• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

فوجی ترجمان کا تازہ بیان اور”شیخ الاسلام “کی واپسی؟

شہری بابو نے دیہاتی لڑکی سے اس کا نام پوچھا۔ جواب ملا ، ”بھولی“۔۔۔۔ ”تو آوٴ ، تمہیں شہر کی سیر کرا دوں“۔۔۔ ”میں اتنی بھولی بھی نہیں“۔ اپنے ” شیخ الاسلام “بھی اتنے بھی بھولے نہیں کہ حاسدین و ناقدین کے طعن و تشنیع یا سپریم کورٹ میں اس حوالے سے جرح پر کینیڈا کی شہریت سے دستبردار ہو جاتے۔ ایک کالم نگار کا کہنا ہے کہ وہ ” شیخ الاسلام “ کی جگہ ہوتا تو سپریم کورٹ میں اسی لمحے کینیڈین نیشنلٹی سے دستبرداری لکھ کر دے دیتا اور کہتا، می لارڈ ! یہ ہے آپ کے اعتراض کا جواب، اب آئیے ، میری پٹیشن کے اصل نکتے کی طرف۔ لیکن ” شیخ الاسلام “ کا معاملہ اتنا سادہ اور ایسا آسان نہیں تھا جتنا اس کے لئے۔ بیکری والے نے گاہک کو بسکٹ کا ریٹ 100 روپے کلو بتایا ۔ ”لیکن سامنے والی بیکری پر تو 80 روپے کلو ہے“۔۔ ” تو وہاں سے لے لو“۔۔۔”وہاں یہ ختم ہو گئے ہیں“۔۔۔ ”میرے پاس بھی ختم ہوں جائیں گے تو میں 60 روپے کلو کردوں گا“۔ ” شیخ الاسلام “ پاکستانی قوم کی بگڑی بنانے اور اس کی آئندہ نسلوں کا مستقبل سنوارنے کے لئے برسوں بعد کینیڈا سے تشریف لائے۔ ٹی وی اشتہارات میں وہ قوم کو پکارتے، تم دھرنے میں شرکت کے لئے گھروں سے نہ نکلے تو تمہاری آئندہ نسلوں کا مستقبل سنوارنے کے لئے کوئی مسیحا نہیں آئے گا۔ ہمیں حیرت تھی کہ یہ پاکستان کی آئندہ نسلوں کامعاملہ تھا اور ” شیخ الاسلام “ اس کے لئے کینیڈین نیشنیلٹی کی اتنی سی قربانی دینے کو تیار نہیں تھے۔ سپریم کورٹ سے اسی بنا پر پٹیشن کے اخراج کے بعد ٹی وی ٹاک شوز میں ان سے یہی سوال کیا گیا کہ آخر اتنے عظیم کاز کے لئے انہوں نے اتنی سی قربانی کیوں نہ دے دی؟ جناب ” شیخ الاسلام “ نے یہاں نیا نکتہ پیدا کیا، مجھ پر ساری امتِ مسلمہ اور دین ِ اسلام کی ذمہ داری ہے (سوا ارب آبادی کی امت ِ مسلمہ میں خستہ حال پاکستانیوں کی تعداد ہی کتنی ہے؟ صرف 18 کروڑ جن کے لئے وہ باقی ایک ارب سے زائد مسلمانوں کی ذمہ داری سے کیسے دستبردار ہوجائیں)۔ ان کا کہنا تھا دنیا کے 5 براعظموں میں، 95 سے زائد ممالک میں میرا نیٹ ورک ہے۔ مجھے مختلف ممالک کی پارلیمنٹ سے بھی خطاب کرنا ہوتا ہے۔ امریکہ اور یورپ میں غیر مسلموں کے روبرو اسلام کا حقیقی چہرہ پیش کرنے کے لئے شہر ، شہر اور ملک، ملک جانا ہوتا ہے۔ وہ مغرب میں مقیم مسلمانوں کو جہاد کے نام پر فساد کے تصورات سے بچانے کے لئے بھی سرگرم رہتے ہیں۔ (” شیخ الاسلام “ کی سیکیورٹی کے لئے وہاں کی حکومتیں غیر معمولی اقدامات کرتی ہیں۔ نیویارک میں مسلمانوں کے ایسے ہی ایک اجتماع میں ” شیخ الاسلام “ کی سکیورٹی کے لئے نیویارک کاوٴنٹر ٹیررازم کا چیف خود موجود تھا)۔ ”شیخ الاسلام “ کا کہنا تھا کہ یہ سب کچھ کینیڈین نیشنلٹی کے فیوض و برکات ہیں ورنہ پاکستانی پاسپورٹ پر یورپ اور امریکہ کا ویزہ کہاں ملتا ہے۔ انہوں نے قاضی حسین احمد کی مثال دی۔ ان کے بقول اسلام آباد میں امریکی سفارت خانے میں کئی روز تک قاضی صاحب کی درخواست سرد خانے میں پڑی رہی ، پھر انٹرویو کے لئے بلایا گیا اور ویزہ دینے سے معذرت کر لی گئی۔ ”شیخ الاسلام “کی بات پر شک و شبہ ، لاحول ولا قوة، ہم نے توبہ استغفار کرتے ہوئے منصورہ والوں سے تصدیق چاہی تو ان کے لئے بھی یہ بات انکشاف کا درجہ رکھتی تھی البتہ انور نیازی کو اتنی سی بات یاد تھی کہ ایک اخبار میں یہ خبر شائع ہونے پر خود قاضی صاحب نے اس کی تردید کر دی تھی اور یہ بات تو ہمیں بھی یاد تھی کہ نائن الیون کے بعد قاضی صاحب خود امریکیوں کی دعوت پر واشنگٹن تشریف لے گئے تھے جہاں امریکی پالیسی سازوں سے تبادلہ خیال میں انہوں نے کھل کر اپنا موقف بیان کیا تھا۔ ” شیخ الاسلام “ کے بقول پاکستانی پاسپورٹ پر امریکہ اور یورپ کے ویزہ کا حصول ناممکنات میں سے ہے۔ جب کہ ہم دیکھتے ہیں کہ روزانہ سینکڑوں پاکستانی سبز پاسپورٹ پر امریکہ اور یورپ کا سفر کرتے ہیں۔ خود ”شیخ الاسلام “ کے ”نان نیٹو اتحادی“ کپتان کو بھی اس میں کوئی دشواری نہیں ہوتی۔ وہ وقتاً فوقتاً امریکہ اور یورپ جا کر نہ صرف پاکستانیوں سے خطاب کرتے بلکہ شوکت خانم ہسپتال اور تحریک ِ انصاف کے لئے لاکھوں ڈالر، پاوٴنڈ اور یورو کا چندہ بھی جمع کر کے لاتے ہیں۔ کچھ عرصہ قبل ٹورنٹو ائیرپورٹ کا واقعہ عطیات جمع کرنے کے حوالے سے ایک ٹیکنیکل مسئلے کی بنا پر پیش آیا تھا لیکن وہاں بھی پوچھ گچھ کے بعد انہیں اگلی فلائٹ پر روانہ کر دیا گیا اور امریکہ پہنچ کر اقوامِ متحدہ کے سامنے ڈرون حملوں کے خلاف احتجاجی مظاہروں کا پروگرام انہوں نے کچھ ذاتی وجوہات کی بنا پر منسوخ کر دیا البتہ مختلف شہروں میں چندہ مہم کے تمام پروگراموں میں شرکت کی تھی۔ جنابِ ”شیخ الاسلام “ طالبان اور ان کے جہاد کے خلاف 600 صفحات کے اپنے فتوے کی بنا پر ویسے بھی امریکہ اور مغرب والوں کے بہت چہیتے ہیں۔ اسلام آباد میں کون سا غیر ملکی سفارتخانہ ہے جہاں ” شیخ الاسلام “ کی عظیم الشان خدمات کا پروفائل موجود نہ ہو اور وہ یہ سب کچھ جاننے کے باوجود انہیں ویزہ دینے سے انکار کر دے۔
سپریم کورٹ میں پٹیشن کے اخراج کے بعد جناب ”شیخ الاسلام “ نے انقلاب کے لئے عوامی مارچ شروع کرنے کا اعلان کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ اپنے انقلابی لشکر کے ساتھ جس شہر کا رخ کریں گے، ان کے پہنچنے سے پہلے ہی چوہے وہاں سے بھاگ جائیں گے(اور اہلِ شہر فصیلِ شہر سے باہراظہارِ اطاعت کے لئے ان کے خیرمقدم کو موجود ہوں گے)۔اس ”چوہے بھگاوٴ“مہم میں تادمِ تحریر وہ گوجرانوالہ اور فیصل آباد جا چکے ہیں۔ یہاں سے چوہوں کے بھاگنے کی خبر تو نہیں آئی البتہ ہم نے ان دونوں شہروں میں غیر جانبدار حلقوں سے رابطہ کیا تو معلوم ہوا کہ ہر دو جگہ مقامی لوگوں نے لشکرِ انقلاب کا نوٹس ہی نہ لیا۔ ” شیخ الاسلام “کے مریدین تھے جن کی خاصی بڑی تعداد اپنے مرشد کے ساتھ محوِ سفر تھی۔ کچھ عقیدت مند قریبی قصبات اور دیہات سے بھی چلے آئے تھے۔ ہمارے ایک ستم ظریف عزیز نے دلچسپ تجویز پیش کی، ٹی وی والوں سے کہیں کہ وہ حاضرین کے چہروں کو ذرا قریب سے دکھائیں۔ بیشتر چہرے وہ ہوں گے جو گوجرانوالہ میں بھی دکھائی دیں گے اور فیصل آباد میں بھی۔ اور ہاں ! پولیٹیکل پارٹیز آرڈر 2002 کے تحت دہری شہریت کا حامل کوئی شخض کسی سیاسی پارٹی کا سربراہ نہیں ہو سکتا۔ حکومت اور اس کے اتحادیوں کے ساتھ 17 جنوری کے کنٹینر معاہدے پر ”شیخ الاسلام “نے چیئرمین پاکستان عوامی تحریک کے دستخط کئے۔ کچھ روز بعد انہوں نے تحریک کی سربراہی سے استعفٰی کا اعلان کرتے ہوئے جناب رحیق عباسی کو اپنا جانشین نامزد کر دیا۔ (دونوں صاحبزادے بھی کینیڈین نیشنلٹی کی بنا پر کسی سیاسی جماعت کی سربراہی کے لئے نااہل ہیں)۔ لیکن رحیق عباسی کہاں ہیں؟ ہمیں تو ”وہ چوہے بھگاوٴ“مہم میں نظر آئے نہ کسی پریس کانفرنس میں۔ ” شیخ الاسلام “ نے پشاور اور سکھر کے جلسے منسوخ کرنے کا اعلان کر دیا ہے۔ فوجی ترجمان کی طرف سے جمہوریت اور عام انتخابات کے ساتھ عساکر پاکستان اور ان کی قیادت کی وابستگی اور یکجہتی کے تازہ اظہار کے بعد، سنا ہے جناب ” شیخ الاسلام “ کینیڈا واپسی کے لئے یکسو ہو گئے ہیں۔ باقی رہی کینیڈین نیشنلٹی کی بات تو اس میں دین ِ اسلام اور امت ِ مسلمہ کی ذمہ داری کے علاوہ کروڑوں ، اربوں ڈالرز کے اثاثوں کا معاملہ بھی ہے اور ظاہر ہے اسلام اور قرآن کے نام پر بنائے گئے ان اثاثوں کا تحفظ بھی ایک اسلامی ذمہ داری ہے جو ”شیخ الاسلام “ اور ان کی فیملی کے نام پر ہیں۔
تازہ ترین