• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
رابطہ…مریم فیصل
یہاں برطانیہ میں تو انتخابات کا دوردوراں ہےموجودہ حکمراں جماعت کنزرویٹو پارٹی نے تو امیگریشن کم کرنے کا کہہ دیا ہے اور یہ وہ پہلے سے ہی امیگریشن میں کمی کرہی ہے ۔ سب سے زیادہ امیگریشن پر سختیاں اس پارٹی کے دور میں ہی کی گئیں۔ لیبر پارٹی نے انتخابات جیتنے کے لئے الگ ہی داؤکھیل دیا ہے آج کے دور کی سب سے اہم ضرورت براڈ بانڈ کو سب کے لئے مفت کرنے کا ہے ۔ کیا اس پوا ئنٹ پر سارا برطانیہ لیبر کو ووٹ دینے پر تیار ہوجائے گا ۔لیکن برطانیہ میں انٹرنیٹ سروس سستی ہے اس لئے عوام کے لئے یہ بات زیادہ اہم ہو نہیں سکتی ۔ خیر انتخابات ہونے میں ابھی وقت ہے دیکھے ہوتا کیا ہے ۔ اس وقت پاکستان میں بڑی دلچسپ صورتحال بنی ہوئی ہے مولانا صاحب پندرہ دن دھرنا دینے کے بعد اب ملک گیر احتجاج کرتے نظر آرہے ہیں ۔ جبکہ حکومتی ذرائع تو اس احتجاج کو حکومت اور مولانا صاحب کے درمیان کسی مصالحت کا رنگ دے رہے ہیں ۔اب یہ تو خدا جانے، مولانا صاحب یا پھر حکومت پاکستان کہ کیا معاملات طے پائے ہیں ۔لیکن اگر بات چیت کے ذریعے کچھ طے پاگیا ہے تو اچھا ہی ہے کیونکہ یہ ملکی معیشت کے لئے اچھا ہی ہوگا ک۔ ملک کو اس وقت ضرورت دھرنوں کی نہیں بلکہ سنبھلنے کی ہے ۔ویسے بھی جب مولانا صاحب کا ڈی چوک تک جانے کا خواب ملک کی دوسری بڑی سیاسی پارٹیوں کے ان کے دھرنے میں شریک نہ ہونے کی وجہ سے پورا نہ ہوسکا تو انھیں یہ سمجھ آگیا ہوگا کہ اکیلے اس محاذ پر لڑنا مشکل ہی نہیں ناممکن بھی ہے ۔ اپوزیشن جماعتیں تو اس دھرنے میں اس قدر شامل نظر بھی نہیں آرہی جس طرح ان کی شمورلیت ہونی چاہے تھی تاکہ اس دھرنے میں کچھ تو دم نظر آتا ۔ لیکن یہ تو پاکستانی سیاست کی خصوصیت ہے کہ اپنے مفاد کے آگے کسی دوسرے کی نہ چلنے دو۔ تمام اپوزیشن جماعتیں ایک بیج پر یکجا ہوجا ئیں یہ کم از کم پاکستانی سیاست میں تو ممکن نہیں ۔ اسلام آباد کی بڑھتی سردی نے بھی اس دھرنے کو ٹھنڈا کر نا شروع کر دیا تھا جبھی پلان بی کے نام پر ملک گیر احتجاج کا اعلان مولانا صاحب کی مجبوری بھی کہہ کتے ہیں۔ اب یہ پلان بی کب تک جاری رہتا ہے یہ دیکھنا باقی ہے ۔ اس دھرنے کے علاوہ میاں صاحب کی لندن روانگی بھی رکی ہوئی تھی کیونکہ حکومت بضد تھی کہ سا ت ارب کاشیورٹی بانڈ دیجیے اور روانہ ہوجائیں لندن ْ۔ لیکن میاں صاحب کے ترجمان اس شرط کو ماننے سے بالکل انکاری تھے کیونکہ بانڈ بھرکر خان کوجیتوانا یہ کسی کو قبول نہیں ۔تین بار ملک کے وزیر اعظم بننے والے میاں صاحب کے ساتھ ایسا رویہ غیر انسانی ضرور کہہ جاسکتا ہے لیکن پاکستان میں ایسی مثالیں موجود ہیں کہ علاج کے لئے باہر جاو تو پھر کیسی واپسی ۔اور خان صاحب پہلی بار وزیر اعظم بننے کے بعد یہ رسک تو بالکل بھی نہیں لینا چاہتے تھے لیکن لاہور ہائی کورٹ نے ای سی ایل سے نام نکالنے کا حکم دے کر حکومت کو نئی مشکلات سے دوچار کردیا ہے کہ اب بنا کسی یقین دہانی کے میاں صاحب ملک سے باہر جا سکتے ہیں۔اور یہ عوام کے سامنے آبھی جائے گا کہ ایئر ایمبولنس پاکستان سے میاں صاحب کو لندن لا سکی یا نہیں۔
تازہ ترین