• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
,

چیف جسٹس نے نرم الفاظ میں حقائق بیان کیے، تجزیہ کار

دیکھئےپروگرام  ’آج شاہزیب خانزادہ کے ساتھ‘  کا ایک کلپ


 کراچی (ٹی وی رپورٹ)جیو کے پروگرام ”آج شاہزیب خانزادہ کے ساتھ“ میں گفتگو کرتے ہوئے سینئر صحافی و تجزیہ کار حامد میر نے کہا ہے کہ عمران خان نے پہلے اپوزیشن، پھر میڈیا اور اب عدلیہ کے ساتھ محاذ آرائی شروع کردی ہے،

چیف جسٹس کھوسہ نے نرم الفاظ میں اس کو رد کرتے ہوئے حقائق بیان کیے سینئر صحافی و تجزیہ کار سہیل وڑائچ نے کہا کہ حکومت نے کارکردگی ٹھیک نہیں کی تو آئندہ مزید تیزی سے نیچے جائے گی،

سینئر صحافی و تجزیہ کار مجیب الرحمٰن شامی نے کہا کہ عمران خان کا ہنی مون پیریڈ ختم ہورہا ہے ،سینئر تجزیہ کار ارشاد بھٹی نے کہا کہ سول ملٹری تعلقات ابھی بھی آئیڈیل ہیں، ملٹری قیادت وزیراعظم عمران خان کے ساتھ کھڑی ہے، حکومت کے خلاف بڑی منظم مہم چلائی جارہی ہے۔

سینئر صحافی و تجزیہ کار حامد میر نے کہا کہ عمران خان اقتدار میں آئے تو ہوائیں ان کے حق میں چل رہی تھیں، عمران خان نے پہلے اپوزیشن، پھر میڈیا اور اب عدلیہ کے ساتھ محاذ آرائی شروع کردی ہے،پی ٹی آئی کے اندر بھی گروپنگ نظر آرہی ہے،

چیف جسٹس نے بدھ کو وزیراعظم کیخلاف کوئی بیان نہیں دیا، عدلیہ کو جو طعنہ مارا گیا چیف جسٹس کھوسہ نے نرم الفاظ میں اس کو رد کرتے ہوئے حقائق بیان کیے ہیں، تحریک انصاف نے عدلیہ کیخلاف کھلم کھلا مہم چلائی ، اس کا جواب دینا چیف جسٹس آف پاکستان کا حق بنتا ہے۔

حامد میر کا کہنا تھا کہ چیئرمین نیب کا بیان چیف جسٹس کے بیان سے بالکل مختلف ہے، چیئرمین نیب نے نامناسب بیان دیا ہے، چیئرمین نیب ہوا کے رخ پر فیصلے کرتے ہوں گے تب ہی اب کہہ رہے ہیں کہ ہوا کا رخ بدل گیا ہے،تحریک انصاف نے اپنے ایک سالہ دورِ اقتدار میں غریبوں کو انصاف دلانے کیلئے کچھ نہیں کیا، عمران خان دعوؤں کے باوجود سانحہ ساہیوال کے مقتولین کو انصاف نہیں دلواسکے،

عمران خان کی حکومت نے سپریم کورٹ کے فیصلے کے باوجود اصغر خان کیس کی تحقیقات میں کوئی پیشرفت نہیں کی، اسی طرح جب بھی پرویز مشرف کا کیس لگایا گیا پی ٹی آئی حکومت نے اسے لٹکانے کی کوشش کی، پرویز مشرف کیس کا فیصلہ محفوظ ہونے کا کریڈٹ عدلیہ کو جاتا ہے،

عمران خان فارن فنڈنگ کیس کے التواء کیلئے تمام درخواستیں واپس لے کر مثال قائم کرسکتے ہیں، عمران خان بھی طاقتور ہیں اور قانون کو اپنی مرضی کے مطابق استعمال کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔سینئر صحافی و تجزیہ کار سہیل وڑائچ نے کہا کہ دھرنے کے ساتھ ہی وزیراعظم نرم ہوتے گئے، عمران خان جائز وقت ملنے کے باوجود ڈیلیور کرنے میں ناکام رہے ،

جب مخالفین کی آواز دبائی جاتی ہے تو انہیں ہمدردی ملنا شروع ہوجاتی ہے، دھرنا ایک مہینہ تاخیر سے ہوتا تو حکومت مزید کمزور ہوجاتی، حکومت نے کارکردگی ٹھیک نہیں کی تو آئندہ مزید تیزی سے نیچے جائے گی، پاکستان میں ڈیلیور کرنے والی حکومتیں بھی چلی جاتی ہیں،

اگر کوئی حکومت ڈیلیور نہیں کررہی ہو تو اس کا برقرار رہنا مشکل ہوجاتا ہے۔ سہیل وڑائچ کا کہنا تھا کہ حکومت نے عوام کو جو خواب دکھائے تھے ایک بھی پورا نہیں کرسکی، احتساب کے علاوہ لوگوں کی کوئی توقع پوری نہیں ہوئی، لیکن یہ احتساب بھی جانبدارانہ احتساب کی حدوں کو چھونے لگا ہے،

ضیاء الحق کی طرح کوئی بھٹو کو مرنے نہیں دے سکتا ہے، بھٹو کی موت کا چالیس سال سے حساب دیا جارہا ہے، نواز شریف بھی جیل میں مرجاتے تو عمران خان کو اس کی سیاسی سزا بھگتنا پڑتی،

پہلے تو وزیراعظم اس سے نہیں گھبرائے لیکن جب حالات کی سنگینی کا احساس ہوا تو نواز شریف کو جانے کی اجازت تو دیدی لیکن اپنی سیاست بچانے کیلئے ضمانتی بانڈز جیسی شرائط رکھیں۔سہیل وڑائچ نے کہا کہ وزیراعظم کو جلسہ میں اس طرح عدلیہ کے بارے میں بات نہیں کرنی چاہئے تھی،

وزیراعظم کو تحفظات تھے تو خط لکھنے سمیت دوسرے آفیشل طریقہ کار اختیار کرسکتے تھے، اسی طرح ججز بھی فیصلوں کے ذریعہ بولتے ہیں، عدلیہ کے حکومت کے ساتھ مختلف چینلز ہوتے ہیں انہیں بھی اس سے بولنا چاہئے، وزیراعظم نے بھرے جلسے میں چیف جسٹس کو مخاطب کیا تو انہوں نے بھی حساب چکتا کیا،

پچھلے چند برسوں میں عدلیہ نے بڑے سیاسی فیصلے تو کیے لیکن جمہوری، سیاسی اور میڈیا کی آزادی کے حوالے سے پروگریسو تشریح نہیں کی، عدلیہ نے بڑے بڑے لوگوں کو جیلوں میں تو ڈالا لیکن سوسائٹی کو بڑھانے کیلئے جن آزادیوں کی ضرورت ہوتی ہے اس طرف توجہ نہیں دی گئی، میڈیا اور اظہار رائے کی آزادی پر ریاست نے جو بھی پابندی لگائی اسے نظرانداز کردیا گیا، تحریک انصاف کی سیاست کو عدالتی فیصلوں سے بہت فائدہ پہنچا۔

تازہ ترین