• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
تحریر: قاری عبدالرشید۔۔ اولڈھم
مشہور قول کے مطابق 12 ربیع الاول سن 11 ھجری سوموار کا دن اور زوال سے پہلے کا وقت ہے۔ نبی کریم رحمت اللعالمین صلی اللہ علیہ وسلم ام المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کیساتھ ٹیک لگائے ہوئے ہیں۔ پانی کا پیالہ پاس رکھا ہوا ہے۔ اس میں ہاتھ ڈالتے اور چہرہ انور پر پھرا لیتے ہیں۔ روئے اقدس کبھی سرخ اور کبھی زرد پڑ جاتا ہے۔ زبان مبارک آہستہ آہستہ حرکت میں ہے اور اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود نہیں اور موت تکلیف کیساتھ ہے۔ یہ الفاظ ورد زبان ہیں۔حضرت عبدالرحمٰن بن ابی بکر رضی اللہ عنھما ایک تازہ مسواک لیے سامنے آتے ہیں۔آپ کی نظر مسواک پر جم جاتی ہے۔ ادھر اماں عائشہؓ سمجھ جاتی ہیں کہ آپﷺ مسواک فرمانا چاہتے ہیں۔ ام المؤمنین نے مسواک اپنے دانتوں میں نرم کرکے پیش کی اور آپﷺ نے بالکل تندرستوں کی طرح مسواک استعمال کی اور ہھاتھ اونچا فرمایا گویا کہ کہیں تشریف لے جا رہے ہیں اور زبان اقدس سے فرمایا۔ بل الرفیق الاعلی۔اب کوئی اور نہیں صرف اسی کی رفاقت منظور ہے۔ بل الرفیق الاعلی ، بل الرفیق الاعلی۔ تیسری آواز پر ہاتھ نیچے کو لٹک آئے ،آنکھ کی پتلی اوپر کو اٹھ گئیاور روح مبارک عالم قدس کو ہمیشہ کیلئے رخصت ہو گئی۔اللھم صل علی محمد و علٰی آل محمد و بارک وسلم۔ عمر مبارک قمری حساب سے63 سال4 دن ہے ۔انا للہ و انا الیہ راجعون۔ اس غم ہائے بیکراں اور حادثہ دلفگار (دل کو چیر دینے والا حادثہ) کی خبر فوراً مدینہ میں پھیل گئی۔ وفات رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اس خبر کو سن کر صحابہ کرام و اہلبیت عظام رضی اللہ عنہم پر کیا گزری؟قارئین کرام، ہم اپنے دل پر ہاتھ رکھ کر ذرا سوچیں اور اسکا تصور تو کریں۔ʼانسانیت موت کے دروازے پر ʼ کتابʼ کے مصنف نے اپنے الفاظ و انداز میں انکی حالت رنج و غم کو لکھا ہے لیکن مجھ میں ہمت نہیں ہو پا رہی کہ میں اس کو پڑھوں اور پھر آپ کیلئے لکھوں، بہرحال خبر وفات النبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد مسلمانوں کے جگر کٹ گئے۔ قدم لڑکھڑا گئے، چہرے بجھ گئے، آنکھیں آنسو بہانے لگیں، ارض و سما سے خوف آنے لگا، سورج تاریک ہو گیا، آنسو بہہ بہہ کر تھمتے نہ تھے، کئی صحابہؓ حیران و سرگرداں ہو کر آبادیوں سے نکل گئے، کوئی جنگل کی طرف بھاگ گیا جو بیٹھا تھا بیٹھا ہی رہ گیا جو کوئی کھڑا تھا اس کو بیٹھ جانے کا یارا نہ ہوا، جی ہاں، مسجد نبوی قیامت سے پہلے ہی قیامت کا نمونہ پیش کر رہی ہے۔ اسی اثناء میں حضور ﷺکے سفر و حضر کے ساتھی حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ تشریف لائے اور چپکے سے حجرہ عائشہ صدیقہؓ میں داخل ہوگئے۔ حضرت صدیق اکبرؓ نے چہرہ اقدس سے کپڑا اٹھا کر پیشانی مبارک پر بوسہ دیا پھر چادر واپس ڈال دی اور روتے ہوئے فرمایا، حضورﷺ پر میرے ماں باپ قربان آپﷺ کی زندگی بھی پاک تھی اور آپﷺ کی موت بھی پاک ہے، واللہ اب آپﷺ پردوموتیں وارد نہیں ہوں گی، اللہ نے جو موت لکھ رکھی تھی۔ آج آپﷺ نے اسکا ذائقہ چکھ لیا ہے اور اب اسکے بعد ابد تک موت آپﷺ کا دامن نہیں چھو سکے گی۔ ادھر مسجد نبوی میں حضرت عمر فاروق رضی الله عنہ غم سے نڈھال غایت بے بسی کی تصویر بنے کھڑے تھے اور بڑے درد و جوش سے یہ اعلان کر رہے تھے، واللہ آپﷺ نے وفات نہیں پائی۔ حضرت موسی علیہ السلام کی طرح اپنے رب کے پاس گئے ہیں، حضرت صدیق اکبرؓ نے یہ کلام سنا تو فرمایا عمرؓ سنبھلو اور خاموش ہو جائو، اس کے بعد حضرت ابو بکر صدیقؓ نے اللہ کی حمد و ثناء کے بعد فرمایا اے لوگو! تم میں سے جو شخص حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو پوجتا تھا وہ سمجھ لے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم وفات پا گئے ہیں اور جو شخص اللہ تعالٰی کی عبادت کرتا ہے وہ جان لے کہ اللہ تعالیٰ زندہ ہے اس پر کبھی موت نہیں آئے گی۔ اسی خطبہ میں قرآن مجید کی آیت پڑھی جس کو سن کر مسلمان چونک پڑے۔ حضرت عمر فاروقؓ فرماتے ہیں کہ حضرت ابوبکرؓ سے یہ آیت سن کر میرے پائوں ٹوٹ گئے اور کھڑے رہنے کی قوت باقی نہیں رہی، میں زمین پر گر پڑا اور مجھ کو یقین ہو گیا کہ واقعی حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم رحلت فرما گئے ہیں۔ ام المؤمنین عائشہ صدیقہؓ کے دل و جان پر غم کی گھٹائیں چھا گئیں اور انکی زبان اخلاق نبویﷺ کی ترجمانی کر رہی تھی۔ بڑے عجیب اشعار ہیں جن کے آخر میں فرماتی ہیں۔ آہ! آج اسی وجود سرمدی سے ہماری دنیا خالی ہوگئی۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی پیاری اور لاڈلی بیٹی سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا غم سے نڈھال تھیں اور فرما رہی تھیں کہ پیارے بابا جان نے دعوت حق کو قبول کیا اور فردوس بریں میں نزول فرمایا آہ! وہ کون ہے جو جبریل امین کو اس حادثہ غم کی اطلاع کر دے۔ الٰہی فاطمہؓ کی روح کو محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی روح کے پاس پہنچا دے۔ الٰہی مجھے دیدار رسولﷺ کی مسرت عطا فرما دے؛ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو غسل دینے کے وقت امیر المئو منین سیدنا حضرت علی المرتضی رضی اللہ عنہ نے آپﷺ کے جسم مبارک کو سینے سے لگا رکھا تھا۔ حضرت عباس رضی اللہ عنہ اور ان کے صاحبزادے جسم مبارک کی کروٹیں بدلتے اور حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنھما اوپر سے پانی ڈالتے تھے۔ حضرت علیؓ غسل دے رہے تھے اور زبان سے کہہ رہے تھے کہ۔"میرے ماں باپ آپﷺ پر قربان۔ آپﷺ کی وفات سے وہ دولت گم ہوئی ہے جو کسی دوسری موت سے گم نہیں ہوئی" آج نبوت،اخبار غیب اور نزول وحی کا سلسلہ کٹ گیا ہے "اگر آپ صبر کا حکم نہ دیتے اور گریہ و زاری سے منع نہ فرماتے تو ہم دل کھول کر آج آنسو بہاتے لیکن اس کے باوجود بھی یہ دکھ لاعلاج ہوتا اور یہ زخم لازوال رہتا۔ ہمارا درد بے درماں ہے، ہماری مصیبت بے دوا ہے۔ اے حضورﷺ میرے والدین آپﷺ پر قربان۔ جب آپﷺ بارگاہ الہی میں پہنچیں تو ھمارا بھی ذکر فرمائیں اور ھم لوگوں کو فراموش نہ فرمائیں (قارئین:حضرت علیؓ کے اشعار کا ترجمہ بغور پڑھیں بڑے بڑے مسئلے حل ہو جائیں گے) اس کے بعد تین سوتی سفید کپڑوں میں آپﷺ کو کفن دیا گیا چونکہ وصیت پاک یہ تھی کہ آپﷺ کی قبر مبارک ایسی جگہ نہ بنائی جائے کہ اہل عقیدت اسے سجدہ گاہ بنا لیں۔ اس لیئے حضرت صدیق اکبرؓ کے فرمانے پر حجرہ امی عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا جہاں پر وفات شریف ھوئی میں ہی حضرت ابو طلحہ رضی الله عنہ نے لحد والی قبر کھودی۔ چونکہ زمین میں نمی تھی اس واسطے وہ بستر جس میں وفات پائی تھی اس کو قبر میں بچھا دیا گیا ۔جب تیاری مکمل ھو گئی۔ تواھل ایمان نے باری باری اندر آکر بغیر امام نماز جنازہ پڑھی۔ ترتیب یہ تھی پہلے قبیلے والوں نے پھر مہاجرین نے پھر انصار نے۔ مردوں نے الگ عورتوں نے الگ اور بچوں نے الگ جنازہ پڑھا۔مسلمانوں کی کثرت کی وجہ سے آپﷺ کی تدفین وفات شریف کے تقریبا 32 گھنٹے بعد بدھ کی رات عمل میں آئی۔ جسم مبارک کو حضرت علیؓ، فضل بن عباسؓ، اسامہ بن زیدؓ اور حضرت عبدالرحمن بن عوف رض نے قبر مبارک میں اتارا۔یوں علم کے چاند دین کے سورج اور اتقاء کے گلزار کو اہل دنیا کی نظروں سے اوجھل کر دیا گیا۔ صلی اللہ علیہ وسلم الف الف مرہ ۔بعدد کل ذرہ۔ کما تحب وترضی عدد ماتحب وترضی ؛قارئین کرام ! ایک طرف محبت و عقیدت رسولﷺ کا سمندر ہے جو ھمارے سینوں میں موجزن ھے۔ دوسری طرف بیماری سے لیکر وفات، غسل، کفن، جنازہ، قبر، دفن کے حالات و واقعات ہیں۔ اب اپنی عقیدت و محبت کو دیکھیں تو دل نہیں مانتا کہ یہ سب کچھ رحمت اللعالمین صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ پیش آیا ہو۔ دوسری طرف صحابہ کرام و اھلبیت عظام رض کی موجودگی میں خود ان کے ہاتھوں یہ سب کچھ ھو جانے کی گواہی جب آجاتی ھے تو پھر ھم کو سیدنا عمر فاروق رض کی طرح اپنے جذبات کو قابو میں لا کر (کل من علیہا فان و یبقی وجہ ربک ذو الجلال والاکرام) کا ضابطہ تسلیم کیئے بغیر کوئی چارہ نظر ھی نہیں آتا۔ھربار ربیع الاول کی آمدپرکچھ لوگ دوسروں سے کہتے ھیں کہ غم کی بات وہ کریں جن کے فوت ہو گئے ھوں ʼایسے لوگ صحابہ کرام و اھلبیت عظامؓ کے بارے میں کیا عقیدہ رکھتے ھیں؟ جنہوں نے نبی کریم علیہ الصلوۃ والتسلیم کو غسل دیا ۔کفن پہنایا۔جنازہ پڑھا ۔قبر بنائی۔اس میں اتارا اور پھر مٹی ڈال کر اس قبر کو بند کیا ۔حضرت ابوبکر صدیقؓ کا خطبہ۔ حضرت عمر ؓ کی کیفیت۔ حضرت علی رض ۔کے اشعار سیدہ عائشہ و سیدہ فاطمہؓ۔ کی حالت اور اشعار یہ سب کچھ کیا بتا رھا ھے؟ایک لمحہ کیلئے اپنے بارے یا اپنے والد محترم جو زندہ ھیں کے بارے میں ۔کفن۔قبر ۔ دفن اور جنازہ کا سوچیں اور پھر بتائیں کہ نعوذ باللہ صحابہ کرام رض نے بغیر وفات پائے زندہ نبی ص کو قبر میں دفن کردیا ؟ خدارا یہ سوچیں کہ حضور ﷺ کیساتھ ہماری عقیدت و محبت کیا صحابہ و اھلبیتؓ سے بھی آگے جا نکلی ہے۔یا ھم صحابہ و اھلبیت رض کو سمجھے ھی نہیں؟ بات دوسری ھے تو ضرورت اس بات کی ھے کہ ھم صحابہ و اھلبیت رض کی پیروی میں رہیں ان سے آگے نکلنے کی کوشش نہ کریں۔صحابہ کرام و اھلبیت عظام رضی اللہ عنہم کی کیفیت اور انکا طرز عمل سب ھمارے سامنے آگیا ھے۔ تو پھر ہمارا ربیع الاول بھی ہر سال صحابہ کرامؓ کے طریقے پر گزرنا چاہئے۔ آخر میں صحابی رسول۔حضرت انس رضی اللہ عنہ کے جذبات بھی پڑھ لیں۔فرماتے ھیں۔ جس دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے ہاں تشریف لائے اس سے بہتر اور تابناک (روشن و چمکدار) دن میں نے نہیں دیکھا اور جس دن آپﷺ نے وفات پائی اس سے قبیح اورتاریک دن بھی میں نے کبھی نہیں دیکھا ۔
تازہ ترین