• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
اردو نظم کے ممتاز شاعر شبیر حسن خان المعروف جوش ملیح آبادی جنہیں اردو ادب میں شاعر انقلاب کے نام سے یاد کیا جاتا ہے، ان کی اکتیس ویں (31) برسی 22 فروری کو گزری ہے۔ وہ 86 برس کی عمر میں 1982 میں اسلام آباد میں وفات پا گئے تھے۔ ان کے مورث اعلیٰ کا تعلق یار بیگ آفریدی خیبر ایجنسی کے قبیلہ علی خیل سے تھا، ان کے والد نواب بشیر احمد خان، دادا نواب محمد احمد خان اور پردادا نواب فقیر محمد خان بھی صاحب دیوان شاعر تھے۔
جوش ملیح آبادی کا شمار بھارت کے بانی وزیراعظم جواہر لعل نہرو کے قریبی دوستوں میں ہوتا تھا۔ اندرا گاندھی ان کی بیٹیوں جیسی تھیں، جوش صاحب کو بھارت کا سب سے بڑا ادبی ایوارڈ ”پدم بھوشن“ بھی مل چکا تھا۔ وہ یکم دسمبر 1955 کو بھارت کی شہریت چھوڑ کر جب پاکستان آئے تو ان دنوں وہ بھارت کے سرکاری اردو ماہنامے ”آج کل“ کے ایڈیٹر اور آل انڈیا ریڈیو کی اردو نشریات کے مشیر تھے۔جواہر لعل نہرو نے جوش صاحب کو پاکستان آنے سے بہت روکا مگر وہ نہ مانے۔ نہرو نے اپنی بیٹی پریہ درشنی المعروف اندرا گاندھی سے بھی انہیں روکنے کا کہا مگر جوش صاحب نے معذرت کر لی۔ بھارت کے اس وقت کے وزیر تعلیم مولانا ابو الکلام آزاد نے بھی کہا مگر جوش صاحب نے یہ کہہ کر بھارت کی شہریت چھوڑ دی کہ بھارت میں اردو کا کوئی مستقبل نہیں ہے۔ نہرو نے کہا لیکن پاکستان میں ہمیں آپ کے مستقبل کی فکر ہے۔ جوش بولے میرا نہ سہی میرے بچوں کا مستقبل تو سنور جائے گا!
روانگی سے ایک دن پہلے بھارتی وزیراعظم جواہر لعل نہرو نے جوش ملیح آبادی سے ایک بار پھر دوستانہ التماس کی کہ اگر پاکستان راس نہ آیا تو واپس آ جانا۔ ہم اسی دن سے آپ کی شہریت بحال کر دیں گے جس دن آپ یہاں سے روانہ ہوں گے۔ بہرطور صاحبان ادب اور اہل علم جانتے ہیں کہ پاکستان میں جوش صاحب کے ساتھ وہی سلوک ہوا جو اردو کے ساتھ ہو رہا ہے۔ بھارت میں چھوڑے گئے اثاثوں کے کلیم کی خاطر جن میں آموں کا باغ، گھر بار، حویلی، سنیما بھی شامل تھا کے حصول میں جوش صاحب کو اتنا زچ کیا گیا تھا کہ وہ عاجز آ کر اپنے اثاثوں سے ہی دست بردار ہو گئے تھے۔ ان ہی دنوں انہوں نے کہا تھا کہ
جہاں بھی ہم نے بنایا گھر
سڑک میں آگیا
بہت بعد ذوالفقار علی بھٹو نے اپنے دور اقتدار 1975 میں اسلام آباد میں جوش صاحب کو ایک گھر دیا تھا جس کا ماہانہ کرایہ متعلقہ وفاقی وزارت دیا کرتی تھی۔ اس کے علاوہ ماہانہ پانچ ہزار روپے خرچ بھی باندھا تھا۔ مولانا کوثر نیازی نے اپنے ایک کالم میں لکھا تھا کہ ان کی کوششوں سے ہی بھٹو نے ایسا کیا تھا۔ بعد میں جنرل ضیاء الحق کے عبوری دور میں جب وزارتیں بنیں تو اطلاعات کی وزارت جماعت اسلامی کے حصے میں آئی تھی۔
ریڈیو پاکستان نے ایک متنازعہ انٹرویو جوش صاحب سے اس وعدے پر لیا تھا کہ وہ اسے ان کی زندگی میں نشر نہیں کریں گے، لیکن ریڈیو والے وہ وعدہ ایفا نہ کر سکے اور وہ انٹرویو ایک روزنامے میں چھپ گیا، جسے بنیاد بنا کر وزیراطلاعات نے جوش صاحب کا ماہانہ خرچ، گھر کا کرایہ بند کرنے کے ساتھ ساتھ ریڈیو، ٹیلیویژن پر پروگرام کرنے پر بھی ان پر پابندی لگا دی تھی۔ اس موقع پر جنرل ضیاء الحق نے مداخلت کرتے ہوئے یہ کہہ کر کرایہ اور ماہانہ خرچ بحال رکھنے کا حکم دیا تھا کہ کسی کا رزق روکنے کا ہمیں کوئی اختیار نہیں۔ ریڈیو، ٹی وی پر پابندی بھی کچھ عرصہ بعد اٹھوا دی گئی تھی۔
بریگیڈیئر صدیق سالک نے اپنی یادداشتوں میں لکھا کہ جنرل ضیاء الحق نے جب جوش صاحب کا وظیفہ اور کرایہ بحال کیا تو میں نے جوش صاحب کو بلوا کر محض ان کی رائے معلوم کرنے کے لئے کہ اگر ہم آپ کا ماہانہ خرچ اور گھر کا کرایہ بحال کر دیں اور ریڈیو کا وہ متنازعہ انٹرویو دوبارہ ریکارڈ کرایا جائے تو آپ جواب بدل دیں گے؟ تو اس پر جوش صاحب نے کہا تھا کہ ”صاحب جواب تو وہی دوں گا، وہ نہیں بدلوں گا“۔ میں کبھی کبھی پروفیسر مقصود جعفری اور سید عارف کے ساتھ جوش صاحب سے ملنے جایا کرتا تھا۔ ان کے پاس بیٹھ کر اردو تلفظ خودبخود ٹھیک ہوتا رہتا تھا۔ کبھی کبھار وہ سرد آہ کھینچ کر ایک آدھ بات حکومتی بے حسی کی بھی کر جایا کرتے تھے۔
پاکستان آمد کے ابتدائی دنوں کی یادوں پر وہ بے مزہ ہو جایا کرتے اور زبان و بیان کا بہت خیال رکھا کرتے تھے۔ زبانوں کا معیار چونکہ اس کا ادب ہوتا ہے، صحافت نہیں، اسی لئے ایک دفعہ ایک ماہنامے کے ایڈیٹر نے جوش سے پوچھا کہ ”جوش صاحب آپ کتنے ”برس“ کے ہو چکے ہیں۔ اس نے برس کی ”ر“ زبر کی بجائے جزم کے تلفظ سے ادا کی تو جوش صاحب نے کہا بھئی آپ لوگ ان صاحب سے دور رہا کرو، یہ آپ کی اردو خراب کر دے گا۔جنرل ضیاء الحق نے جب جوش صاحب کا ماہانہ خرچ اور گھر کے کرائے کی بحالی کی تو وفاقی سیکرٹری اطلاعات نے جوش صاحب کو بلا کر کہا کہ حکومت نے آپ کا خرچ اور ”رہائش گاہ“ کا کرایہ بحال کر دیا ہے تو جوش صاحب نے جواباً قدرے ترش لہجے میں سیکرٹری اطلاعات سے کہا کہ ”بھئی کچھ شرم کرو اطلاعات کے سیکرٹری ہو اور قیام گاہ کو رہائش گاہ کہہ رہے ہو۔ تمہیں مضدر تبدیل کرنے کی اجازت کس نے دی۔ اگر رہنے کی جگہ کو رہائش گاہ کہو گے تو پیدا ہونے کے مقام کو ”پیدائش گاہ“ کیوں نہیں کہتے۔ اس علمی تلخی کی وجہ سے کئی ماہ تک جوش صاحب کا خرچ اور کرایہ منظوری کے باوجود روکے رکھا۔
تازہ ترین