• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
روز آشنائی … تنویرزمان خان، لندن
آج کل لاہور میں ہوں۔ خاص کام سے آیا ہوں۔ کام ہے اپنے کالموں کو کتابی شکل دے کر محفوظ کرسکوں۔ یہ میرے بڑے بیٹے کا بڑا کام ہے لیکن دلچسپ ہے کیونکہ مجھے کالموں کی پبلشنگ کے دوران اپنا گزشتہ آٹھ سالہ کام ایک نظر دیکھنے کا موقع ملا اور ساری تاریخ نظروں سے گزری۔ اب یوں تو میں اپنے کام کو آخری شکل دے رہا ہوں۔ جس پر بہت حوصلہ بھی ہوا کہ استاد ِصحافت جناب آئی اے احسان بھی اپنے کمنٹ دینے پر بخوشی رضا مند ہیں۔ اب میں کتا ب کی لانچ سے پہلے دیگر اظہار خیال کرنے والوں پر تبصرہ نہیں کرنا چاہتا۔ کچھ باتیں آئندہ کیلئے اٹھا کر رکھنی چاہئیں۔ دراصل گزشتہ آٹھ سال کے تقریباً چار سو سے زائد کالم ایک جلد میں مرتب ہونے ممکن نہیں۔ پھر بھی دو زخیم کتب کی شکل بن جائے گی۔ گو کہ آج کل پاکستان میں کیا دنیا بھر میں کتاب پڑھنے کا رجحان بہت گھٹتا جارہا ہے۔ انٹرنیٹ اور ٹیکنالوجی نے صرف رجحان بس تبدیل نہیں کیا بلکہ اپنے مخصوص علوم میں گہرائی رکھنے والے عالم اور فلسفی بھی پیدا ہونے بند ہوگئے ہیں۔ علوم کو سر سری طور پر جاننے کا رجحان ہے۔ ایک زمانہ تھا جب کئی کئی علوم پر عبور رکھنے والے فلاسفر، مفکر، ریاضی دان اور کئی کئی علوم پر دسترس رکھنے والے پیدا ہوتے تھے۔ اب تو ہر چیز جلدی میں ہے۔ خیر میں اب صرف کتاب ہی مرتب نہیں کررہا بلکہ فرخ سہگل گوئندی کے ساتھ (جوکہ میری کتاب کے پبلشر بھی ہیں) کام کرنے کا بہت مزہ آرہا ہے۔ روزانہ چند گھنٹے ضرور اکٹھے گزرتے ہیں۔ البتہ ساتھ ساتھ لاہور میں کئی دلچسپ نقائص اور خوبیاں بھی مشاہدے میں آرہی ہیں۔ ہیں تو معمولی لیکن آپ کے شہباز شریف نے اپنے دورِ اقتدار میں لاہور کی شکل بدل دی ہے۔ شکل تو بدل گئی ہے ( میں یہاں کرپشن کے معاملات کو بیج میں نہیں گھسیٹا چاہتا) البتہ وہی طبقاتی بات ہے۔ اتنی نئی سڑکیں بن گئی ہیں کہ مجھ جیسا لاہور کا حجم پل ہونے کے باوجود راستے بھول جاتا ہے لیکن 99 فیصد یا اس سے بھی زیادہ سٹرکوں کے گرد کہیں فٹ پاتھ نہیں ہے۔ پیدل چلنےوالوں کو ٹریفک کے رحم و کرم پر ہی سڑک چلنا پڑتا ہے۔ اس کی یہی وجہ سمجھ آتی ہے کہ پیدل چلنے والوں کو کوئی حیثیت اور مقام نہیں دیا جاتا۔ ان کے پیدل چل کے ایک جگہ سے دوسری جگہ پہنچنے کیلئے کوئی سہولت مختص نہیں کئی گئی۔ یہ بڑے افسوس کی بات ہے۔ اسی لئے شاید آئے دن خبریں آتی رہتی ہیں کہ گاڑی نے راہگیر کو کچل دیا۔ یا گاڑی راہگیروں پر چڑھ دوڑی، جہاں پیدل چلنے والوں کی یا دوسرے لفظوں میں غریبوں کی یہ حیثیت ہو وہاں بھلا غریب نے جی کے کیا کرنا ہے۔ ہسپتالوں میں غریب جس طرح میدانوں سڑکوں، برآمدوں اور کونوں کھدروں میں اپنے مریضوں کو لے کر بیٹھے ہوتے ہیں۔ انہیں بھلا زندگی جینے کا کیا حوصلہ دے گی۔ خیر میں اپنی گفتگو تو اتنا سنجیدہ نہیں بنانا چاہتا۔ آپ کے ساتھ ایک رکشے میں سفر کا حال بانٹنا چاہتا ہوں۔ ویسے تو میں روزانہ ہی رکشے وغیرہ پر ضرور سفر کرتاہوں لیکن یہ رکشے والا تو یوں محسوس ہوا گویا عزرائیل کی طرف سے بھیجا ہوا کوئی اڑن کھٹولا لے کر آیا ہوا۔ میرے ذہن میں میرے دوسرے ہوسیقار ماسٹر طفیل آگئے جو ایک رکشے کے حادثے میں ہی ایسی چوٹیں لگوا کے لندن پہنچے کہ پھر عزرائیلی اڑن کھٹولے نے انہیں ساتھ لے کر ہی دم لیا۔ خیر میرے رکشے والے میں بھی کچھ ایسی ہی پھرتیاں تھیں۔ ایسی تنگ جگہوں سے بڑی پھرتی سے گزر جاتا جہاں سے میں پیدل گزرتے ہوئے بھی جسم کو دو ایک انگڑائی نما بل دیئے بغیر نہ گزر سکتا۔ کئی جگہوں پر تو میں یہ سمجھتا کہ یہ اڑن طشتری ضرور گزر جائےگی لیکن میں پیچھے ہی رہ جاؤں گا لیکن اس کی یہ دلہن کی ڈولی نما اڑن طشتری مجھے جھولے جھلاتی، میری پسلیوں کو رکشے کی راڈوں سے پنجہ آزمائی کرواتی میری جینے کی خواہش کا ٹیسٹ کرتی ہوئی آگے نکل جاتی۔ میں نے اسے کہا بھائی۔ میں نے مریخ پر نہیں جانا۔ ذرا لوکل سفر ہے۔ سلامت پہنچا دو تو غنیمت جانوں۔ کہنے لگا، باؤ جی! ٹریفک بہت ہے اور بچوں کا پیٹ بھی پالنا ہے۔ میں چپ ہوگیا کہ پتہ نہیں بے چارہ غربت مٹانے صبح سے کس ارادے سے نکلا ہوا ہے۔ خیر میرے ذہن میں مرہم پیٹیاں، ہسپتال، ایمبولینس وغیر سب کچھ گردش کرتا رہا اور میں خاموش ہوگیا۔ ویسے میں یہاں دوران سفر یا کہیں کسی پبلک کی جگہوں پر عام لوگوں کے حالات جاننے کی کوشش ضرور کرتا رہتا ہوں۔ مجھے لوگ بہت پریشان، غیر یقینی کا شکار اور مایوس نظر آئے۔ہر ایک یہی کہتا ہوا ملا کہ مار ڈالا حکومت کے جھوٹے نعروں نے۔ ہم اس کے فریب میں آگئے۔ حکومت کے پاس حالات درست کرنے کا کوئی مصالحہ نہیں ہے۔ لیکن باؤجی !اس نے تو ہماری روٹی اور نیند دونوں کو مشکل میں ڈال دیا ہے۔ پتہ نہیں اب ہم اس مشکل سے نکلیں گے بھی یا نہیں۔ میں نے اسے بہر حال بھلے کی امید دلائی۔
تازہ ترین