• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
,

ق لیگ حکومتی اتحادی پوزیشن پر نہیں رہی، فضل الرحمٰن

اگلے سال بہت بڑی تبدیلی آئے گی، مولانا فضل الرحمٰن


کراچی (ٹی وی رپورٹ ) جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن نے اسپیکر پنجاب اسمبلی پرویز الٰہی کے ذریعے حکومت سے کسی ڈیل یا مفاہمت کی تردید کرتے ہوئے کہا ہےکہ پرویز الٰہی سے یا ان کے ذریعے کوئی ڈیل اور مفاہمت نہیں ہوئی، وہ اس بات کی پرزور تردید کرتے ہیں، عمران خان کو کپکپی لگ گئی ہے، ہم ان سے استعفیٰ لیکر رہیں گے، اگلے سال بہت بڑی تبدیلی آئے گی۔

انہوں نے کہا کہ چوہدری صاحب کو دوٹوک کہا ناجائز حکومت کےخاتمے کےعلاوہ کوئی ہدف نہیں ، میرے نزدیک مذہب سیاست ہے، شکر کریں ڈی چوک گیا نہ ہی کسی ادارے کی طرف لپکا۔

جمعیت علمائے اسلام (ف)کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے جیو نیوز کے پروگرام ”جرگہ“ میں گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ وزیراعظم کا استعفیٰ لیے بغیر تحریک نہیں روکیں گے، ایک دھرنے سے بہت سارے دھرنوں میں منتقل ہوئے لیکن مطالبہ وہی ہے، اگلا سال جنوری سے نئے نظام کے ساتھ نظر آئے گا ، وزیر اعظم سے استعفیٰ لیں گے اور اسمبلی بھی نہیں رہے گی، ق لیگ کی حکومتی اتحادی ہونے کی پرانی پوزیشن برقرار نہیں رہی۔

مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ پرویز الٰہی جے یو آئی ف کے موقف کے قائل ہو کر گئے ہیں، پرویز الٰہی سے ،ان کے ذریعہ یا کسی اور چینل سے کوئی ڈیل نہیں ہوئی، ڈیل یا مفاہمت کے دعوے کو سختی سے مسترد کرتا ہوں، پرویزالٰہی ایسی تصویر پیش کرناچاہتے ہیں جس سے معلوم ہو ہم مفاہمت کی طرف جارہے ہیں، عمران خان بنی گالہ میں آرام سے نہیں بیٹھے حواس باختہ ہیں، ہماری زندگی میں شاید ایک یوٹرن ہوگا کہ دوبارہ اسلام آباد آجائیں، ن لیگ اور پیپلز پارٹی پر حکومت کا شکنجہ ڈھیلا ہوگیا ، آئین کی بالادستی اور شفاف الیکشن کا ماحول ملنا اپوزیشن کی مشترکہ فتح ہوگی، الیکشن کمیشن کے قوانین میں بڑی خرابیاں نہیں لیکن باہر سے جو مداخلت ہوتی ہے اس پر تحفظات تھے۔

میزبان سلیم صافی کے سوالات کے جواب دیتے ہوئے مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ اسلام آباد آنا جعلی الیکشن اور ناجائز حکومت کیخلاف تحریک کا تسلسل ہے، اسلام آباد جاکر اپنا احتجاج ریکارڈ کروایا اور اب دوسرے مرحلہ میں گئے ہیں، وزیراعظم کا استعفیٰ لیے بغیر تحریک نہیں روکیں گے، اپوزیشن کی تمام جماعتیں اس مطالبہ پر ہمارے ساتھ کھڑی ہیں، ہمارا ووٹر اور سپورٹر ہمارے دعوؤں پر بالکل اعتبار کرے گا، کارکن جس اعتماد کے ساتھ اسلام آباد میں تھے آج پورے ملک میں پھیلے ہوئے ہیں۔

ہم اسلام آباد کے ایک دھرنے سے بہت سارے دھرنوں میں منتقل ہوئے لیکن مطالبہ وہی ہے، ہمارا سڑکوں کو بند کرنا جائز ہے ، پاکستان سمیت دنیا بھر میں جمہوری نظام میں یہ چیزیں چلتی رہتی ہیں، حکومت سے جائز مطالبہ منوانے کیلئے یہی راستے دنیا میں اختیار کیے جاتے ہیں، احتجاج کا یہ راستہ معمول کا اور جمہوری راستہ ہے، عمران خان بنی گالہ میں آرام سے نہیں بیٹھا حواس باختہ ہے، اسے کپکپی لگی ہوئی ہے شکست خوردگی کے عالم میں ہے، میں جانتا ہوں وہاں کتنا خوف و ہراس ہے، مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ ایک سال میں پرامن ملین مارچز اور آزادی مارچ کیا جو تاریخ میں لکھا جائے گا، سڑکوں پر ایمبولینس، بارات، خواتین، بچوں اور میت کو جانے دے رہے ہیں، اب فیصلہ کیا ہے دن کے درمیان سڑک بند رکھیں گے رات میں کھول دیں گے، قوم کے کرب میں شریک ہیں بڑے پتھر کو ہٹانے کیلئے مشقت برداشت کرنا پڑے گی۔

مولانا فضل الرحمن کا کہنا تھا کہ میڈیا میں جو کوریج ملتی رہی وہی ہمارے دھرنوں کو مل رہی ہے، میڈیا دکھارہا ہے ہم کس طرح لوگوں کو راستہ دے رہے ہیں، اگلا سال جنوری سے نئے نظام کے ساتھ نظر آئے گا ، وزیر اعظم سے استعفیٰ لیں گے اور اسمبلی بھی نہیں رہے گی، اگلے سال بہت بڑی تبدیلی آئے گی، جمہوری آدمی ہوں مجھے پتا ہے ایسی تحریکوں کے کیا نتائج ہوتے ہیں۔

سربراہ جے یو آئی ف مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ کوئی مفاہمت نہیں ہوئی ہم اپنے مطالبہ پر قائم ہیں، چوہدری صاحبان کو دو ٹوک کہا ناجائز حکومت کے خاتمے کے علاوہ کوئی ہدف نہیں ، جب تک اس حکومت کے جانے کا فیصلہ نہیں ہوتا مضبوطی سے تحریک چلائیں گے، ہم نے روزاول سے اپنے دوسرے پلان کی بات کی تھی، پرویز الٰہی ایسی تصویر پیش کرناچاہتے ہیں جس سے معلوم ہو کہ ہم مفاہمت کی طرف جارہے ہیں،واضح الفاظ میں تردید کرتا ہوں کوئی ڈیل نہیں ہوئی۔

مولانا فضل الرحمن کا کہنا تھاکہ میرے کارکنوں نے جتنی قربانیاں دیں ان کی خواہش پوری کیے بغیر میں کسی سے ڈیل کروں یہ میری سیاسی زندگی کا حصہ نہیں ، کارکنوں کو استعفے کی جو منزل دکھائی تھی وہ انہیں ضرور ملے گی، شکر کریں میں ڈی چوک نہیں گیا نہ کسی ادارے کی طرف لپکا ہوں، ہمارے پاس پوری قوت موجود تھی حکومت ہمیں روک نہیں سکتی تھی، رہبر کمیٹی کو اعتماد میں لے کر اسلام آباد سے اٹھنے کا فیصلہ کیا، اپوزیشن جماعتوں کو کہا ہم پلان بی کی طرف جارہے ہیں، انہوں نے کہا مطالبات میں ساتھ ہوں گے لیکن پلان بی میں شرکت اپنی اپنی پارٹی کی حکمت عملی کے تابع ہوگی۔

مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ پرویز الٰہی حکومتی مذاکراتی کمیٹی میں شامل ہونے پر آمادہ نہیں تھے، وہ سمجھتے کہ اسپیکر ہوتے ہوئے انہیں فریق نہیں ہونا چاہئے، پرویز الٰہی کے ساتھ ہمارے خاندانی مراسم ہیں اس لئے شاید انہیں شامل ہونے پر مجبور کیا گیا، مروجہ سیاست گند سے بھری ہے ہم اس سے باہر اصول کی سیاست کرتے ہیں، بیک ڈور رابطے ہر جگہ ہوتے ہیں، کسی کے ساتھ الگ سے بیٹھ کر بات ہوجاتی ہے لیکن اس کا ڈھنڈورہ نہیں پیٹا جاتا، کچھ چیزیں امانت ہوتی ہیں جس کا تذکرہ سرعام نہیں کیا جاتا۔

مولانا فضل الرحمن کا کہنا تھا کہ چوہدری شجاعت اور ایم کیو ایم کے لہجہ میں تبدیلی آگئی ہے، دھرنے سے حکومت کی صفوں میں کھلبلی مچ گئی ہے، وزیراعظم اور وزراء کے مذاق اڑانے نے ہی کام خراب کیا ہے، پاکستان کی تاریخ میں اتنی غیرسنجیدہ حکومت کبھی نہیں دیکھی گئی، موجودہ حکومت ناجائز بھی ہے اور نااہل بھی ہے، یہ بات طے ہے عمران خان نے استعفیٰ دینا ہے باقی باتیں ملاقاتیں سب سے ہوتی رہیں گی۔

تازہ ترین