• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
,

ہائیکورٹ شرائط حکومت سے بھی سخت، عدالت نے بانڈ کی جگہ انڈرٹیکنگ لے لی نواز، شہباز عدالت کے پاس گروی ہوگئے واپس نہ آئےتوعدالتی مجرم ہونگے،حکومتی ٹیم

اسلام آباد ( طاہر خلیل ) حکومتی ٹیم نے دعویٰ کیا ہے کہ کابینہ کا پورا کا پورا فیصلہ لاہور ہائی کورٹ کے آرڈر میں شامل ہو گیا ہے، عدالتی فیصلہ حکومت کی جیت ہے، ہائیکورٹ کی شرائط حکومت سے بھی سخت ہیں، نواز شریف کی واپسی کی جو یقین دہانی چاہیے تھی وہ انڈرٹیکنگ کی صورت میں مل گئی، عدالت نے بانڈز کی جگہ انڈرٹیکنگ لے لی، نوازشریف، شہباز شریف عدالت کے پاس گروی ہوگئے، واپس نہ آئے تو عدالتی مجرم ہوں گے، نواز شریف جس ملک میں بھی جائیں گے وہاں بتادیں گے کہ یہ کن شرائط پر آئے ہیں، ہائیکورٹ نے پانچ سوالات رکھے ہیں، قانون کے تحت سزایافتہ مجرم کو ای سی ایل سے نہیں نکالا جاسکتا، شریف برادران کا ٹریک ریکارڈ ٹھیک نہیں، ان کے ٹریک ریکارڈ کی وجہ سے عدالت بھی ان پر اعتماد نہیں کر رہی ہے، حکومت کو جو ضمانت چاہیے تھی وہ بیان حلفی کی شکل میں مل گئی، کابینہ کا فیصلہ عدالتی حکم نامے میں شامل ہے۔ 

نواز، شہباز عدالت کے پاس گروی ہوگئے ،حکومتی ٹیم


وزیر اعظم کے خصوصی معاون برائے احتساب بیرسٹر شہزاد اکبر اور اٹارنی جنرل آف پاکستان انور منصور خان نے اتوار کو ہنگامی نیوز کانفرنس میں لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے کی تفصیلات اور اثرات بیان کئے اور حکومت کاموقف واضح کیا۔

بیرسٹر شہزار اکبر نے کہا کہ کابینہ نےمیاں نواز شریف کی تشویشناک صحت کے پیش نظر باہر جانے کیلئے ون ٹائم اجازت دینے کا فیصلہ کیا جبکہ قانون کے تحت کسی سزایافتہ مجرم کو ای سی ایل سے نہیں نکالا جا سکتا، کابینہ نے انسانی ہمداردی کے تحت انہیں ون ٹائم پر میشن دی، اور یہ اجازت 4 ہفتے کی مخصوص مدت کے لیے دی گئی تاکہ وہ باہر جاکر اپنا علاج کراسکیں وہ صحت یاب ہوتے ہی پاکستان واپس آئیں گے، مقدمات کا سامنا کریں گے اور جیل جائیں گے عدالت نے انڈیمنٹی بانڈ کو مسترد نہیں کیا،معطل کر کے ان سے تحریری یقین دہانی حاصل کرلی۔ 

پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے شہزاد اکبر نے کہا کہ نواز شریف کی میڈیکل رپورٹ کابینہ کے سامنے آئی، ذیلی کمیٹی نے نواز شریف کا نام ای سی ایل سے نکالنے کے حوالے سے اپنا فیصلہ کابینہ کے سامنے رکھا جس کے چار بنیادی نکات تھے۔ 

ای سی ایل 1981کے قانون اور 2010ء کے رولز کے مطابق سزا یافتہ مجرم کا نام ای سی ایل سے نہیں نکالا جا سکتا۔ نواز شریف کی صحت کو مدنظر رکھتے ہوئے انسانی بنیادوں پر ایک مرتبہ بیرون ملک جانے کی اجازت کی تجویز دی گئی جبکہ اس کے لیے چار ہفتوں کی مخصوص مدت کی شرط بھی عائد کی گئی۔ 

اس کے علاوہ صحت یاب ہوتے ہی پاکستان واپس آ کر جیل میں جا کر اپنی سزا کاٹنے کی شرط بھی عائد کی گئی تھی۔ ان اقدامات کا مقصد نواز شریف کی علاج کے بعد وطن واپسی کو یقینی بنانا تھا۔ 

انہوں نے کہا کہ ماضی میں وہ جتنی بار وعدہ خلافی کر چکے ہیں ان کا ٹریک ریکارڈ ہمارے سامنے ہے، سپریم کورٹ یہ فیصلہ دے چکی ہے کہ وہ صادق اور امین نہیں ہیں۔ ان کے دو بیٹے، ایک بھتیجا، سمدھی، بھائی کا داماد مفرور ہیں، ماضی میں ایک حلف نامہ پر باہرجانے کا ریکارڈ بھی ہمارے سامنے ہے، ہمیں یہ بھی معلوم ہے کہ وہ عدالتوں کا کتنا احترام کرتے ہیں۔ 

انہوں نے کہا کہ انکی سزا اور جرمانے کو مدنظر رکھتے ہوئے کابینہ نے انڈیمنٹی کی شرط عائد کی تھی۔ ہائی کورٹ نے اپنے فیصلے میں کابینہ کے فیصلے کی روح سے ایک خاص مدت کے لئے اجازت دی ہے، چار ہفتوں کی شرط برقرار رکھی ہے۔ علاج کے بعد واپسی کی شرط بھی برقرار رکھی ہے تاہم انڈیمنٹی بانڈ کی جگہ انڈرٹیکنگ لی ہے۔ کابینہ نے صرف شہباز شریف سے انڈیمنٹی مانگی تھی لیکن کورٹ نے شہباز شریف اور نواز شریف دونوں سے انڈرٹیکنگ لی ہے۔

انہوں نے کہا کہ یہ ہمارے نہیں عدالت کے مجرم ہیں۔ کابینہ کے منگل کو ہونے والے اجلاس میں لاہور ہائی کورٹ کا فیصلہ رکھا جائے گا۔ حکومت کا یہی موقف ہے کہ لاہور ہائی کورٹ نے اپنے فیصلے میں کابینہ کے فیصلے کی تائید کی ہے۔ اٹارنی جنرل انور منصور خان نے کہا کہ لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے میں جو چیزیں لکھی گئی ہیں ان کے اثرات ہیں۔ 

کورٹ نے کہا ہے کہ نواز شریف اور شہباز شریف یہ تصدیق کریں کہ وہ یہ اجازت ایک ہی بار مانگیں گے۔ انہوں نے اس کی حامی بھری جس کے بعد کورٹ میں کیس کی سماعت آگے بڑھی۔ یہی کابینہ کا بھی فیصلہ تھا۔ شہباز شریف نے انڈرٹیکنگ دی، کورٹ کا بھی ان پر یقین نہیں تھا کہ وہ صحیح رپورٹ بھیجیں گے اسلئے رپورٹس کی ہائی کمیشن سے تصدیق کی شرط عائد کی۔

 انہوں نے کہا کہ انکے ٹریک ریکارڈ کی وجہ سے عدالت بھی ان پر اعتماد نہیں کر رہی ہے۔ 

انہوں نے کہا کہ کابینہ نے قرار دیا تھا کہ نواز شریف کی حالت تشویشناک ہے، کورٹ نے لکھا ہے کہ نواز شریف ایک بار علاج کے لیے باہر جاسکتے ہیں۔ کابینہ کی تین شرائط میں سے انڈیمنٹی بانڈ کی شرط کو معطل کیا گیا ہے، کابینہ کا فیصلہ مجموعی طور پر مانا گیا ہے جبکہ اسکے ساتھ عدالت نے پانچ سوال بھی رکھ دئیے ہیں۔ 

انہوں نے کہا کہ اگر ڈاکٹر کی وجہ سے نواز شریف واپس نہیں آسکتے تو وہ دوبارہ عدالت جائیں گے اور اس پر دوبارہ سماعت ہو گی یوں معلوم ہو جائے گا کہ وہ کوئی بہانہ تو نہیں کر رہے یا واپس تو نہیں آنا چاہتے۔ 

انہوں نے کہا کہ اس فیصلے کے اثرات واضح ہیں کہ ہائی کورٹ کی حدود، اتھارٹی اور توہین عدالت کا معاملہ بھی موجود ہے، اگر یہ کسی طور پر واپس آنے سے گریز کریں گے تو حکومت کی انڈیمنٹی بانڈ کی شرط سے یہ فیصلہ زیادہ مضبوط ہے۔ 

انہوں نے کہا کہ انڈیمنٹی بانڈ پر عملدرآمد کیلئے عدالت جانا پڑتا، کیس فائل کرنا پڑتا تاہم لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے میں دونوں بھائیوں نے اپنے آپ کو عدالت کے حوالے کر دیا ہے۔

تازہ ترین