• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
,

لوگ اٹارنی جنرل اور شہزاد اکبر کی باتوں سے متفق نہیں، فواد چوہدری

 وزیراعظم نے جو باتیں کیں لوگ یہی سننا چاہ رہے تھے، فواد چوہدری


کراچی (ٹی وی رپورٹ)جیو کے پروگرام ”آج شاہزیب خانزادہ کے ساتھ“ میں وفاقی وزیر سائنس و ٹیکنالوجی فوادچوہدری نے کہا ہے کہ وزیراعظم نے جو باتیں کیں لوگ یہی سننا چاہ رہے تھے، لوگ اٹارنی جنرل اور شہزاد اکبر کی باتوں سے متفق نہیں۔

ن لیگ کے رہنما احسن اقبال نے کہا کہ عمران خان کے اس مائنڈ سیٹ کے ساتھ ملک نہیں چل سکتا، سب سوچنے پر مجبور ہوگئے کہ ملک بچانا ہے تو نئے الیکشن کی ضرورت ہے۔

سینئر تجزیہ کار سہیل وڑائچ نے کہا کہ وزیراعظم عمران خان پر سیاسی دباؤ بہت بڑھ گیا ہے، دو بڑی سیاسی جماعتوں کے لیڈرز کو جیل میں پھینک کر مرنے دیں ایسا نہیں ہوسکتا، ایسی سنگدلی نہ عمران خان نہ ہی پاکستان کے اداروں میں ہے۔

سینئر تجزیہ کار حامد میر نے کہا کہ وزیراعظم نےجو تقریر کی اس کیلئے یہ وقت مناسب نہیں تھا، وزیراعظم کے علم میں بہت سی چیزیں آچکی ہیں اور شاید کچھ ابھی نہیں آئی ہیں، اسلام آباد اور گرد و نواح میں خاموشی سے بہت کچھ ہورہا ہے۔ 

وفاقی وزیر سائنس و ٹیکنالوجی فوادچوہدری نے کہا کہ اٹارنی جنرل اور شہزاد اکبر کی پریس کانفرنس دیکھ کر پریشان ہوگیا تھا، لوگ اٹارنی جنرل اور شہزاد اکبر کی باتوں سے متفق نہیں ہیں، لاہور ہائیکورٹ کے فیصلے کو حکومت کی فتح نہیں سمجھتا ہوں، کابینہ نے انڈیمنٹی بانڈ کا بڑا متوازن فیصلہ کیا تھا جس پر عمل نہیں ہوا، عدالت ایک یقین دہانی کی بنیاد پر نواز شریف کو باہر بھیج رہی ہے۔ 

فواد چوہدری کا کہنا تھاکہ وزیراعظم نے پیر کو جو باتیں کیں لوگ یہی سننا چاہ رہے تھے، وزیراعظم کے دل میں جو بات ہوتی ہے وہی کرتے ہیں، عمران خان کی جارحانہ تقریر سے ان کا پرانا موقف واپس آگیا ہے، وزیراعظم اس طرح ملک چلانا چاہتے ہیں جو بات کرتے ہیں، احتساب پر وزیراعظم کا موقف واضح ہے کہ بڑے چوروں کو پکڑیں اور مقدمات منطقی انجام تک جانے چاہئیں، عمران خان ملک لوٹنے والوں سے ریکوری چاہتے ہیں، وزیراعظم کی سوچ اور ایکشن میں کوئی ابہام نہیں ہے۔ 

فواد چوہدری کا کہنا تھا کہ ہمارا نظام عرصے سے تنزلی کا شکار رہا ہے ہے اس وجہ سے ڈیلیوری کرنا مشکل ہوجاتا ہے،وزیراعظم ناراض بھی لگتے ہیں کیونکہ جس طرح وہ کام کرناچاہتے ہیں اس طرح نہیں ہوپارہا ہے، جیوڈیشل نظام ، نیب قوانین اور نظام انصاف میں اصلاحات کی ضرورت ہے، صدارتی نظام کی بات کرنے والوں کو پتا ہی نہیں آئین کی بنیادیں کیسے بنتی ہیں، موجودہ آئین کا بنیادی ڈھانچہ بہت شاندار ہے اسی کے مطابق چیزیں بہتر کرنا ہوں گی، آئین کے موجودہ ڈھانچہ سے اِدھر اُدھر ہلے تو پھر کھڑے نہیں ہوسکیں گے۔ 

فواد چوہدری نے کہا کہ نواز شریف کا معاملہ جس طرح انجام پایا اس سے نیک نامی میں اضافہ نہیں ہوا، عام آدمی سمجھتا ہے کہ نواز شریف کے معاملہ میں امتیاز برتا گیا ہے، عوام میں تاثر ہے کہ امیراور غریب آدمی کا پاکستان مختلف ہے، وزیراعظم نے احترام کے ساتھ عدلیہ کی توجہ اس طرف دلائی ہے۔

ن لیگ کے رہنما احسن اقبال نے کہا کہ پاکستان کے لئے سب سے بڑا چیلنج اس کی معیشت ہے، وزیر اعظم کی ایسی تقریروں سے معیشت میں سراسیمگی پھیلتی ہے، کوئی بھی افسر پہلے ہی کسی فائل پر دستخط کے لیے تیار نہیں ہے وہ فیصلہ سازی کومزید موخر کردے گا، عمران خان کے اس مائنڈ سیٹ کے ساتھ ملک نہیں چل سکتا، سب سوچنے پر مجبور ہوگئے کہ ملک بچانا ہے تو نئے الیکشن کی ضرورت ہے، تمام سیاسی جماعتیں اپنے ووٹروں کو جوابدہ ہیں،ہر سیاسی جماعت کو رائے عامہ کے سامنے سرینڈر کرنا پڑتا ہے، ایم کیو ایم اور ق لیگ بھی اپنے ووٹرز کے مسائل کا جواب نہیں دے سکتی ہیں۔ 

احسن اقبال کا کہنا تھا کہ قبل از وقت انتخابات کیلئے اپوزیشن کے ساتھ حکومتی اتحادیوں سے بھی ملاقاتیں کریں گے، نئے شفاف انتخابات کے لیے سیاسی جماعتوں کو مل کر قومی ڈائیلاگ کرنا ہوگا، ان ہاؤس تبدیلی عبوری مدت کے لیے ہی کارگر ہوسکتی ہے جو الیکشن سے متعلق اصلاحات کرے، ان ہاؤس تبدیلی سے نئی حکومت نہیں آسکتی ہے، اگلے سال کے وسط تک الیکشن کیلئے تمام جماعتوں کے اتفاق رائے سے عبوری سیٹ اپ بننا چاہئے جس کا ایجنڈا صرف انتخابی اصلاحات ہو، اس وقت ایوان میں نمبرز دیکھیں تو کوئی سیاسی جماعت مستحکم حکومت نہیں بناسکتی ہے، ملک کو ایک ایسی حکومت کی ضرورت ہے جو اقتصادی مسائل کو حل کرسکے ایسا الیکشن کے ذریعے ہی ہوسکتا ہے۔ 

احسن اقبال نے کہا کہ پارٹی صدر سے آئندہ کے لائحہ عمل کے لیے گائیڈ لائنز لی ہیں، شہباز شریف کے بیرون ملک جانے سے پارٹی میں کوئی بحران پیدا نہیں ہوگا، پارٹی مشاورت سے روزانہ کے معاملات جاری رکھے گی جبکہ پالیسی امور پر شہباز شریف سے مستقل رابطہ رہے گا۔

سینئر تجزیہ کار سہیل وڑائچ نے کہا کہ وزیراعظم عمران خان پر سیاسی دباؤ بہت بڑھ گیا ہے، دو بڑی سیاسی جماعتوں کے لیڈرز کو جیل میں پھینک کر مرنے دیں ایسا نہیں ہوسکتا، ایسی سنگدلی نہ عمران خان نہ ہی پاکستان کے اداروں میں ہے کیونکہ اس سنگدلی کی سزا ملتی ہے، ہمیں پتا تھا کہ جب بھی کسی کی زندگی کا مسئلہ ہوگا تو دباؤ زنجیریں توڑ دے گا۔

نواز شریف کے معاملہ میں وہ بیانیہ ٹوٹ گیا جسے انڈیمنٹی بانڈ سے برقرار رکھنے کی کوشش کی گئی، عمران خان جب یہ بیانیہ بنارہے تھے اندازہ تھا یہ دباؤ کا سامنا نہیں کرسکے گا، ایک طرف موت ہو دوسری طرف احتساب تو احتساب کی زنجیریں ٹوٹ جاتی ہیں، یہاں بھی ایساہی ہوا اگر عمران خان نہیں ٹوٹے تو باقی لوگ ٹوٹ گئے۔

اس کے بعد عمران خان کو بھی نواز شریف کو رہا کرنے کے لیے ماننا پڑا، کسی بھی بیانیہ میں سمجھوتے کی گنجائش بھی رکھنی چاہئے، مولانا فضل الرحمٰن کے دھرنے نے کسی کو ڈسٹرب نہیں کیا لیکن سیاسی اور میڈیا کے راستے کھول گئے اور حکومت کو پولا کرگئے۔

تازہ ترین