• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

موٹاپا ایک ایسا پیچیدہ مرض ہے، جو صرف ظاہری خُوب صُورتی ہی متاثر نہیں کرتا، بلکہ کئی بیماریوں اور پیچیدگیوں کی بھی وجہ بن سکتا ہے۔ ترقّی پذیر مُمالک میں بھی بشمول پاکستان، موٹاپاصحت کا اہم مسئلہ بنتا جارہا ہے۔ دُنیا کے وہ مُمالک، جن کی آبادی کا بڑا حصّہ موٹاپے کا شکار ہے، اُن میں پاکستان کا نمبر 165واںہے۔ عالمی سطح پرمرتّب کی جانے والی اس تحقیقی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں15سال کی عُمر کے بعد زائد وزن کی شرح 22.2فی صد ہے۔ یعنی ہمارےیہاں ہر چار افراد میں سے ایک وزن کی زیاتی کا شکار ہے۔

واضح رہے کہ موٹاپے ہی کے سبب پاکستان ، جنوبی ایشیا میں ذیابطیس سے متاثرہ مُمالک میں بھی سرِفہرست ہے۔ ایک تحقیق کے مطابق جنوب ایشیائی افرادکے بدن میں چکنائی کا تناسب زیادہ پایا جاتاہے اور یہ اضافی چکنائی جگر میں بتدریج جمع ہوکر اُس کے افعال متاثر کردیتی ہے۔ پاکستان میں موٹاپے میں مبتلا افراد میں سے50فی صد ذیابطیس کا شکار ہیں۔ 

عالمی سطح پرموٹاپے کا تعیّن کرنے کے لیے ایک طبّی اصطلاح باڈی ماس انڈیکس (بی ایم آئی) استعمال کی جاتی ہے،جس کے مطابق ایک صحت مند فردکے جسم کا وزن ایک مربع میٹر پر 30 کلوگرام ہونا چاہیے۔ بی ایم آئی معلوم کرنے کا طریقہ ٔ کارکچھ یوں ہے کہ پہلےاپنا وزن(کلو گرام )اور قد (میٹر اسکوائر) میں معلوم کریں،پھر وزن کو قد سے تقسیم کردیں ۔ تاہم، جنوب ایشیائی مُمالک میں زیادہ پیچیدگیوں کے پیشِ نظر اس پیمانے کو مزید تبدیل کیا گیا ہے۔

موٹاپے کی کئی وجوہ ہیں، مگراہم عوامل میں مرغّن غذائیں، میٹھی اشیاء کا زائد استعمال، سُستی و کاہلی، کوئی ایسا کام ، جس میں کئی کئی گھنٹے کرسی یا فرش پر بیٹھا رہنا پڑے،کم جسمانی مشقّت ، کھانا کھاتے ہی سوجانا، موروثیت کا عنصر،فاسٹ فوڈز،کولڈڈرنکس ،زیادہ حرارے والے مشروبات اور بعض ادویہ کا استعمال وغیرہ شامل ہیں۔

نیز،آبادی کاشہروں کی طرف منتقل ہونا، شہری زندگی کے غیر صحت مندانہ طور طریقے، بالخصوص غذا میں چکنائی اور انرجی کی اضافی مقدارکا استعمال، نامناسب طرزِ زندگی اور ورزش نہ کرنا بھی فربہی کی طرف مائل کرتے ہیں۔ علاوہ ازیں ،کچھ دیگر وجوہ بھی ہیں،مثلاً:

دورانِ حمل: دورانِ حمل وزن میں اضافہ قدرتی عمل ہے، جو بعداز زچگی رفتہ رفتہ کم بھی ہوجاتا ہے۔مگر بعض خواتین زچگی کےفوراً بعدتو وزن کم کرنے کی بَھرپور کوشش کرتی ہیں،لیکن کچھ وقت بعدکھانے پینے پر کنٹرول نہ رکھنے اور ورزش بھی نہ کرنے کے سبب مزید موٹاپے کا شکار ہوجاتی ہیں۔البتہ جومائیں بچّوں کو اپنا دودھ پلاتی ہیں،توان کا وزن جلد نارمل ہوجاتا ہے ۔

تمباکو نوشی سے نجات: بعض اوقات تمباکو نوشی ترک کرنے کی کوشش بھی وزن بڑھنے کا سبب بن جاتی ہے، کیوں کہ سگریٹ کی طلب، کھانے پینے کی مختلف اشیاء استعمال کرکے پوری کی جاتی ہے،جو وزن میں اضافے کا سبب بن جاتی ہے، لہٰذا بہترتو یہی ہے کہ اس علّت سے نجات کے لیے کسی مستند معالج سے رابطہ کیا جائےاور وہ جو ہدایات دے، اُن پر سختی سے عمل کیا جائے۔

نیند کی کمی یا زیادتی:نیند میں کمی یا زیادتی ہارمونز میں تبدیلی کی وجہ بنتی ہے، جس کے نتیجے میں زیادہ بھوک لگتی ہےاور یوں بسیار خوری وزن میں اضافے کا سبب بنتی ہے۔

ذہنی تناؤ: ذہنی دباؤ کے شکار بعض افرادزیادہ حرارے والی غذائیں استعمال کرکے اپنا ذہنی دباؤ کم کرنا چاہتے ہیں ا ور کبھی اپنی جسمانی سرگرمیاں معّطل بھی کر دیتے ہیں اور یہی عمل بتدریج فربہی کا باعث بن جاتا ہے۔

مائیکرو بائیوم (micro biome) :آنتوں میں موجودبعض بیکٹریا بھی وزن بڑھانے یا گھٹانے میں اپنا کردار ادا کرتے ہیں۔

وزن میں کمی :عموماً وزن کم کرنے کی بَھرپور کاوش کے بعد یک دَم وزن میں اضافے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔کیوں کہ اگر غذا اور ورزش پر مستقل توجّہ نہ دی جائے،تو وزن پہلے سے بھی کہیں بڑھ جاتا ہے،طبّی اصطلاح میں یہ عمل "Yo-yo dieting" کہلاتاہے، لہٰذا موٹاپا کم کرنے کے لیے سب سے پہلے معالج سے رابطہ کریں، اُسے اپنی مکمل ہسٹری سے آگاہ کریںاور پھر اُس کی نگرانی میں ورزش اور ادویہ کا استعمال شروع کریں۔نیز،کسی مستند ماہرِ اغذیہ سے روزمرّہ خوراک کے لیے ایک شیڈول بھی مرتّب کروالیا جائے۔

فربہ افراد میں مختلف عوارض لاحق ہونے کی شرح بھی بُلندہوتی ہے۔ جیسا کہ بُلندفشارِخون اور کولیسٹرول کا عدم توازن عام ہے اور یہی دونوں امراضِ قلب اور فالج کا سبب بن جاتے ہیں۔ پھریہ افراد ذیابطیس ٹائپ ٹو میں مبتلا ہوسکتے ہیں۔

نیز، جسم کے مختلف اعضاء کاسرطان لاحق ہونے کے امکانات بھی بڑھ جاتے ہیں۔مثلاً بڑی آنت،غذا کی نالی ،جگر،پتّے، لبلبے، گُردے اور خواتین میں بچّہ دانی کا سرطان اوربریسٹ کینسر وغیرہ۔علاوہ ازیں، نظامِ انہضام متاثر ہونے کے باعث سینے کی جلن، پتّے اور جگر کی بیماریوں میں بھی اضافہ ہوجاتا ہے۔ 

خواتین میں بانجھ پَن اور ماہ واری میں بےقاعدگی کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔ موٹاپے کے شکار افراد میں ایک اہم پیچیدگی نیند میں سانس کی رکاوٹ بھی ہے،جو جان لیوا بھی ثابت ہوسکتی ہے۔اس کے علاوہ موٹاپا جسم کا وزن برداشت کرنے والے جوڑوں پر بھی اثرانداز ہوتا ہے، کیوں کہ اضافی وزن کے سبب جوڑ کم زور اور سوزش کا شکار ہوجاتے ہیں۔یو ںکہیے ،موٹاپےکے باعث عمومی معیارِ زندگی ہی متاثر ہوجاتا ہے۔ فربہ افراد،اپنے ہم عُمر متناسب وزن کے حامل افراد کی طح کوئی امور انجام نہیں دے پاتے۔ ملنے جُلنے اور تقریبات وغیرہ میں جانے سے گریز کرتے ہیں۔

نیز،ڈیپریشن، اینزائٹی اور مختلف نفسیاتی مسائل کا بھی شکار ہوسکتےہیں۔موٹاپا بچّوں اور بڑوں سب ہی کو متاثر کرسکتا ہے۔ ہاںالبتہ زیادہ عرصے تک موٹاپے کا شکاررہنے کے سبب پیچیدگیاں بڑھ جاتی ہیں۔ بچپن میں موٹاپے سے بچاؤ اس لیےبھی انتہائی اہم ہے کہ پھربالغ عُمری میںیہ موٹاپا مستقل شکل اختیار کرلیتا ہے۔ 

ایک تحقیق کے مطابق چارسال کی عُمرمیں زائد وزن کا شکار ہونے والے20فی صدافراد آگے جاکر فربہی کا شکار ہوجاتے ہیں۔واضح رہے کہ جو بچّےماں کا دودھ پیتے ہیں، اُن میںوزن بڑھنے کے امکانات قدرتی طور پر کم ہوجاتے ہیں۔پیدایش کے پہلے دِن سے لےکر چند ماہ تک ماں کا دودھ پینے والے بچّوں میں یہ امکانات15سے25فی صد اور چھےماہ تک پینے والوں میں40فی صد تک کم ہوجاتےہیں۔

دورِ حاضر میں منفی طرزِ زندگی بچّوں اور نوجوانوں میں فربہی کی بڑی وجہ بن رہا ہے۔آج کل کے بچّوں، نوجوانوں کی نہ صرف جسمانی سرگرمیاں محدود ہوگئی ہیں، بلکہ غذا کے استعمال میں بھی اعتدال نہیں رہا۔ جب کہ موروثیت کا عُنصر تو اپنی جگہ موجود ہی ہے۔ اس ضمن میں یہ بات بھی گِرہ سے باندھ لیں کہ بچّوں کا وزن نارمل رکھنے کے لیے والدین کو پہلے خودمثالی بننا ہوگا۔ والدین پہلے خود روزانہ ورزش اور تیز قدمی کو عادت بنائیں،پھر بچّوں کو بھی شریک کریں۔ 

عام طور پر بچّےکئی کئی گھنٹے بیٹھ کر کارٹونز دیکھتے ہیں، ویڈیو گیمز کھیلتے ہیں،جو موٹاپا بڑھنے کی بڑی وجوہ ہیں،بہتر ہوگا کہ ان کےسونے جاگنے،کھیلنے اورٹی وی دیکھنےکےاوقات مقرر کیے جائیں۔ نیز، وقت پر کھانا کھانے کی بھی عادت ڈالیں۔انہیں یہ بھی سمجھائیں کہ بے وقت یا ضرورت سے زائد کھانے کے کیانقصانات ہوتے ہیں۔ نوجوانوں میں غذائی عادات اور جسمانی سرگرمیوں میں بہتری لا کر موٹاپے پر قابو پایا جا سکتا ہے۔ جیسا کہ ورزش کومعمول کا حصّہ بنالیں۔

ایسی غذائیں ترک کردیں، جو موٹاپے کی وجہ بنتی ہیں۔ پھل، سبزیاں زیادہ استعمال کریں، جب کہ گندم اور چاول کی بجائے جَو یا بھوسی والا آٹا مفید ہے۔فاسٹ فوڈز،کولڈڈرنکس،دیگر میٹھےمشروبات سےا جتناب برتیں۔ خوراک میں نشاستے والی اشیاء مثلاً چینی، بیکری کی اشیاء، تلی ہوئی غذا مثلاً آلو کے چپس کا استعمال کم سے کم کیا جائے۔ 

ہر مہینےباقاعدگی سے وزن چیک کریں،تاکہ بڑھنے کی صُورت میں بروقت قابو پایا جاسکے۔اگر ورزش نہیںکرتے ،تو کم از کم30منٹ تک لازماً چہل قدمی کریں۔ یاد رکھیے،جسمانی وزن کو مطلوبہ حد میں رکھنا ایک مسلسل عمل ہے اوریہی موٹاپے سے نجات کا مؤثر ترین طریقۂ کار ہے۔

(مضمون نگار،معروف ماہرِ امراضِ اطفال ہیں اور کھارادر جنرل اسپتال، کراچی سےبہ طور چیف ایگزیکٹو آفیسر وابستہ ہیں)

تازہ ترین