہے تو نہ صرف شکر ادا کرتے ہیں بلکہ ساتھ ہی اپنے بچوں اور ان کی اولادوں کا خیال آتا ہے کہ خدا کرے یوں نہ ہو کہ وہ نلکے کی ٹونٹی کھولیں اور اس میں سے شور مچاتی ہوا نکلے اور وہ بھی آلودہ۔

تازہ ترین