تحریر: سرفراز تبسم ۔۔۔۔لندن نوبل انعام برائے ادب ہر سال ایک سویڈش ادارہ ’’رائل سویڈش اکیڈمی آف سائنسز‘‘ کی جانب سے کسی بھی زبان میں اہم کارکردگی والے ادیب کو دیا جاتاہے۔ گزشتہ برس اپریل میں خبر سامنے آئی تھی کہ نوبل پرائز کی ادب کمیٹی کی جج کے شوہر پر خواتین کو جنسی طور پر ہراساں کرنے کے الزامات سامنے آنے پر نوبل ادب کمیٹی کے تین ارکان عہدوں سے الگ ہو گئے تھے۔کمیٹی نے اسی معاملے کی وجہ سے سال 2018 میں ادب کا نوبل انعام نہ دینے کا اعلان کرتے ہوئے کہا تھا کہ 2019 میں بیک وقت 2 انعامات دیئے جائیں گے لہٰذا ادب کا نوبل انعام سال برائے2018 پولینڈ کی خاتون لکھاری 57 سالہ اولگا توکارزک جبکہ امسال2019 کا ادب کا نوبل انعام آسٹریا کے شاعر، ناول نگار اور افسانہ نگار 76 سالہ پیٹر ہینڈ کے نام کوپیش کیاگیا۔آج ان دونوں ادیبوں کا مختصرسا تعارف پیشِ خدمت ہے ۔(Olga NawojaTokarczuk) 29 جنوری 1962 پولینڈ میں پیدا ہوئیں وہ ایک پولستانی مصنفہ،ادب کی سرگرم کارکن دانشورہیں جواپنے تنقیدی کام سے مشہور ہوئیں اس وقت وہ تجارتی نقط نظر سے اپنے زمانے کی کامیاب مصنفین میں سے ہیں۔ 2018ء میں ان کے ناول Bieguni کے لئے انہیں( Man Booker International Prize مین بُکر بین الاقوامی) انعام دیا گیا، وہ ایسی پہلی پولینڈی ادیبہ ہیں جنہیں سال 2019ء میں نوبل انعام برائے ادب 2018ء ملا۔ انہیں جدید پولش ادبی عہد کا مشہور حوالہ تصور کیا جاتا ہے۔ ان کی کتابوں کو بہت زیادہ پزیرائی حاصل ہو چکی ہے۔ ان کی شاعری، ناولوں اور مضامین کی کئی کتب شائع ہوئی چکی ہیں۔پیٹر ہینڈکے، (پیدائش 6 دسمبر 1942، گریفن، آسٹریا)، ایوینٹ گارڈ آسٹریا کے ڈرامہ نگار، ناول نگار، شاعر اور مضمون نگار، جو 20 ویں صدی کے دوسرے نصف حصے میں جرمن زبان کے سب سے بڑے مصنف تھے۔ انہیں ادب کے لئے 2019 کا نوبل انعام دیا گیا، جس کا حوالہ دیا گیا کہ ایک ایسے بااثر کام کے لئے کہ لسانی آسانی کے ساتھ انسانی تجربات کی فضا اور خصوصیت کی کھوج کی ہے۔ہینڈکے ایک بینک کلرک کا بیٹا ہے اس نے گریز یونیورسٹی میں قانون کی تعلیم حاصل کی تھی اور اس نے( avant garde )ادبی رسالہ میں کام شروع کر دیا۔1966 میں وہ ایک متنازعہ ڈرامہ نگار کی حیثیت سے عوامی سطح پرنمودار ہوا، تاہم وہ مقبولیت کی سیڑھیاں طے کرنے لگا لوگ اس کی ’’کارکردگی‘‘ کی تعریف کرنے لگے۔ بھیڑ سے مختلف ردعمل پیدا کرنے والی حکمت عملی۔ روایتی پلاٹ، مکالمے اور کرداروں کی کمی کے بعد اس کے کئی اور ڈرامے بھی سامنے آئے، لیکن ہینڈکے کا سب سے اہم ڈرامائی ٹکڑا ان کا پہلا مکمل طوالت والاڈرامہ (Kaspar-1968) ہے۔ ہینڈکے کے بعد کے ناولوں میںDer Grosse Fall -2011) دی گریٹ فال) شامل ہیں، جو ایک دن کے لئے عمر رسیدہ اداکار اور ڈائی اوسٹڈیبین کی پیروی کرتا ہے۔ اس کے بعد (TheFruitThief 2017) میں ہینڈکے ایک مسافر سفرکی روداد بیان کرتا ہے۔ہینڈکے نے مختصر کہانیاں، مضامین، ریڈیو ڈرامے اور سوانح عمری بھی لکھیں۔ ان کی تحریروں کا بنیادی موضوع عام زبان، روزمرہ زندگی کی تلخ حقیقتیں بیان کرتا ہے اور ان کے ساتھ ہونے والے سلوک سے انسانوں پر کیا مہلک اثر پڑتا ہے بہت خوبصورتی سے بیان کرتا ہے جو جنون کی زد میں آکر رہ جاتے ہیں۔ہینڈکے(Wim Wenders)و یر وینڈرز کی ہدایت کاری میں بننے والی متعدد فلموں کے اسکرین پلے تیار کئے، جن میں) ڈیر ہیمل اوبر برلن (1987Wings of Desire ونگز آف ڈیزائر) بھی شامل ہے، اور انہوں نے اپنی کچھ کتابوں کے فلم اور ٹی وی کے لئے اسکرپٹ بھی لکھے۔ اس کے علاوہ انہوں نے تین فیچر فلموں کی ہدایت کاری کی جن میں (1992-L'Absence) بھی شامل ہے۔ ہانڈکے کو بہت سے اعزازات ملے، جس میں 1973ء کا جارج بوشنر انعام اور 2018ء کا آسٹریائی نسٹروئے تھیٹر پرائز برائے لائف ٹائم اچیومنٹ شامل ہیں۔ 2019ء میں انہیں نوبل انعام برائے ادب دیا گیاہے۔