• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

میڈیا ٹرائل کیس، دیکھنا ہوگا میڈیا کتنا آزاد ہونا چاہئے، عام قیدی کا کیس بھی نواز کی طرح سنیں گے، اسلام آباد ہائیکورٹ

اسلام آباد(نمائندہ جنگ)اسلام آباد ہائی کورٹ نے ʼʼ بعض ٹیلی ویژن چینلوں کی جانب سے میاں نواز شریف کی ضمانت منظور کرنے کے معاملے کو مبینہ طور پر سکینڈ لائز کرنے کے حوالے سے پروگراموں کے میزبانوں کے خلاف توہین عدالت کیس‘‘ کی سماعت کے دوران میڈیا سے تعلق رکھنے والے افراد کو عدالت کی معاونت کرنے کاحکم جاری کرتے ہوئے کیس کی مزید سماعت 18 دسمبر تک ملتوی کر دی جبکہ چیف جسٹس اطہر من ﷲ نے ریمارکس دیئے کہ عدالتی کارروائی کا تقدس بہت اہم ہے، کوئی شخص بھی عدالت کا فیصلہ آنے تک بے گناہ تصور کیا جاتا ہے، میڈیا ٹرائل ناصرف ملزم سے زیادتی ہوتی ہے بلکہ عدالت میں زیر سماعت مقدمات میں مداخلت کے مترادف بھی ہے ،میڈیا پر پری ٹرائل کئی لو گوں کو خودکشی پر مجبور کر چکا ہے۔

صحافی حضرات خود سوال فریم کریں کہ کن خطوط پر اس حوالے سے فری ٹرائل کا تحفظ کیا جاسکتا ہے؟ آزادی صحافت کی حدود اور سیلف سنسر شپ پر بھی عدالت کی معاونت کی جائے، ہم آزادی اظہار اور عدالتی کارروائی کے تقدس میں توازن قائم رکھنا چاہتے ہیں، میڈیا کو اپنے ناظرین کویہ بھی بتانا چاہئے کہ عدالتوں نے کتنے عام لوگوں کو طبی بنیادوں پر ضمانت دی ہے؟ 

چیف جسٹس اطہر من اللّہ پر مشتمل سنگل بنچ نے سوموار کے روز کیس کی سماعت کی تو حامد میر ،دیگر اینکرز اور چیئرمین پیمرا عدالت میں پیش ہوئے۔

چیف جسٹس نے کہا تمام فریقین کویہ طے کرنا ہے کہ میڈیا پر عدالتوں میں زیر التواء مقدمات کے حوالے سے کتنی بات ہو سکتی ہے؟میڈیا پر پری ٹرائل اور پری ججمنٹ چل جاتی ہے، عدلیہ پر اس کا ا ثر مرتب ہوتا ہے، ایک ایک ٹکرکا بھی ہمارے معاشرے پر اثرہوتا ہے عام طور پر یہ سمجھا جاتا ہے کہ کسی جج کے بارے میں کچھ منفی بات کرنا ہی توہین یہ ہوتی ہے، کچھ اچھے لوگوں کے خلاف بھی ٹکر چلتا ہے کہ فلاں کو نیب نے بلا لیا تو اس کا منفی اثر پڑتاہے،اس کے لئے کوئی ضابطہ اخلاق ہونا چاہیے۔

حامد میر نے کہا کہ کیا پیمرا کاضابطہ اخلاق کافی نہیں، جس پر فاضل چیف جسٹس نے کہا کہ پیمراکا کوڈ آف کنڈکٹ کافی نہیں، میڈیا کی طاقت یہ ہے کہ وہ کسی کی زندگی بنا بھی سکتا ہے اور تباہ بھی کر سکتا ہے، نیب کے کسی شخص کو طلب کرنے کی خبر چلنے پر معاشرے کا ذہن بن جاتا ہے کہ یہ شخص کرپٹ ہے۔

انہوں نے کہا کہ ایک چینل کے اینکر نے کہا کہ لاہور ہائی کورٹ ضمانت دے چکی ہے، اب اسلام آباد ہائی کورٹ بھی ضمانت دے دے گی، ساتھ ہی انہوں نے ایک بہت بڑی رقم کا بھی ذکر کیا کہ اس رقم کے عوض ڈیل ہو گئی ہے۔

انہوں نے حامد میر سے کہا کہ عدالت کی معاونت کریں کہ میڈیا ٹرائل کو کیسے روکا جاسکتا ہے؟ جس پر انہوں نے کہا کہ میڈیا پر غیر اعلانیہ سنسرشپ ہے، اس میں بہت سے کیسز میں عدالتیں بھی آ جاتی ہیں، جیسے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا کیس سپریم جوڈیشل کونسل میں چل رہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ مختلف کیسز پر زبانی ہدایات آجاتی ہیں کہ اس کیس کو ایسےاس طرح آن ائیر کیا جائے، جس پر فاضل چیف جسٹس نے کہا کہ میں چاہتا ہوں کہ اس کیس سے لوگوں کے شفاف انصاف کی فراہمی کی راہ میں حائل رکاوٹیں دور ہوں، میڈیا کے ادارے نجی ملکیت ہیں عدالت کو یہ دیکھنا ہوگا کہ میڈیا کو کتنی آزادی ہونی چاہیے؟ عدالت نے یہ بھی دیکھنا ہے کہ میڈیا ٹرائل آزادی اظہار کے زمرہ میں آتا بھی ہے یا نہیں؟ کیونکہ بیرونی ممالک میں اس حوالے سے بھی قوانین چکے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ہم توہین عدالت کے قانون کا غیر ضروری استعمال نہیں کرنا چاہتے ہیں، میڈیا خبر کے لئے صرف سیاستدانوں اور طبقہ اشرافیہ کے کیسز نمایاں کرتا ہے، چھٹی والے دن کسی کیس کی سماعت قانون کے دائرہ اختیار میں ہے، میڈیا پر جیلوں میں بند عام قیدی کی مشکلات کیوں پیش نہیں کی جاتی ہیں؟ 

میں یقین دلاتا ہوں کہ یہ عدالت کسی عام قیدی کی بیماری کا کیس بھی سابق وزیر اعظم نواز شریف کی ضمانت کے کیس ہی کی طرح سنے گی، عدالت اس حوالے سے خود سوالات فریم کر کے عدالتی معاونین کو دے گی، صحافی اور اینکرز اس معاملے میں عدالتی معاونین کا کردار ادا کریں گے، بعد ازاں فاضل عدالت نے کیس کی مزید سماعت 18 دسمبر تک ملتوی کر دی۔

تازہ ترین