• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
,

جسٹس فائز عیسیٰ کیس، ویلتھ اسٹیٹمنٹ فارم دیکھنے نہیں بیٹھے، الزام کا جواب دیں، جسٹس عمر عطا بندیال

ویلتھ اسٹیٹمنٹ فارم دیکھنے نہیں بیٹھے، الزام کا جواب دیں، جسٹس عمر عطا بندیال


اسلام آباد( رپورٹ :، رانا مسعود حسین ) عدالت عظمیٰ میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ وغیرہ کی جانب سے صدارتی ریفرنس کیخلاف دائر کی گئی آئینی درخواستوں کی سماعت کے دوران درخواست گزار جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے وکیل بابر ستار نے کہا کہ ہمیں بتایا گیا ہے کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی ویلتھ اسٹیٹمنٹ اور انکم ٹیکس ریٹرن کی تفصیلات خود وفاق نے فراہم کی ہیں۔

جس کے مطابق جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی اہلیہ وزیراعظم عمران خان جتنا ٹیکس دیتی رہی ہیں، اگر عمران خان مالی طور پر خود مختار ہیں تو جسٹس قاضی فائز کی اہلیہ اپنے شوہر کے زیر کفالت کیسے ہوسکتی ہیں؟ 

جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ ویلتھ اسٹیٹمنٹ فارم دیکھنے نہیں بیٹھے ، الزام کا جواب دیں، جسٹس فیصل عرب نے کہا کہ معاملہ ویلتھ اسٹیٹمنٹ کا نہیں،ظاہری اثاثوں سے متعلق ہے، الزام ہے شاید منی لانڈرنگ سے اثاثے بنائے گئے۔

جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں 10رکنی فل کورٹ بنچ نے پیر کے روز کیس کی سماعت کی تو جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے وکلاء پینل کے ایک اور رکن بابر ستار نے اپنے موکل کے انکم ٹیکس سے متعلق سابق دلائل کو آگے بڑھاتے ہوئے موقف اختیار کیاکہ وہ موجودہ چیئرمین ایف بی آر شبر زیدی کا ایک آرٹیکل پڑھ کر سنانا چاہتے ہیں، یہ آرٹیکل بہت اہم ہے، اس کی اہمیت یہ ہے کہ اب صاحب تحریر خود ہی ایف بی آر کے چیئرمین ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ویلتھ اسٹیٹمنٹ کا دولت سے کوئی تعلق نہیں ہے، ان میں اور ریٹرن انکم میں بھی کوئی تعلق نہیں ہے، انکم ٹیکس 2001 انکم سے متعلق ہے نہ کہ اثاثہ جات سے متعلق ہے۔

انہوں نے کہا کہ جسٹس قاضی فا ئز عیسیٰ نے ٹیکس قوانین کی شق 116 کی خلاف ورزی نہیں کی ہے، ویلتھ اسٹیٹمنٹ میں ہمیشہ ابہام ہی رہے ہیں، یہ اسٹیٹمنٹ اثاثوں کو ظاہر نہیں کرتی ہے، جس پر جسٹس فیصل عرب نے کہا کہ ویلتھ اسٹیٹمنٹ کسی بھی وقت جمع کرائی جا سکتی ہے، اس کا انکم کے ساتھ تعلق ہے، بغیر آمدن کے دولت تو نہیں بنتی ہے، آمدن ہوگی تو دولت ہوگی؟ صرف حکومت کی دولت ریونیو سے آتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ اگر کسی نے ویلتھ اسٹیٹمنٹ جمع کرائی ہو لیکن مکمل آمدن نہ بتائی ہو تو کیا کیا جائے گا ؟ جس پر فاضل وکیل نے کہا کہ ویلتھ اسٹیٹمنٹ ایسے ہی جمع نہیں ہوجاتی ہے اس کی بھی کچھ شرائط ہیں، نوٹس میں بتائے گئے وقت کے دوران شہری کو اپنی اور اہل و عیال کی دولت سے متعلق تمام تو تفصیلات فراہم کرنا ہوتی ہیں۔

جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیے کہ ایف بی آر کی شرائط کے مطابق ویلتھ اسٹیٹمنٹس دینا ہوتی ہیں، قانون میں لکھا ہے کہ ʼover and aboveʼ، کیا اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ شہری کو خود کفیل بیوی، بچوں کو بھی ویلتھ اسٹیٹمنٹ میں ظاہر کرنا ہوتا ہے، میرے خیال میں تو اس کی یہ تشریح بنتی ہے؟

جس پر فاضل وکیل نے کہا کہ نہیں ایسا ہرگز نہیں ہے، ایف بی آر کی تاریخ میں ایسا ایک بھی واقعہ نہیں ہے کہ خود کفیل بیوی، بچوں کی معلومات بھی دی گئی ہوں، جس پرجسٹس منیب اختر نے کہا کہ اگر تاریخ میں ایسا نہیں ہوا ہے تو بھی معلومات تو دینی چاہئیں، جب ایف بی آر پوچھے تو بتا دیں کہ وہ خودکفیل ہیں۔

جس پر فاضل وکیل نے کہا کہ اگر کسی ذریعے سے کمشنر کو معلومات ملتی ہیں تو وہ مزید معلومات طلب کرسکتا ہے، جو فارم دیا گیا ہے اْسی کو ہی پر کرکے دینا ہوتا ہے، میرا موکل اپنے طور پر فارم کو تبدیل نہیں کر سکتا تھا، انہیں جو فارم ملا تھا انہوں نے اْس کے مطابق معلومات فراہم کردی تھیں۔

جس پر جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ ہم یہاں ویلتھ اسٹیٹمنٹ کے فارم کو دیکھنے کے لیے نہیں بیٹھے ہیں، ایک الزام ہے آپ اْس کا جواب دیں اور باریک بینیوں میں نہ پڑیں، آپ کے دلائل کا اصل نکتہ کیا ہے؟ہمارے سامنے بنیادی سوال یہ ہے کہ جائیدادوں کے لئے یہ رقم کہاں سے آئی ہے؟

جس پر فاضل وکیل نے کہا کہ یہ کوئی بنیادی سوال نہیں ہے بلکہ جو میں بیان کر رہا ہوں وہ بنیادی سوال ہے، میرا اصل نکتہ یہ ہے کہ ویلتھ اسٹیٹمنٹ میں صرف اپنی آمدن بتانی ہوتی ہے، ویلتھ اسٹیٹمنٹ کی جو شرائط ہیں وہی پوری کرنی ہوتی ہیں، جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ ہمارے پاس معاملہ ویلتھ اسٹیٹمنٹ کا نہیں ہے۔

جس پرفاضل وکیل نے کہا کہ سارا معاملہ ہی جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی ویلتھ اسٹیٹمنٹ پر ہے ، جسٹس مقبول باقر نے ریمارکس دیے کہ کہا گیا ہے کہ آپ کے موکل نے بچوں کے اثاثے ظاہر نہیں کیے ہیں، کیا قانون کے مطابق وہ اثاثے ظاہر کرنے کے پابند نہیں تھے؟ 

جسٹس یحییٰ آفریدی نے کہا کہ جو اثاثے آپ کے نہیں آپ اسے کیسے ظاہر کرسکتے ہیں؟ جسٹس فیصل عرب نے ریمارکس دیے کہ یہ معاملہ ویلتھ اسٹیٹمنٹ کا نہیں بلکہ ظاہری اثاثوں سے متعلق ہے، اگر مفروضوں پر مبنی الزامات لگائے گئے ہیں آپ ان کا جواب دیں، الزام یہ ہے کہ شاید منی لانڈرنگ کے ذریعے اثاثے بنائے گئے ہیں۔ 

جس پر فاضل وکیل نے کہا کہ صدر مملکت کے پاس ایسا کونسا مواد تھا جس کی بنا پر میرے موکل پر الزام لگایا ہے ؟ بغیر شواہد کے ہی ان پر الزامات لگائے گئے ہیں، جس پر جسٹس منصور علی شاہ نے ان سے استفسار کیا کہ کیا آپ کے موکل کو کوئی نوٹس بھیجا گیا تھا توفاضل وکیل نے کہا کہ ہر گز کوئی نوٹس نہیں بھیجا گیا تھا۔ 

جس پر جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ پھر تو بات ہی ختم ہوگئی ہے!جس پر فاضل وکیل نے کہا کہ پہلے یہ شرط نہیں تھی کہ بیرون ملک جائید اور اثاثے ظاہر کیے جائیں، اب قانون میں ترمیم کر کے یہ ذمہ داری عائد کی گئی ہے، اگر کوئی شخص ویلتھ اسٹیٹمنٹ میں غلط بیانی کرے تو اسے جرمانہ دینا ہوتا ہے لیکن اگر کسی نے اپنی خود کفیل بیوی، بچوں کے اثاثے ظاہر نہیں کیے تو کوئی جْرمانہ نہیں ہوتا اور یہی کچھ شبر زیدی نے اپنے اس آرٹیکل میں لکھا ہے۔ 

انہوں نے کہاکہ کمشنر جائیدادوں کا جائزہ لینے کے بعد دوبارہ نوٹس جاری کرسکتا ہے، جس پر جسٹس منصور علی شاہ نے پوچھا کہ کیا اگر جائیدادوں کا پتہ چل جائے تو پھر نوٹس ہوتا ہے؟ جس پرفاضل وکیل نے کہا کہ جی اگر کوئی غلط بیانی ثابت ہو تو ایسا ہی ہے کہ علیحدہ شوکاز نوٹس جاری ہوتا ہے۔

تازہ ترین