• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
خیال تازہ … شہزادعلی
برطانیہ چونکہ جنرل الیکشن کے مراحل سے گزر رہا ہے، مختلف جماعتوں سے متعلق امیدوار ووٹرز تک اپنا پیغام پہنچانے کیلئے سخت سرد موسم کے باوجود کمربستہ دکھائی دیتے ہیں اور یوں انتخابی مہم دھیرے دھیرے آگے بڑھ رہی ہے ۔اب جب امیدوار خود آپ کے دروازے پر آرہے ہیں تو یہ موقع بھی اپنے مسائل ان قومی جماعتوں کے سامنے رکھنے کیلئے استعمال کیا جائے۔ اس الیکشن کے یوں تو کئی پہلو اور زاویہ ہائے نظر ہیں ۔ ہر چند کہ نمایاں پہلو بریگزٹ ہے تاہم کئی دیگر زاویوں سے بھی قومی جماعتوں سے متعلق رہنماوں اور کارکنوں کو معاملات کو دیکھنے کی ضرورت ہے۔ سوشیو اور اکنامک یعنی سماجی اور اقتصادی عدم مساوات غیر ہموار اور غیر متوازن صورتحال کو ری بیلنس، متوازن کرنے کی فوری اور اشد ضرورت ہے، جنوب اور شمال کی تفریق نہ صرف بدستور موجود ہے بلکہ اس میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے ۔ گریٹ بریٹن، انگلینڈ ، سکاٹ لینڈ اور ویلز پر مشتمل ہے۔ دی ٹرم نارتھ ساؤتھ کی تقسیم جنوبی انگلینڈ اور دیگر گریٹ بریٹن جن میں ناردرن انگلینڈ، دی مڈ لینڈ ز، ویلز اور سکاٹ لینڈ کے علاقے شامل ہیں کیلئے مستعمل ہے۔ سنٹر فار سیٹیز جو اکنامک گراوتھ کو ماپتی ہے نے 2015 میں یہ معلوم کیا تھا کہ جہاں 2004 سے جنوبی شہروں میں 12 ملازمتیں تخلیق ہوئیں وہاں دیگر علاقوں میں یہ تناسب فقط ایک (1) کا تھا۔ اس عدم مساوات سے دیگر حوالوں کے علاوہ صحت عامہ پر اور تعلیم پر بھی اثرات منفی نوعیت کے مرتب ہورہے ہیں۔ جہاں برطانیہ میں زندہ رہنے کی امید ، یعنی عمر میں اضافہ ہوا ہے ، ہیلتھ کئیر، نگہداشت میں مسلسل اضافہ ، خوراک میں بہتری اور سٹینڈرڈ ز آف لونگ میں بہتری اور امپروومنٹ آئی ہے تاہم برطانیہ بھر میں یہ رحجان برابر کی سطح پر نہیں ۔ ایک تحقیق واضح کرتی ہے کہ ساؤتھ ایسٹ میں اس کی شرح بلند ترین 82 عشاریہ 4 اور سکاٹ لینڈ میں کم ترین 79 عشاریہ ایک تھی۔ بلیک پول کے رہائشی مرد حضرات سٹی آف لندن کے مرد حضرات سے 8سال کم اور ساؤتھ کیمبرج شائر کے مرد حضرات سے 9 سال کم عمر پاتے ہیں ۔ انگلینڈ میں مانچسٹر میں خواتین کم ترین لائف رکھتی ہیں ۔ یہ تفاوت برطانیہ میں لوگوں کی آمدن اور طرز زندگی کوالٹی آف لائف کا پر تو ہے۔ اسی طرح تعلیم کی استعداد پر بھی غربت کا واضح اثر دیکھا جاسکتا ہے۔ باقاعدہ ریسرچ بتا رہی ہے کہ زیادہ تر پسماندہ علاقوں اور کم آمدن اور بے روزگاری جہاں پر زیادہ ہے وہاں پر کم تعلیمی استعداد کا رحجان ہے۔ سال 2015 میں انگلینڈ میں 68 عشاریہ 8 فیصد تعداد میں بچوں نے سی تا اے سٹار گریڈز حاصل کیے ۔ مگر ریجنل حوالوں سے ان میں کافی تغیر نوٹ کیا گیا : لندن نے بہترین نتائج دکھائے شاندار ویلیو ز امیر ترین لندن باروز نے دکھائیں جیسا کہ کینزنگٹن اور چیلسی 73 عشاریہ ایک تھیں۔ ناردرن انگلینڈ کے قصبات میں کم ویلیو ز ریکارڈ کی گئیں جیسا کہ ناوزلے Knowsley نے 40 عشاریہ 8 اور ملڈلزبرا 40 عشاریہ 9 فیصد نتائج دکھائے تھے۔ یہ تو برطانیہ کی عمومی صورت حال ہے جو مستحسن نہیں جبکہ مختلف جائزے یہ بھی واضح کرتے ہیں کہ جب آپ صورت حال کا اقلیتی برادریوں کے لحاظ سے تقابلی جائزہ کے طور پر سمجھنے کی کوشش کریں تو مزید عدم برابری سامنے آتی ہے۔انڈین اور چائینیز پس منظر کے افراد معاشی طور پر مستحکم اور ان کے بچوں کی تعلیمی کارکردگی بلکہ بعض اعتبار سے میزبان کمیونٹیز سے بھی بہتر دکھائی دیتی ہے۔ کیا اس ناہموار رحجان کو ایک صحت مند معاشرہ کیلئے درست قرار دیا جاسکتاہے؟ یقینی طور پر اس بات کا جواب منفی میں ہوگا تو پھر آخر اس تفاوت کو دور کرنے کیلئے قومی جماعتیں کیا پروگرام رکھتی ہیں ؟ یہ سوال ووٹرز کو ضرور ووٹ مانگنے والے امیدواروں کے سامنے رکھنا چاہئے۔ ایتھنیسٹی جیوگرافی کی ایک نصابی کتاب کے مطابق، اقلیتی برطانیہ ،Ethnicity ، کا مطلب وہ گروپ آف پیپلز ہیں جو مشترکہ روٹس شئیر کرتے ہیں، جو اکثر کلچر ، مذہب یا قومیت کی بنیاد پر ہوتا ہے ۔ برطانیہ میں ایتھنک گروپس عموما” امیگرانٹس ہوتے ہیں جو فارن نیشنل جس طرح کے بنگلہ دیشی اور پاکستانی ہیں ان سے ایسوسی ایٹیڈ ہوتے ہیں جبکہ ایتھنک گروپس وسیع طور پر برطانیہ بھر میں سکونت اختیار کرچکے ہیں لیکن ان کی بڑے شہروں میں بہت بڑی آبادی ہے اور بلخصوص لندن جہاں پر تقریباً” 3 ملین غیر ملکی پیدائشی رہائشی لوگ آباد ہیں سٹڈی ظاہر کرتی ہے کہ یوں تو برطانیہ میں رہائشی علاقوں میں اقلیتی طور پر ادغام ہو رہا ہے تاہم کچھ اقلیتی گروہ خصوصی طور پر پاکستانی ، بنگلہ دیشی اور کچھ بلیک افریقن شہروں میں امتیازی کلسٹرز رکھتے ہیں ۔ کم آمدنی اور ملازمتوں کی محدود سیکورٹی اقلیتی طبقے ممکن ہے کہ اپنے آپ کو نسبتاً اندرون شہر، انر سٹی inner city کے پسماندہ علاقوں میں رہنے پر مجبور ہوں۔ یہ امر کسی بھی طور ایک ماڈرن بریٹن کے شایان شان نہیں قرار دیا جاسکتا کہ کئی دہائیوں سے گریٹ بریٹن میں رہنے والے یہ اقلیتی گروہ ابھی تک پوش علاقوں میں رہنے کا صرف خواب ہی
رکھیں۔ مین سٹریم پارٹیوں کیلئے فکر اور سوچ کا مقام ہونا چاہئے کہ کیا وجہ ہے کہ برطانیہ کے اندر پاکستانی کشمیری اور بنگلہ دیشی اور افریقہی پسماندہ ترین علاقوں کے اندر رہ رہے ہیں ؟ ان کمیونٹیز کا طرز رہائش طرز، زندگی، غربت اور افلاس کا نمونہ کیوں ہے ؟ جبکہ بعض اقلیتی کمیونٹیز کا بودوبوش کافی مختلف منظر پیش کرتا ہے؟ آخر کیوں؟ نئی بننے والی حکومت چاہے وہ کسی بھی پارٹی کی ہو اس حکومت کی ان اقلیتی طبقوں کو بہتر علاقوں میں منتقل کرنے یا ان پسماندہ علاقوں کو نسبتاً خوشحال بنانے کی طرف کیا اقدامات ہوں گے اقلیتی طبقوں کو مختلف جماعتوں سے اس متعلق انگیج ہونے کی ضرورت ہے کیونکہ یہ ایک پہلو جو مختلف اقلیتی برادریوں میں پایا جانے والا عدم برابری کا ہے اس کو پاٹے بغیر دور کیے بغیر یکساں مواقع کے فراہمی کے دعوے صرف دعوے ہی رہیں گے۔ لیورپول یونیورسٹی کے مائرین کی دو سال پہلے کی ایک رپورٹ میں بھی اس امر کی نشاندہی کی گئی ہے کہ حکومتی کوششوں کے باوجود شمالی اور جنوبی برطانیہ کے مابین سوشل اور اکنامک تفاوت بدستور موجود ہے۔ اس مطالعاتی رپورٹ کے ذریعے صحت کے بعض اہم امور میں شمال اور جنوب کی غیر منصفانہ تقسیم سے پیدا شدہ الارمنگ صورتحال کا تجزیہ کیا گیا ہے اور ایسی پالیسیوں میں تبدیلی لانے کی ضرورت کو اجاگر کیا گیا ہے جن سے سماجی اور معاشی ناہمواریاں بڑھ رہی ہیں۔ موثر پالیسی اپنانے کی طرف توجہ دلائی گئی تھی اب اس الیکشن مہم کے دوران سیاسی جماعتوں کو اس متعلق بھی مکالمہ کرنے کی ضرورت ہے جبکہ یہ بھی نوٹ کیا جائے کہ ایک ریجن، خطے کے اندر بھی عدم برابری کی سچوئشن بھی موجود ہے۔ تمام ریجنز، خطوں میں بعض نہایت امیر ترین افراد موجود ہوں گے اور بعض بہت غریب، اسکول طلباء کی جغرافیہ کے مضمون سے متعلق ایک کتاب کا اگلے روز سرسری جائزہ بھی چشم کشا تھا، چند اہم نقاط اس کالم کے قارئین کے ساتھ شئیر کرنا یہاں مناسب رہے گا: لندن، 7500 افراد ایسے ہیں جو گلیوں میں ہر روز شب بسری پر مجبور ہیں۔ٹاور ہملٹس بارو انگلینڈ کی تیسری پسماندہ ترین بارو ہے یہاں پر بچوں کی غربت کی سطح ملک بھر میں سب سے زیادہ پائی گئی۔ ازلنگٹن بارو میں مور ٹیلیٹی ریٹ فار کارنری دل کی بیماریوں کا ہر لاکھ میں سے 114 فیصد ہے جو تمام ریجنل میں سب سے اونچا تناسب تھا۔ رنگ و نسل، کلچر اور مذہب سے جڑے مسائل، برطانیہ چونکہ ایک کثیر المذاہب، کثیر الثقافت اور کثیر النسل جزیرہ ہے اس پس منظر میں بعض مذاہب اور ثقافتوں سے اسکولوں میں نصاب اور بعض مضامین کو رنگ دار نسلوں اور مذاہب سے ہم آہنگ بنانے کی آوازیں اٹھتی رہتی ہیں۔ اس لحاظ سے بھی سیاسی قوتوں کیساتھ انگیج ہونا شاید موزوں ہو۔ جموں و کشمیر کا قضیہ، ہم سمجھتے ہیں کہ مسئلہ کشمیر برطانیہ نے ہی حل طلب چھوڑا تھا، اسلئے اسکے حل کے حوالے سے بھی بھاری ذمہ داری برطانوی ارباب اختیار پر عا ئد ہوتی ہے۔ کشمیر جو صرف ایک واضح مسلم اکثریتی ریاست ہی نہ تھی بلکہ اسکا جغرافیائی تعلق بھی مملکت پاکستان سے کئی اعتبار سے جڑا ہوا ہے اور جہاں کی قد آور شخصیات نے قیام پاکستان سے ہی پہلے اس ریاست کے پاکستان کیساتھ الحاق کی باقاعدہ قرارداد تاریخ جس شخصیت کو آج غازی ملت بیرسٹر سردار محمد ابراہیم خان کے نام سے جانتی ہے انکی رہائشگاہ پر منظور کی تھی۔ برطانیہ اگر اصولی طور پر کشمیر کی مسلم ریاست کو پاکستان میں شامل کر دیتا تو آج یہ تنازع ہی پیدا نہ ہوتا۔ اس لیے ان انتخابات کے موقع پر برطانیہ کے پاکستانی کشمیری رائے دہندگان برطانوی سیاسی جماعتوں کے ساتھ کشمیر پر کمٹمنٹ ضرور لیں۔ پاکستان اور آزاکشمیر کیلئے برطانوی امداد، بطور برٹش پاکستانی کشمیری ہمارا یہ فرض منصبی ہے کہ قطع نظر اس کے کہ پاکستان اور آزاکشمیر پر کس پارٹی کی حکومت ہے برطانیہ سے مختلف شعبوں میں جن میں تعلیم کا اہم شعبہ بھی شامل ہے سے انٹرنیشنل ڈویلپمنٹ فنڈز اور دیگر مد میں امداد کو جاری رکھوانے کیلئے بھی یہاں کی مختلف پارٹیوں کیساتھ انگیج ہوں اور ان کو یہ بھی احساس دلایا جائے کہ پاکستان مغرب کا فرنٹ لائن اتحادی رہنے کے باعث دہشت گردی سے بھی سب سے زیادہ متاثر ہوا جس سے فوجی جانی ، انسانی اور مالی کئی طرح کے نقصان اٹھانا پڑے اب جو برطانیہ کی نئی حکومت وجود میں آئے تو وہ پاکستان دوست ہو ۔ مسئلہ کشمیر پر بھارت کی مرکزی حکومت اور برطانیہ مین اس کے کل پرزے تو اتنے متحرک ہوچکے ہیں کہ لندن میں 27 اکتوبر کو یوم سیاہ پر انکی کارکردگی کھل کر سامنے آئی ہے پس منظر میں یہ بھارت کی کامیاب سفارت کاری ہے کہ جسکے باعث بھارتی ہائی کمیشن کے باہر کشمیری پاکستانی کمیونٹی کو اس سال مظاہرہ کی اجازت نہیں ملی ، پھر تازہ ترین واقعہ لیبر پارٹی کی کشمیر پالیسی میں تبدیلی کا ہے اب ان حوالوں سے پاکستان کے لندن سفارت خانہ اور دیگر ذیلی مشننز کو بھی متحرک کردار ادا کرنا چاہیے جبکہ مزید پاکستانی کشمیری سیاسی سماجی جماعتوں اور برطانیہ کی مختلف پارٹیوں کے اندر کام کرنے والے افراد پر بھی بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے جبکہ اقلیتی طبقہ بلخصوص پاکستانی کشمیری میڈیا کے ذمہ دار اراکین کو بھی اس اہم موقع پر کمیونٹی میں بیداری کی لہر پیدا کرنے میں اپنے حصے کی شمع روشن کرنی چاہئے۔
تازہ ترین