• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
تحریر:محمد عجیب سی بی ای، ترجمہ نذیر تبسم۔لندن
بنی نوع انسان کی حزنیہ تاریخ کے اکثر و بیشتر واقعات انسان کے طاقت و اختیار کے حصول سے جڑے ہوئے ہیں، جس طاقت اور قوت سے وہ دوسرے انسانوں کو مغلوب اور اپنا زیر نگین بنا کر رکھتا ہے۔ دور حاضر کی تاریخ ایسے واقعات سے بھری پڑی ہے اور امن عالم و استحکام کے لیے کوششوں کی تلاش بھی بلا روک ٹوک جاری رہتی ہے۔ طاقت ور ممالک بلا روک روک اور بغیر مزاحمت کمزوروں کو دبا کر رکھنے اور ان کے وسالائل غصب کرنے کا سلسلہ بھی جاری رکھتے ہیں۔ زیادہ تر مبصرین اِس بات سے اتفاق کریں گے کہ اِس مظہر کی دو نمایاں مثالیں فلسطین و کشمیر ہیں۔ 1947 میں ہندوستان کے بٹوارے سے لے کر اب تک پاکستان اور بھارت کے درمیان چار غیر نتیجہ خیز جنگیں ہو چکی ہیں اور 72 سال گزرنے کے باوجود کشیدگی ہنوز برقرار ہے۔ 2016 میں بھارتی قابض فوجوں کے ہاتھوں حریت پسند برہان مظفر وانی کی شہادت نے وادی کشمیر میں صدائے احتجاج بلند کرنے کی تحریک کو نئی قوت عطا کی۔ اِن احتجاجی مظاہروں کے باعث کشمیری عوام اوربھارتی سیکورٹی اداروں کے درمیان ٹکراؤکے باعث کم و بیش 1,000 شہادتیں ہوئیں جب کہ 15,000 کے قریب لوگ زخمی ہوئے۔بھارتی سیکورٹی فورسز کے ہاتھوں اِن انسانی جانوں کے زیاں کا باعث چھرے والی (Pallet ) بندوقوں کا استعمال تھا جو بین الاقوامی طور پر ممنوع ہے۔بھارت نے انسان دشمن پالیسی کو کشمیر میں جاری کیا ہوا ہے جس کے باعث اُس کی فوج کو جبر و استبداد جاری رکھنے اور خواتین کی بے حرمتی کو جنگی ہتھیار کے طور پر استعمال کرنے کی کھلی چھوٹ حاصل ہے۔ اِس سال 5 ِ اگست کو بھارت نے اپنے آئین کے آرٹیکل 370 اور آرٹیکل A 35 کو غیر آئینی طور پر ختم کرکے اور کشمیر کی خصوصی حیثیت کو ختم کرکے کشمیر میں جاری تحریک مزاحمت کو ایک نئی سمت دی ہے۔اِس اقدام نے جو بڑی سرعت کے ساتھ بھارتی مقننہ کے دونوں ایوانوں کی منظوری کے بعد کیا گیا ، کشمیریوں کو ایک نئے صدمے سے دوچار کیا ہے، اُن کا کہنا ہے کہ اِن آرٹیکلز میں اگرچہ اب وہ دم خم نہیں رہا تاہم یہ اُن کو ایک شناخت دینے کا باعث تھے جس کے خاتمے کے بعد اب وہ اُس شناخت سے محروم ہو چکے ہیں۔ ایسا کرتے ہوئے بھارت نے کشمیر میں ایک ایسا لاک ڈاون اور کریک ڈاون شروع کر رکھا ہے جس کی قبل ازیں کوئی مثال نہیں ملتی۔ ایک سو سے زیادہ دنوں سے وادی میں مسلسل کرفیو نافذ ہے جس کے باعث لوگوں کی اشیاء ضرورت کے حصول کی جگہوں تک رسائی کو ناممکن بنا دیا گیا ہے۔ ہسپتال مریضوں کی پہنچ سے باہر ہیں۔ الیکٹرانک کمیونیکیشن سسٹم وادی میں مکمل طور پر بند ہے، ٹیلی فون ، موبائل سب بند ہیں۔ لوگوں کا مساجد تک پہنچنا محال کر دیا گیا ہے۔80 لاکھ کشمیریوں پر 8 لاکھ بھارتی فوج دن رات پہرہ دیتی ہے لیکن اِن تمام فسطائی ہتھکنڈوں کے باوجودذرا سا بھی سیکورٹی میں نرمی آنے پر کشمیری مرد و زن، بچے بورھے گلیوں ، محلوں اور سڑکوں پر احتجاج کرنے نکل آتے ہیں۔ جب سے بھارت میں نریندر مودی بر سر اقتدار آیا ہے، اُس ملک پر دائیں بازو کی انتہا پسند قوم پرست تنظیم راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) کا راج ہے جس کے بارے میں اکثر مبصرین کا کہنا ہے کہ وہ حکومتی پارٹی بی جے پی کی ذیلی تنظیم ہے۔ بظاہر مودی سرکار کی آشیر باد کے باعث آر ایس ایس ہندو نوجوانوں میں نسل پرستی ، ہندوں کے تفوق و تفاخر کا پرچار کرکے اُنہیں دیگر مذاہب کے ماننے والوں بالخصوص مسلمانوں سے بر تر ہونے کی تعلیمات سے برین واشنگ کرتے ہیں۔ آج کے ہندوستان میں مسلمانوں، عیسائیوں ، چھوٹی ذات کے ہنددوں کو زبردستی اُن کے مذاہب سے منحرف ہونے پر مجبورکیا جا تا ہے اور بصورت دیگر اُنہیں تشدد سے ہلاک کرنے کی کھلی دھمکیاں دی جاتی ہیں۔ اِس پالیسی کے باعث بھارت اب جبر و ا ظلم کا خطہ بن چکا ہے جسے عام طور پر ایک کھلی جیل قرار دیا جا رہا ہے، اور اِسے نازی عقوبت خانوں سے تشبیہ دی جا رہی ہے جو خلاف حقیقت بھی نہیں۔ جن مسائل کا پاکستان، کشمیر اور دنیا بھر کے مسلمانوں کو سامنا ہے اُن کے بارے میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں پاکستانی وزیر اعظم عمران خان کی تقریر کو ایک انتہائی جرأت مندانہ اقدام قرار دیا جا رہا ہے جس کے باعث متعدد مسلم و غیر مسلم عالمی لیڈروں کے ماتھے پر بل پڑنا فطری بات ہے۔ لیکن یہ کہنا قبل از وقت ہو گا کہ اُن کی تقریر کا اثر اُن عالمی لیڈروں پر ہوتا ہے یا نہیں جو دنیا کے حالات و واقعات کو کنٹرول کرتے ہیں۔ کس قدر افسوسناک بات ہے کہ وہ عالمی قوتیں جو عالمی آزادیوں کی علمبردار ہیں اور جو انسانی حقوق کا دفاع کرتے ہیں، کشمیر کے معاملے میں خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں۔ جب کہ بہت سے لوگ اقوام متحدہ کو بے جان، غیر فعال اور عالمی طاقتوں کا آلہ کار ادارہ گردانتے ہیں جو غیر قانونی قبضوں پر مہر تصدیق ثبت کرنے کا باعث ہے۔جہاں تک امریکہ کا تعلق ہے جو کبھی بھی استتقامت کے ساتھ مسلمانوں کا ساتھ دینے میں ناکام رہا ہے، صدر ٹرمپ کی موجودگی میں اُس سے کشمیر کے سلسلے میں کسی بھلائی کی توقع کرنا عبث ہے۔ اِس صور ت حال میں کشمیر جن حالات سے گزر رہا ہے، اُن سے نکلنے کی کیا صورت ممکن ہے؟زیر تحریر موضوع کا اصل مدعا اِسی پر اظہار خیال کرنا ہے۔ مایوسی اور نا امیدی کی کیفیات اور تاسف کے ساتھ یہ کہنا پڑتا ہے کہ پاکستان توقع لگائے بیٹھا ہے کہ بھارت بین الاقومی دباؤ کے باعث کشمیر کی ناکہ بندی اور قبضہ ختم کر دے گا۔ یہ جو کچھ بھی ہے بہرحال ایک طویل المدتی سٹریٹیجی تو ہو سکتی ہے لیکن اِس سے کشمیریوں کو اُن کی حالیہ مشکلات سے نکالنا ممکن نہیں۔ کشمیریوں کو موجودہ صورت حال سے نکالنے کے لیے جنگ کو بطور آپشن زیر بحث لایا جاتا ہے۔ لیکن اِس سے اِس قضیے کا فوری حل ممکن نہیں جبکہ اِس کے باعث مسائل میں اور زیادہ الجھاؤکے خدشات زیادہ ہیں۔ دونوں ملکوں کے درمیان ایٹمی ٹکراؤجسے بعض حلقے مسئلے کا حل قرار دیتے ہیں، صرف اُس صورت میں ممکن ہو گا کہ دونوں ملک اپنی عقل و فہم کو تعطیل پر بھیج دیں۔ تاہم وہ عناصر جو معتدل رویے اور رجحانات کے حامل ہیں ، اُنہیں عمران خان کے اقوام متحدہ کی جنرل سمبلی میں تقریر کی حکمت عملی سے بھر پور اتفاق ہے۔ جہاں تک سفارتی حکمت عملی کا تقاضا ہے ، تحمل اور بردباری ہی لائق توصیف اور درست لائحہ عمل ہے۔ مغربی ممالک طویل عرصے سے کشمیر کو بھارت اور پاکستان کا اندرونی دو طرفہ معاملہ سمجھتے آئے ہیں اور اُن کا کہنا ہے کہ اِسے دونوں ممالک باہمی گفت و شنید ہی سے حل کر سکتے ہیں۔ اِن ملکوں کی اِس پالیسی میں کشمیر کی حالیہ خوفناک صورت حال کے باوجود کوئی تبدیلی دیکھنے میں نہیں آئی۔ اِس کی بنیادی وجہ اقتصادیات ہے، بھارت کے ساتھ اُن کے بڑے پیمانے پر تجارتی تعلقات اُن کی اِس پالیسی کو بدلنے کی راہ کی رکاوٹ ہیں۔ چند ہفتے قبل، لیبر پارٹی کی سالانہ کانفرنس کے دوران اُمید کی ہلکی سی کرن نمودار ہوئی تھی جب جیرمی کوربن کی مکمل حمایت کے ساتھ ایک قرارداد پاس کی گئی جس میں(کشمیر میں)میں بین ا لاقوامی مداخلت کی حمایت کی گئی اور اقوام متحدہ کی زیر نگرانی رائے شماری کرانے کا مطالبہ کیا گیا۔ کشمیر کو زیر مشاہدہ رکھنے والے کرسمس سے قبل برطانیہ میں منعقد ہونے والے عام انتخابات کے نتائج اور ویسٹ منسٹر کی صورت حال پر نظریں جمائے بیٹھے ہیں۔ تاہم لگتا ہے کہ بین الاقوامی کاوشوں اور اُن کی حمایت حاصل کرنے کی اپیلیں سنی اَن سنی کر دی جائیں گی۔ دیکھنا یہ ہے کہ جنگ کے بغیر یا دو طرفہ گفت و شنید کی راہوں کے معجزاتی کھلنے کے بغیر، کشمیر کو اِس صورت حال سے کیسے نکالا جا سکتا ہے؟ ہم جو حل یہاں پیش کرنے جا رہے ہیں ، بعض لوگوں کو متنازع اور آخری حربہ نظر آئے گا، تاہم موجودہ حالات بھی توآخری حربے کا تقاضا کرتے ہیں۔ اِس لیے ہماری تجویز یہ ہے کہ آزاد کشمیر بشمول گلگت بلتستان کو آخری ڈوگرہ مہاراجہ ہری سنگھ کی جانشین حکومت کے طور پر تسلیم کیا جائے۔پاکستان اِسے بطور خود مختار ریا ست تسلیم کرے اور اپنا سفارتی اثر رسوخ استعمال کرتے ہوئے اپنے حلقہ اثر کے ممالک سے بھی تسلیم کرائے۔ پاکستان اقوام متحدہ کی سیکورٹی کونسل کے اُن مستقل ممبر ملکوں سے جن سے اُس کے قابل اعتماد دوستانہ تعلقات ہیں کے ذریعے اِسے اقوام متحدہ کی رکنیت دلائے۔ بھارت نے کشمیر کی خصوصی حیثیت کو ختم کرکے از خود اُن بنیادوں کو ڈھا دیا ہے جن بنیادوں پر کشمیر کا بھارت کے ساتھ نام نہاد الحاق ہوا تھا۔ اور اِس طرح انہوں نے کشمیر کو مقبوضہ علاقے میں بدل دیا ہے جس کے باعث اب نہ تو کشمیریوں اور نہ پاکستان پر اُس نام نہاد الحاق کو کوئی اہمیت دینے کی ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ پاکستان کو جرأت مندانہ اقدام کرنے اور کشمیریوں پر اعتماد کرنے کی ضرورت ہے، اور کشمیری کبھی بھی پاکستان سے غداری نہیں کریں گے۔ ایک خود مختار ریاست جموں کشمیر بھارت اور پاکستان کے مابین بفر کا کردار ادا کرے گی اور اِس طرح عالمی امن کے قیام کا باعث بنے گی۔ ہمیں یقین کامل ہے کہ یہ اپنے قدرتی وسائل کے باعث معاشی طور پر خود کفیل ہو گی اور اِس کے قدرتی وسائل سے بھارت اور پاکستان دونوں مستفید ہو سکیں گے۔ اِن وسائل میں سب سے زیادہ اہم آبی اور پن بجلی کے وسائل ہیں۔ پاکستان اگر جرأت سے کام لے تو کشمیر ایشیا کا سوئٹزلینڈ بن سکتا ہے۔ نیلسن منڈیلہ نے کہا تھا: ’’جب تک ہو نہ جائے، ناممکن نظر آتا ہے‘‘۔ وقت کا تقا ضا ہے کہ ہم اب یہ کر دکھائیں۔
تازہ ترین