• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مولانا فضل الرحمٰن اور احسن اقبال وطنِ عزیز کے قابلِ احترام قومی سیاستدان ہیں، درویش جن کے ساتھ ذاتی طور پر تعلق اور قربت کا طویل پسِ منظر رکھتا ہے مگر حالیہ دنوں کرتارپور کوریڈور کے حوالے سے ہر دو معزز شخصیات نے حکومت یا وزیراعظم عمران خان پر جو اعتراضات و سوالات اٹھائے ہیں، وہ شہد میں سرکہ ڈالنے والی بات ہے۔

عمران خان اِس وقت وزیراعظم پاکستان کی حیثیت سے کام کر رہے ہیں اور اُن پر سرکاری ذمہ داری کے تناظر میں ایک سو ایک سوالات کی گنجائش موجود ہے لیکن کرتارپور امن راہداری اُن کا اور بھارت سرکار کا ایک ایسا تاریخی کارنامہ ہے جس کا انکار روزِ روشن کا انکار ہے۔

مولانا صاحب کا یہ فرمانا ہے کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان اس وقت سخت منافرت ہے، لائن آف کنٹرول اتنی حساس بنی ہوئی ہے کہ ہر روز گولہ باری کی خبریں آتی ہیں، جب کشمیر میں پاکستان اور بھارت کے مابین لائن آف کنٹرول اتنی ہارڈ ہے تو پنجاب میں ہمارا مشترکہ بارڈر اتنا سافٹ کیوں بنایا جا رہا ہے کہ کرتارپور امن راہداری کھولنے کے بہانے بھارتی شہری بغیر ویزے یا پاسپورٹ کے پاکستان میں روزانہ کی بنیاد پر داخل ہو سکیں گے، یہ تو کھلا تضاد ہے۔

اِس کے جواب میں وزیراعظم عمران خان کا مؤقف واضح ہے کہ پاکستان اور بھارت کے تعلقات چاہے جتنے مرضی خراب ہو جائیں لیکن بابا گورو نانک کے حوالے سے کرتارپور سکھوں کے لیے اتنا مقدس ہے جتنا ہمارے لیے مدینہ منورہ، لہٰذا اس پر سیاست نہیں ہوگی، انہیں اپنے مقدس مقام پر آنے یا حاضری دینے کی اجازت بہرصورت دی جائے گی۔

پسِ پردہ مقاصد کے علی الرغم درویش کم از کم اس ایشو پر عمران خان کا مؤقف درست سمجھتا ہے۔ ایک طرف ہم یہ کہتے ہیں کہ مذہب پر سیاست نہیں ہونی چاہئے دوسری طرف ہم اگر سیاسی جھگڑوں کی وجہ سے مذہبی یا انسانی جذبات و احساسات پر ناجائز و ناروا پابندیاں لگائیں تو دنیا میں کوئی بھی اس کی تحسین نہیں کرے گا۔

بابا گورو نانک صرف سکھوں کے نزدیک ہی نہیں بہت سے مسلمانوں کے نزدیک بھی قابلِ صد احترام شخصیت ہیں جنہوں نے زندگی بھر امن، دوستی، بھائی چارے، وحدت اور ایکتا کے لیے کام کیا۔ سکھوں کے علاوہ ہندو بھی انہیں ایک مہان ہستی، بھگوان اور دیوتا کی حیثیت دیتے ہیں۔

برسوں قبل درویش ننکانہ صاحب میں سندھ سے آئے ان گنت ہندوں کو ملتا رہا ہے جو بابا جی کے جنم استھان کی ہر سال یاترا کرتے تھے۔ ویسے بھی سکھ بھائیوں کی اکثریت خود کو ہندو قوم کا حصہ تصور کرتی ہے اور بابا جی بھی پیدائشی طور پر ہندو ہی تھے اس لیے کرتارپور کوریڈور کے ذریعے آنے جانے والے بھارتیوں پر ہندو یا سکھ کی امتیازی بندش نہیں لگائی جا سکتی۔

دوسرے یہ کہنا کہ اگر کشمیری باہم نہیں مل سکتے تو پنجابی کیوں ملیں، یہ سوچ بھی غلط ہے۔ اس کے بالمقابل ہر دو ممالک میں یہ سوچ پروان چڑھنی چاہئے کہ جس طرح کرتارپور کوریڈور کے ذریعے ہر دو اطراف کے پنجابی یا بھارتی بغیر ویزے کے آجا سکتے ہیں اسی طرح یہ حق کشمیریوں کے لیے تو اولیٰ ہے،

زیادہ ضروری ہے کہ وہ بھی بغیر ویزہ، پاسپورٹ یا کسی بھی نوع کی رکاوٹ کے نہ صرف باہم مل سکیں بلکہ دیگر کاروباری، تجارتی، سماجی، مذہبی اور معاشرتی سرگرمیوں میں بھرپور شراکت کر سکیں۔ ہم نے یہ مطالبہ جس طرح پنجاب میں بھارتی گورنمنٹ سے منوایا ہے اسی طرح کشمیر میں لائن آف کنٹرول پر بھی بھارتی حکومت سے یہ مطالبہ منوایا جا سکتا ہے۔ اکیسویں صدی میں ہمیں ماضی کی منافرتوں سے باہر آنا پڑے گا۔

دوسری جانب احسن اقبال کہہ رہے ہیں کہ ویزے کی پابندی ہٹانا تو جائز ہے لیکن پاسپورٹ کی پابندی ہٹانا ناجائز ہے۔ حکومت کہہ رہی ہے کہ پاسپورٹ کی پابندی بابا جی کے احترام میں محض ایک سال کے لیے ہٹائی گئی ہے جبکہ درویش کی رائے میں بابا جی کا احترام مستقل بنیادوں پر قائم کرتے ہوئے اگر کم از کم کرتارپور راہداری کی حد تک یہ پابندی مستقل بنیادوں پر ہٹائی جائے تو بھی اس پر اعتراض بلا جواز ہوگا۔

جب اُسی روز ان یاتریوں نے واپس چلے جانا ہے تو شناخت کا اندراج کرتے ہوئے دیگر بندشوں کو ہٹانا بڑے مقاصد کے حصول میں زیادہ معاونت کرے گا، نیز یہ آمدورفت یکطرفہ کے بجائے دو طرفہ اور بلا مذہبی امتیاز ہونی چاہئے کیونکہ بابا جی کے عقیدت مند بہت سے پاکستانی ڈیرہ بابا نانک کی یاترا پر جانا چاہتے ہیں۔ اس آمد و رفت کو بڑھاوا دینے کے لیے بیس ڈالر کے بجائے پانچ ڈالر کر دی جائے تو تمام یاتریوں پر احسان ہوگا یوں آمدورفت زیادہ بڑھنے سے حکومت کی آمدن بھی زیادہ بڑھے گی۔

احسن اقبال صاحب کو یاد ہوگا انہوں نے خود درویش کو بتایا تھا جب اُن کی حکومت کے دوران ورلڈ بینک کی معاونت سے باڑ لگاتے ہوئے یہی منصوبہ پیش کیا گیا تھا، تب وہ اس کی کتنی تحسین فرما رہے تھے۔ اُن کی یہی اصولی تحسین اُسی نیک جذبے کے ساتھ اس حکومت میں بھی جاری و ساری رہنی چاہئے۔

اس خطۂ ارضی سے منافرتیں ختم ہوں گی تو ترقی و خوشحالی کے نئے دور کا آغاز ہوگا۔مولانا فضل الرحمٰن نے 9نومبر کے دن پر علامہ اقبال ؒ کے حوالے سے جو نکتہ اٹھایا ہے اس کا جواب یہ ہے کہ آج اگر اقبال زندہ ہوتے تو وہ اعتراض کرنے کے بجائے اس پر اظہارِ مسرت فرماتے کیونکہ انہوں نے خود بابا نانک کے متعلق جو لکھ رکھا ہے وہ اس کا بین ثبوت ہے، علامہ اقبالؒ اپنی معروف نظم ’’نانک‘‘ میں فرماتے ہیں

قوم نے پیغامِ گوتم کی ذرا پروا نہ کی

قدر پہچانی نہ اپنے گوہر یک دانہ کی

آہ بدقسمت رہے آواز حق سے بے خبر

غافل اپنے پھل کی شیرینی سے ہوتا ہے شجر

بت کدہ پھر بعد مدت کے مگر روشن ہوا

نورِ ابراہیمؑ سے آزر کا گھر روشن ہوا

پھر اٹھی آخر صدا توحید کی پنجاب سے

ہند کو اک ’’مردِ کامل‘‘ نے جگایا خواب سے

تازہ ترین