• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پاک فوج کے ترجمان میجر جنرل عاصم سلیم نے اگلے روز راولپنڈی میں میڈیا کے نمائندوں سے گفتگو کرتے ہوئے جو باتیں کیں‘ وہ نہ صرف بروقت تھیں بلکہ ان سے کئی غلط فہمیاں دور کرنے میں مدد ملے گی اور عام انتخابات سے قبل ان غلط فہمیوں کو دور کرنا بہت ضروری تھا۔ کراچی‘ کوئٹہ‘ پشاور اور ملک کے دیگر حصوں میں دہشت گردی کی بڑھتی ہوئی وارداتوں کے بعد بعض حلقے یہ تاثر پیدا کرنے کی منظم کوششیں کررہے تھے کہ ملک میں عام انتخابات ملتوی ہوجائیں گے کیونکہ ایک بڑی طاقت انتخابات کا التوا چاہتی ہے۔ زیادہ تر لوگوں کے ذہنوں میں یہ بات ڈالی گئی کہ فوج عام انتخابات ملتوی کراکے طویل عرصے کے لئے نگران حکومت قائم کرنا چاہتی ہے۔ میجر جنرل عاصم سلیم نے دو ٹوک الفاظ میں ان تاثرات کی نفی کی اور کہاکہ عام انتخابات کے التوا سے فوج کا کوئی سروکار نہیں اور نہ ہی فوج کو اس سے کوئی فائدہ ہوگا۔ فوج ملک میں آزادانہ‘ غیر جانبدارانہ اور بروقت انتخابات چاہتی ہے۔ فوج نے5 سال تک جمہوریت کی حمایت کی، آخر میں وہ اپنا ارادہ تبدیل کیوں کرے گی۔ پاک فوج کے ترجمان نے یہ بھی واضح کیا کہ کسی بھی کالعدم تنظیم سے روابط نہیں۔ لشکر جھنگوی سمیت تمام کالعدم تنظیموں کے خلاف کارروائی کی جارہی ہے۔ اُنہوں نے یہ بھی واضح کردیا کہ طاہر القادری یا بنگلہ دیش ماڈل سے فوج کا کوئی تعلق نہیں۔
پاکستان کی تاریخ میں شاید پہلی مرتبہ ایسا ہوا ہے کہ پاک فوج کے ترجمان نے ایسے موضوعات پر کھل کر باتیں کی ہیں جو قومی سطح پر زیر بحث تھے اور بہت بڑی غلط فہمیوں اور مغالطوں کا سبب بن رہے تھے۔ قبل ازیں پاک فوج کی طرف سے اس طرح کھل کر بات نہیں کی گئی ہمیشہ ایسے موضوعات پر تبصرہ کرنے سے احتراز کیا گیا تھا۔ میجر جنرل عاصم سلیم نے جس طرح کی باتیں کیں‘ اس طرح کی باتیں پاک فوج کا کوئی ترجمان پہلے شاید کر بھی نہیں سکتا تھا کیونکہ پاک فوج نے پہلی مرتبہ اپنے عمل سے ثابت کیا ہے کہ وہ نہ صرف سیاست سے دور ہے بلکہ اُس نے ملکی تاریخ میں پہلی مرتبہ دہشت گردوں اور انتہا پسندوں کے خلاف حقیقی جنگ لڑی ہے اور کامیابیاں حاصل کی ہیں۔ سیاست اور حکومتی امور میں فوج کی طرف سے مداخلت نہ کرنے کے واضح ثبوت اور عملی مظاہرہ ہم سب کے سامنے ہیں۔ موجودہ آرمی چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی نے اپنے عہدے کا چارج سنبھالتے ہی فوجی افسران کو سول اداروں سے واپس بلالیا اور اُس کے بعد سے اب تک کوئی فوجی افسر دوبارہ سول اداروں میں تعینات نہیں ہوا۔ اگر اکا دکا کہیں تعیناتیاں ہوئی ہیں تو وہ حکومت کی درخواست پر ہوئی ہوں گی۔ ماضی میں سول اداروں کو ٹھیک کرنے کا جو زعم فوجی افسروں میں پیدا کیا گیا تھا‘ وہ گزشتہ پانچ سال میں کہیں نظر نہیں آیا‘ فوج نے نہ صرف اپنے پیشہ ورانہ امور پر توجہ دی۔ گزشتہ پانچ سال کے دوران ملک میں نہ صرف آئینی بلکہ سیاسی بحران بھی پیدا ہوئے لیکن فوج ہر معاملے میں دور رہی۔ موجودہ چیف جسٹس جناب جسٹس افتخار محمد چوہدری کو بحال کرانے کے لئے پاکستان مسلم لیگ (ن) کے سربراہ میاں نواز شریف کے اسلام آباد کی طرف لانگ مارچ کے وقت ایک بڑا بحران پیدا ہوا تھا‘ جسے ختم کرنے میں اگر فوج کا کوئی تھوڑا بہت کردار ہے تو وہ انتہائی مثبت ہے۔ اس بحران کو حل ہونے کے بعد فوج کی طرف سے یہ واضح پیغام مل گیا کہ وہ پاکستان میں جمہوری عمل کو جاری و ساری رکھنا چاہتی ہے اور اگر کوئی جمہوری عمل کو پٹڑی سے اتارنا چاہتا ہے یا ملک میں سیاسی عدم استحکام پیدا کرنا چاہتا ہے تو وہ فوج کی طرف نہ دیکھے۔ اُس کے بعد بہت سے معاملات درست سمت میں چلنے لگے۔ تحریک منہاج القرآن کے سربراہ ڈاکٹر طاہر القادری نے اسلام آباد میں جو دھرنا دیا‘ وہ بھی سیاست میں فوج کی مداخلت کے لئے ایک بہت بڑا موقع تھا لیکن فوج کی طرف دیکھنے والوں کو اس مرحلے پر بھی مایوسی ہوئی۔ پانچ سال کے عرصے میں اور بھی کئی مواقع ایسے آئے جب فوج کی مداخلت کو لوگ جائز قرار دیتے۔ ماضی میں فوج کی مداخلت کے لئے جو حالات پیدا کئے جاتے تھے وہ بھی اس دور میں قصداً پیدا نہیں کئے گئے۔ ماضی کے برعکس اس مرتبہ سیاسی حکومت کے خلاف نہ کوئی بڑا اتحاد تشکیل دیا گیا اور نہ ہی کوئی احتجاجی تحریک جنم لے سکی۔ یہ سارے فوج کی سیاست میں عدم مداخلت کے ثبوت اور عملی مظاہر ہیں۔
میجر جنرل عاصم سلیم کا یہ کہنا بھی درست ہے کہ جب فوج نے پانچ سال تک جمہوریت کی حمایت کی تو وہ اس مرحلے پر اپنا ارادہ کیوں تبدیل کرے گی۔ حقیقت بھی یہی ہے کہ فوج اگر پاکستان میں جمہوری عمل کو سبوتاژ کرنا چاہتی تو وہ بہت پہلے اپنا کام شروع کردیتی، ماضی کے تجربات ہمارے سامنے ہیں۔ اب جبکہ عام انتخابات قریب ہیں اور جمہوری حکومت اپنی آئینی مدت پوری کررہی ہے‘ فوج کو سیاسی مداخلت کا کیا فائدہ ہوگا۔ پاکستان میں ایسی کوئی سیاسی صف بندی بھی نظر نہیں آتی جو فوج کے آئندہ کے سیاسی منصوبوں کے لئے ضروری ہوتی ہے۔ یہ بھی اس امر کی دلیل ہے کہ فوج کا آئندہ بھی کوئی ایسا ارادہ نہیں ہے کہ وہ جمہوری عمل میں کسی قسم کا تعطل پیدا کردے۔ اگر فوج کا کوئی ارادہ ہوتا تو پہلے سے کوئی ماحول بنایا جاتا لیکن اس طرح کا کوئی ماحول اب تک نہیں بن سکا ہے جو غیر آئینی اقدام کے لئے سازگار ہو۔
اب جبکہ یہ حقیقت عیاں ہوگئی ہے کہ فوج سیاست سے نہ صرف دور رہنا چاہتی ہے بلکہ ملک میں جمہوری عمل جاری و ساری رکھنے کی حامی ہے تو پھر یہ سوچنا انتہائی مضحکہ خیز ہوگا کہ فوج انتہا پسند تنظیموں سے رابطے میں ہے یا ان تنظیموں کی سرگرمیوں سے فائدہ اُٹھانا چاہتی ہے۔ پاکستان کی تاریخ میں پہلے کبھی ایسا نہیں ہوا تھا کہ پاک فوج نے دہشت گردوں اور انتہا پسند تنظیموں کے خلاف اس قدر بڑے پیمانے پر اور طویل عرصے تک جنگ لڑی ہو۔ دہشت گردوں کے خلاف اس جنگ میں پاک فوج کے تقریباً سات ہزار افسران اور جوان جام شہادت نوش کرچکے ہیں۔ سوات‘ مالاکنڈ‘ وزیرستان اور دیگر قبائلی علاقوں میں فوج نے دہشت گردوں کے خلاف ایسی کامیابیاں حاصل کی ہیں جنہیں ناقابل یقین تصور کیا جاتا ہے۔ کسی گوریلا جنگ میں فتوحات فوجی نقطہٴ نظر سے کوئی آسان کام نہیں ہے۔ امریکہ اور اُس کی اتحادی افواج افغانستان میں اس طرح کی کامیابیاں حاصل نہیں کرسکی ہیں جس طرح پاک فوج نے حاصل کی ہیں۔ جن انتہا پسند تنظیموں کے خلاف پاک فوج نے کارروائی کی‘ اُن کے بارے میں پاکستان کے دشمن الزام لگاتے تھے کہ یہ پاک فوج کی اتحادی تنظیمیں ہیں۔ پاک فوج نے ان الزامات کو عملاً غلط ثابت کردیا۔ دہشت گردی کے خلاف جس جنگ میں پاک فوج اتنے گہرے پانیوں میں اُتری ہوگی‘ اُس دہشت گردی سے وہ کیونکر سیاسی فائدہ اُٹھائے گی؟ دہشت گردی کے خلاف حالیہ جنگ میں جتنی بڑی تعداد میں فوجی افسران اور جوان شہید ہوئے ہیں‘ اتنی شہادتیں پہلے کسی جنگ میں نہیں ہوئی ہوں گی۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ فوج کے بارے میں غلط فہمیاں کیوں پیدا کی جارہی ہیں؟ اس کا ایک سبب یہ ہے کہ ماضی کے تجربات اور لوگوں کے ذہنوں میں بیٹھے ہوئے خوف کو بعض عناصر اپنے عزائم کے لئے استعمال کررہے ہیں۔ ان عناصر کے مخصوص مفادات غیر جمہوری اور آمرانہ حکومتوں سے وابستہ ہیں۔ انہی عناصر کے انتہا پسند تنظیموں سے پہلے بھی رابطے ہیں اور ملک میں بدامنی سے ان عناصر کو فائدہ ہوتا ہے۔ یہ عناصر سیاستدانوں کی صفوں میں بھی موجود ہیں اور آمرانہ دور میں بنائی گئی انتہا پسند تنظیموں کے نیٹ ورکس میں بھی ان کا اثرورسوخ ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ پاکستان میں دہشت گردی کی وارداتوں میں اس بات سے قبل تیزی آگئی ہے لیکن یہ مخصوص عناصر اپنے عزائم میں کامیاب نہیں ہوں گے کیونکہ فوج نے ملک میں جمہوری عمل کی حمایت جاری رکھنے کا تہیہ کیا ہوا ہے۔ جنرل کیانی خراج تحسین کے مستحق ہیں اُنہوں نے فوج کو سیاست سے الگ رکھنے کا تاریخی کارنامہ انجام دیا ہے۔ پاکستان کو ایسے لوگوں کی ضرورت ہے۔ جب بات سچ ہو تو اخلاقی جرأت کے ساتھ اُسے بیان کیا جاتا ہے، میجر جنرل عاصم سلیم نے یہی کیا ہے۔
تازہ ترین