• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
سیاسی انتشار نے پورے پاکستان کو اپنے گرداب میں لے رکھا ہے۔ سیاست میں غیریقینی کیفیت ہے سیاسی پارٹیوں میں عدم استحکام ہے حکومت انتظام و انصرام کی صلاحیت سے محروم ہے عصبیت دل و دماغ پر چھائی ہوئی ہے قتل وغارت گری پہاڑوں سے اتر کر میدانوں اور شہر کے گلی کوچوں میں پھیل گئی ہے۔ سیاستدانوں کے سامنے قوم اور ملک کا مفاد نہیں ہے ان کے سامنے ذاتی، پارٹی کا اور علاقے کا مفاد ہے۔ اب حال یہ ہے کہ عوام جمہوریت اور جمہوریت کا راگ الاپنے والوں سے تنگ آ چکے ہیں اس کا ثبوت یہ ہے کہ عوام فوج کی موجودگی کا مطالبہ کر رہے ہیں۔کوئٹہ میں جو دہشت گردی کا واقعہ ہوا ہے یہ انتہائی المناک ہے پورا ملک غم کی چادر میں لپٹا ہوا ہے، کوئٹہ میں مطالبہ کیا جا رہا ہے کہ بلوچستان کو فوج کے حوالے کیا جائے، لوگ فوج پر اعتماد کرتے ہیں اور کسی دوسرے ادارے پر اعتبار کرنے کو تیار نہیں۔ یہ ایک المیہ ہے کہ سول حکومت نے پانچ سال میں جمہوریت کے نام پر پانچ سال تو پورے کر لیے ہیں اگر نہیں کئے ہیں تو چند ہفتوں میں ہو جائیں گے اور اس کی تکمیل میں اہم رول مسلم لیگ ن کی فرینڈلی اپوزیشن کا ہے لیکن اس مک مکاؤ اور فرینڈلی اپوزیشن کے نتائج کرپشن، بدحالی، مہنگائی، لاقانونیت اور سیاسی عدم استحکام کی صورت میں سامنے آ رہے ہیں۔ پنجاب میں بلا کی اکھاڑ پچھاڑ ہے وہاں مخصوص مفادات کیلئے سیاسی پارٹیاں تصادم کی راہ پر چل رہی ہیں۔ میں 31جنوری سے 9/فروری تک مدینے شریف اور مکہ معظمہ میں تھا اللہ تعالیٰ کے کرم اور نبی پاک صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے دامن رحمت کے سائے میں ملک و قوم کے استحکام، امن و امان کیلئے دعاؤں میں مصروف رہا اللہ ہمارے حکمرانوں کو ہدایت دے۔ پاکستانی جو اپنے وطن سے دور ہیں اپنے وطن اور اپنے لوگوں کیلئے پریشان ہیں وہاں پاکستان کے کئی چینلز دیکھے جا سکتے ہیں اس لئے وہ لمحے لمحے کے حالات سے باخبر ہیں وطن سے دور خبریں ان کے لئے پریشان کن ہیں۔
وہاں مدینے شریف میں ایسے ایسے لوگ ہیں جو پچاس پچاس سال سے وہاں مقیم ہیں سعودی عرب کی حکومت نے انہیں رہائشی دستاویزات دی ہوئی ہیں انہیں وظیفہ بھی ملتا ہے۔ ان میں کئی لوگ وہاں ایسے ہیں جو رسول اکرم کی مسجد میں جھاڑو دیا کرتے تھے ابھی وہاں تیل کی دولت بہنا شروع نہیں ہوئی تھی یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی محبت میں وہاں تھے اور کہیں جاتے بھی نہیں تھے کہ مدینے شریف سے باہر جا کر انتقال نہ ہو جائے اور وہ جنت البقیع میں دفن ہونے سے رہ جائیں۔ عشق بھی کیا شے ہے اور وہ بھی نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا عشق۔ ایسے لوگوں کا رنگ ڈھنگ ہی کچھ اور ہے ان کے لفظوں کی مٹھاس اور جذبوں کے تیور ہی کچھ اور ہیں ان میں ایک سلیم مگسی ہیں پچاس سال کا یہ بزرگ عشق کی راہ میں پیدل چل کر حضور کی بارگاہ میں پہنچا ہے اور وہیں کا ہو رہا ہے میں نے ان سے درخواست کی کہ پاکستان کے لئے دعا کریں۔ ہنس کر بولے ”سائیں کے ہوتے کچھ نہیں ہوگا اللہ نگہبان ہے“ تم دیکھو کیا ہوتا ہے ان کے سفید کپڑے، ان کے اندر کی چمک اور رنگ اڑ جائیں گے ان کا اشارہ سیاستدانوں کی طرف تھا۔ بس حکم کی دیر ہے وقت بدل رہا ہے پھر انہوں نے مجھے اپنے پاس بٹھا لیا اور استغراق کی کیفیت میں ڈوب گئے۔
آج کل لوگوں کے ذہن میں یہ سوال گردش کر رہا ہے کہ ووٹ سے تبدیلی ممکن نہیں ہے کیونکہ گھوم پھر کر وہی لوگ اقتدارمیں آ جاتے ہیں ان کا خیال ہے کہ تبدیلی کا ذریعہ صرف انقلاب کا راستہ ہے۔ الیکشن کمشنر ایماندار اور غیرجانبدار شخص ہیں اب کچھ لوگ ان کو بھی متنازع بنانا چاہتے ہیں۔ ان پر دباؤ ڈالنے کیلئے طرح طرح کی باتیں کر رہے ہیں فخرالدین جی ابراہیم صاحب کردار سچے کھرے آدمی ہیں ان کے ہوتے ہوئے سیاسی مداریوں میں بے چینی پائی جاتی ہے۔
اگر الیکشن کمیشن آئین کی شق 62 اور 63 کے نفاذ میں کامیاب ہوگیا تو یہ امید کی جا سکتی ہے کہ آئندہ منتخب ہو کر اسمبلیوں میں پہنچنے والے ارکان ماضی سے بہت بہتر ہوں گے۔ اس بات کی ضرورت ہے کہ اسکروٹنی سخت کی جائے اور کم سے کم وقت میں مکمل کی جائے۔ جن لوگوں نے بینکوں سے قرضے لے کر معاف کرائے ہیں۔ ان کو بھی انتخاب میں حصہ نہ لینے دیا جائے۔ متحدہ قومی موومنٹ کے قائد الطاف حسین نے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کو ایک خط بھی لکھا تھا جس میں بینکوں سے قرضے معاف کرانے والوں کے بارے میں کارروائی کا مطالبہ کیا تھا میں یہ سمجھتا ہوں کہ اگر الیکشن کمیشن شفاف الیکشن کرانے میں کامیاب ہو جاتا ہے تو ووٹ سے تبدیلی لانے کا عمل تو شروع ہو سکتا ہے اور یہ یقیناً ایک خوش آئندہ بات ہوگی پوری تبدیلی تو نہیں آ سکتی اس کے کئی عوامل ہیں اس میں اہم چیز غیرجانبدار وزیراعظم اور اس کی کابینہ کا کردار ہے۔ بیوروکریسی اور حکومتی عاملین کا غیرجانبدار ہونا سب سے زیادہ اہم ہے۔ یہ ذہن میں رکھنا چاہیے کہ جہاں الیکشن کمیشن کو شفاف الیکشن کرانے کا فریضہ ادا کرنا ہے وہاں غیرجانبدار وزیراعظم اور اس کی کابینہ کا بھی ایک رول ہوگا صوبوں اور مرکز میں غیرجانبدار حکومتیں اگر نہ ہوئیں تو شفاف الیکشن کا ہونا ناممکن ہو جائیگا اس لئے کسی بھی سیاسی شخص کو اس مقصد کیلئے منتخب کرنا یہ خود اپنی جگہ سیاسی چال سے کم نہیں ہوگا۔
جب معراج خالد عبوری دور کے لئے وزیراعظم تھے تو انہوں نے کہا کہ الیکشن سے پہلے محاسبے کی ضرورت ہے لیکن اس وقت کے صدر نے اس کی مخالفت کی کہ وہ ایسا نہیں کر سکتے ان کے پاس صرف الیکشن کرانے کا مینڈیٹ ہے اگر ایسا ہوا تو الیکشن کا انعقاد مشکل ہو جائیگا اب تک جو نام سامنے آئے ہیں ان میں ناصر اسلم زاہد اور محمود اچکزئی ہیں ان میں ایک قومی اسمبلی کے ممبر ہیں اور سیاست دان ہیں دوسرے اچھی شہرت رکھنے والے سابق جج ہیں۔ یہ کہنا کہ اس دفعہ عبوری وزیراعظم بلوچستان سے ہو ایک اچھی سوچ ہے مگر شاید یہ بھلا دیا گیا ہے کہ جب بلوچستان سے تعلق رکھنے والے وزیراعظم ظفر اللہ جمالی تھے تو ان کے ساتھ کیا کیا گیا۔ آزادانہ غیرجانبدار، شفاف اور منصفانہ الیکشن، الیکشن کمیشن کی ذمہ داری بھی ہے غیرجانبدار حکومت کی بھی اور انتظامی اداروں کی بھی۔
تازہ ترین