• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اینٹی بے نامی ادارے نے کھربوں کے پوشیدہ اثاثوں کا سراغ لگا گیا‘ تحقیقات شروع

اسلام آباد (حنیف خالد) ڈائریکٹر جنرل اینٹی بے نامی انیشیٹو ڈاکٹر بشیر اللہ خان مروت نے انکشاف کیا ہے کہ انکے ادارے نے قومی سطح پر کھربوں روپے مالیتی بے نامی اثاثہ جات کی مختلف ذرائع سے انفارمیشن حاصل کر لی ہے۔ ان میں بے نامی ٹرانزکشن بروہبیشن ایکٹ(بی ٹی پی اے) کو مخبروں‘ نادرا‘ ریونیو ڈیپارٹمنٹ‘ ایف آئی اے‘ اسٹیٹ بینک آف پاکستان‘ ملکی بینکوں‘ وسل بلوور ایکٹ سے استفادہ کرنے کے خواہاں محب وطن پاکستانیوں نے کراچی سے پشاور تک سے باوثوق انفارمیشن دی ہیں جس کے تحت سوا دو سو بے نامی دار اور ان سے استفادہ کرنے والے ڈیڑھ سو سے زائد بزنس مینوں‘ سیاست دانوں‘ جاگیرداروں‘ سابقہ و موجودہ بیورو کریٹس کے کیسوں کی تحقیقات ایکسیس ٹو انفارمیشن‘ وسل بلوور ایکٹ‘ وسل بلوور پروڈکشن اینڈ ویجی لینس کمیشن آرڈیننس 2019ء کے تحت قومی سطح پر حکومت نے خفیہ تحقیقات شروع کر دی ہیں۔ ان میں کھربوں روپے کے پوشیدہ اثاثہ جات‘ بینک اکائونٹس‘ بیش بہا گاڑیوں کے مالکان شامل ہیں۔تاہم جب اثاثوں کے حوالے سے متعلقہ افراد کے قریبی حلقوں سے رابطہ کیا گیا تو انکا کہنا ہے کہ اسطرح کے الزامات بے بنیاد ہیں انکے کوئی ٹھوس شواہد موجود نہیں ہیں جب متعلقہ اداروں میں مقدمات چلیں گے تو صورتحال کھل کر سامنے آجائیں گے اور وقت بتائے گا کہ الزامات کی کوئی بنیاد نہیں ہیں اور مخصوص مقاصد کیلئے لگائے گئے ہیں اس مہم کے پس پردہ مقاصد بھی جلد سامنے آجائیں گےاب تک ان کا ادارہ 15ریفرنس فائل کر چکا ہے جن کے نام یہ ہیں۔ ندیم احمد خان اومنی گروپ‘ سمٹ بینک لمیٹڈ کے کئی ملین شیئرز‘ سراکام کیپٹل اینڈ پرائیویٹ ہولڈنگ کمپنی آف اومنی گروپ‘ 2کروڑ 26لاکھ 43ہزار 335ایکویٹی شیئرز آف ٹھٹھہ سیمنٹ کمپنی لمیٹڈ (سکائی پاک ہولڈنگ پرائیویٹ لمیٹڈ) آف محمد یونس قدوائی‘ 7ہزار 124 کنال اراضی جس کے بے نامی دار چوہدری تنویر ہیں اور یہ اراضی مبینہ طور پر انہوں نے اپنے ملازمین‘ رشتہ داروں کے نام پر لے رکھی ہے۔ 7لاکھ 53ایکویٹی شیئرز آف ٹھٹھہ سیمنٹ کمپنی لمیٹڈ (رائزنگ سٹار ہولڈنگ پرائیویٹ لمیٹڈ) محمد یونس قدوائی‘ 3کروڑ 20لاکھ شیئرز آف سمیٹ بینک لمیٹڈ جس کے بے نامی دار پارک ویو سٹاک اینڈ کیپٹل پرائیویٹ لمیٹڈ اور اس سے مبینہ طور پر استفادہ کرنے والے اومنی گروپ کے محمد یونس قدوائی‘ 2کروڑ 26لاکھ 44ہزار 335ایکویٹی شیئرز آف ٹھٹھہ سیمنٹ کمپنی لمیٹڈ (المفتاح ہولڈنگ پرائیویٹ لمیٹڈ) آف محمد یونس قدوائی‘ 3ہزار 220مربع گز پلازہ انٹرپرائزز پرائیویٹ لمیٹڈ آف خواجہ انور مجید‘ 5ہزار 145مربع گز قیمتی رقبہ آف مارشل ہومز بلڈرز ڈیویلپرز پرائیویٹ لمیٹڈ آف محمد یونس قدوائی‘ ساڑھے 8کنال آف پیرامائونٹ بلڈرز پرائیویٹ لمیٹڈ جس سے استفادہ کرنے والی کمپنیاں روبی کان پرائیویٹ لمیٹڈ‘ پارتھنن پرائیویٹ لمیٹڈ‘ پرنس ڈان بلڈرز اینڈ ڈیویلپرز پرائیویٹ لمیٹڈ‘ اسلم مسعود مناہل مجید مبینہ طور پر ہیں۔ انکے ریفرنس دائر کرنے کے بعد تقریباً سوا دو سو بے نامی پراپرٹی رکھنے والے بے نامی داروں کیخلاف ریفرنس عنقریب دائر کر دیئے جائینگے۔ ڈائریکٹر جنرل اینٹی بے نامی انیشیٹو ڈاکٹر بشیر اللہ خان مروت کے مطابق انکے ادارے نے 17ارب روپے کے پوشیدہ منقولہ و غیرمنقولہ اثاثہ جات (بنگلے‘ کمرشل پلازے اور کروڑوں روپے مالیتی گاڑیاں) اٹیچ کر لی ہیں۔ اب ان 17ارب روپے کے بے نامی اثاثے انکے بے نامی دار کسی شکل میں نہ تو فروخت کر سکیں گے نہ منتقل کر سکیں گے نہ گفٹ کر سکیں گے۔ اطلاع تک رسائی اور وسل بلوور پروٹیکشن اینڈ ویجی لنس کمیشن آرڈیننس 2019ء اور بے نامی ٹرانزیکشن ممنوعہ ایکٹ (بی ٹی پی اے) کے ساتھ ہی ڈائریکٹر جنرل اینٹی بے نامی انیشیٹو نے بے نامی کی شکل میں پوشیدہ اثاثے/جائیدادیں اور بدعنوانی کیخلاف ایک دوررس مہم کا آغاز کر دیا ہے۔ حکومت معاشرے میں بدعنوانی کیخلاف پوری طرح سے برسرپیکار ہے۔ اس مقصد کیلئے پاکستان کے تین شہروں میں بے نامی زون قائم کئے گئے ہیں اور انہیں پورے پاکستان میں دائرہ اختیار دیا گیا ہے۔ پی ٹی اے کے تحت تفتیش کرنا ٹیکس کی سادہ تفتیش نہیں ہے۔ کوئی بھی ریفرنس دائر کرنے کیلئے بے نامی انیشیٹنگ اتھارٹی کو فائدہ کنندہ مالک کیخلاف ٹھوس شواہد سامنے رکھنا ہونگے۔ مزید یہ کہ انیشیٹنگ اتھارٹی کو اس اثاثے کے مبینہ بین امیدوار اور فائدہ کنندہ مالک سے کڑیاں جوڑنی ہونگی۔ اس ڈائریکٹوریٹ کے قیام کے بعد بہت کم ریفرنس دائر کئے گئے تھے تاہم حال ہی میں اسکے آپریشنل ہونے کے چار ماہ کے دوران ایڈجوڈیکیٹنگ اتھارٹی کے سامنے 15ریفرنس دائر کئے گئے ہیں جس میں زمین‘ املاک/جائیداد کے کاروبار کرنے والے زندگی کے تمام شعبوں سے تعلق رکھنے والے بڑے نام شامل ہیں۔ ان جائیدادوں کی مالیت کم از کم 10ارب روپے سے زیادہ سنتی ہے۔ اسکے علاوہ تقریباً 20ارب روپے سے زیادہ بے نامی جائیدادوں کے سراغ کے پیچھے تفتیش کا عمل جاری ہے اور کئی مراحل سے گزرنے کے بعد ان کو آخری ریفرنس کی شکل دی جائیگی۔ اس سے پہلے تقریباً 17ارب روپے کی بے نامی جائیدادیں حکومت نے اپنے قبضے میں لی ہوئی ہیں جس کا مطلب یہ ہے کہ اب بے نامی دار ان جائیدادوں کی خریدو فروخت کے قابل نہیں رہے۔ تاحال یہ ڈائریکٹوریٹ 212بے نامی داروں سے پوچھ گچھ کر رہے ہیں جن کے اصل 148مالک کوئی اور ہیں۔
تازہ ترین