• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پاکستانی قوم بعض لحاظ سے ایک اچھوتی قوم ہے۔ شام کو سڑکوں پر پانی لگانے سے لے کر دفترمیں کرسی کے پیچھے تولیہ رکھنے تک ان کی بعض عادات ایسی ہیں جو کسی دوسری قوم میں اس شدت کے ساتھ نہیں پائی جاتیں جیسی ہم میں ہیں۔آج اپنی قوم کی ایسی ہی پانچ عادات میں نے چنی ہیں :
1۔خود ساختہ رہنما: ہم پاکستانیوں کو دوسروں کی رہنمائی کرنے کا بہت شوق ہے ،کسی شاہراہ کا پیچیدہ راستہ بتانے سے لے کر کالموں میں سیاسی جماعتوں کی گوشمالی کرنے تک ،ہر کوئی اپنے تئیں ایک چھوٹا موٹا سا ماؤ زے تنگ ہے۔ہمیں راہ چلتے لوگوں کو مشورے دینے کی عادت ہے،چونکہ یہ مشورے مفت ہوتے ہیں لہٰذا ہم خوشی سے قبول کر لیتے ہیں۔مفت شے تو ہمیں ویسے ہی بہت پسند ہے چاہے زہر ہی کیوں نہ ہو۔ہماری یہ عادت کس قدر دلچسپ ہے اس کا اندازہ یوں لگایا جا سکتا ہے کہ ہم پاکستانی خود کو ہر فن مولیٰ سمجھتے ہوئے ہر معاملے میں رہنمائی کا بیڑا اٹھائے پھرتے ہیں چاہے اس سے دوسروں کابیڑہ غرق ہی کیوں نہ ہو جائے ۔یہاں ایک رکشہ ڈرائیور بھی میٹرو بس سروس کے نقشے کے بارے میں یوں دو ٹوک ماہرانہ رائے دیتا ہے کہ ایک سکہ بند سول انجینئر بھی شرما جائے۔ ایک موچی سے لے کر بزنس ٹائیکون تک اورگدھا گاڑی کے ڈرائیور سے لے کر گریڈ بائیس کے افسر تک سب ہی درجہ بدرجہ اپنے زیر سایہ لوگوں کی رہنمائی فرماتے رہتے ہیں۔دیکھا جائے تو اس میں کوئی حرج بھی نہیں بلکہ ایک لحاظ سے یہ کافی مثبت پہلو ہے مگر مصیبت یہ ہے کہ ہماری قوم کے یہ اٹھارہ کروڑ رہنما دوسروں کی رہنمائی کرنے پر تو آمادہ رہتے ہیں مگر اپنی ذات کو ہر قسم کی آلائشوں سے پاک سمجھتے ہیں۔قومی سطح پر تواس خود ساختہ رہنمائی کی شکل مزید مضحکہ خیز ہے ۔ہمارے اپنے ملک میں تو آگ لگی ہے لیکن ہمیں دنیا کی رہنمائی سے ہی فرصت نہیں ۔افغانستان میں کس کی حکومت ہونی چاہئے ،ہم بتائیں گے …فلسطین کا مسئلہ کیسے حل ہو سکتا ہے ،ہم سے پوچھو…ملت اسلامیہ کی وحدت میں کیا رکاوٹ ہے ،ہماری رہنمائی حاصل کرو۔ یہ بالکل ایسے ہی جیسے تین طلاقیں لینے والی عورت اپنی سہیلی کو کامیاب ازدواجی زندگی کے گُر بتائے !
2۔سہل پسندی:اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستانیوں کی ایک بڑی تعداد کو فقط دو وقت کی روٹی کمانے کے لئے اتنی محنت کرنی پڑتی ہے جتنی ایک سرمایہ دار کو کروڑوں روپے کمانے کے لئے پورے مہینے میں نہیں کرنی پڑتی۔مگر ساتھ ہی یہ بھی سچ ہے کہ جس قدر سہل پسندی کی عادت ہم پاکستانیوں کو پڑ چکی ہے اس کا مقابلہ کوئی دوسری قوم نہیں کر سکتی ۔ہماری آرام طلبی کا حال یہ ہے کہ ہم عین دکان کے سامنے گاڑی پارک کرنے کی کوشش کرتے ہیں بلکہ دلی خواہش تو یہ ہوتی ہے کہ گاڑی دکان کے اندرہی گھسا دی جائے تاکہ خریدار ی کے لئے دو قدم بھی نہ چلنا پڑے ۔یہی وجہ ہے کہ ہمارے ہاں پارکنگ پلازوں کا تجربہ زیادہ کامیاب نہیں رہا ۔ہمارا دل کرتا ہے کہ جو نوکری ہمیں ملے اس میں تنخواہ اورمراعات تو پرکشش ہوں مگر کام ٹکے کا نہ ہو ،شائد اسی وجہ سے لوگ سرکاری نوکری کے لئے بیتاب رہتے ہیں ۔مجھے ایک دفعہ ایک نوجوان کا فون آیا، کہنے لگا ’ ’سر میں اس ملک کے لئے کچھ کرنا چاہتا ہوں۔“ میں نے پوچھا ”مثلا کیا؟“ کہنے لگا ”میں چاہتا ہوں کہ میرے پاس اختیار ہو ،طاقت ہو ،سرکاری اتھارٹی ہو تاکہ میں ملک کی خدمت کر سکوں۔“ میں نے پوچھا ”برخوردار ، فی الحال آپ کیا کرتے ہیں ؟“ جواب آیا ”سر میں نے بی اے کا امتحان دیا تھا ،انگریزی میں کمپارٹ آئی ہے لیکن یہ کوئی ایسی بات نہیں ہے سر،آپ بس کوئی ایسا طریقہ بتا دیں کہ میں سیدھا ڈپٹی کمشنر بن جاؤں۔“میں نے اس نوجوان کو ایک وظیفہ پڑھنے کے لئے بتا دیا ،عین ممکن ہے کہ اب تک وہ کمشنر بھی بن چکا ہو۔
جو پاکستانی حقیقتاً ٹیلنٹڈ اور ہنر مند ہیں ،وہ بھی اس عادت کے ہاتھوں مجبور ہیں ۔کرکٹ ٹیم کو دیکھ لیں ،جو کھلاڑی ہم پیدا کرتے ہیں ان میں قدرتی طور پر تو ٹیلنٹ ہوتا ہے اور اسی بنا پر وہ اکثر دنیا کی بہترین ٹیموں کو ہرا بھی دیتے ہیں لیکن چونکہ ہمارے کھلاڑی اتنی انتھک محنت نہیں کرتے،جتنی مخالف ٹیمیں کرتی ہیں اس لئے ہماری کارکردگی مستقل بنیادوں پر بہترین نہیں ہو پاتی ۔انضمام الحق کا ٹیلنٹ دو کلو کڑاہی گوشت میں برابر ہو جاتا ہے جبکہ رکی پونٹنگ چھلاوے کی طرح سنچریوں پر سنچریاں مارتا چلا جاتا ہے ۔
3۔خوش خوراکی :یوں تو لاہورئیے کی خوش خوراکی ضرب المثل ہے مگر سچی بات ہے کہ اس ضمن میں کسی پنجابی کو سندھی پر اور کسی بلوچی کو پٹھان پر کوئی برتری حاصل نہیں، سب ہی اس عادت کے ہاتھوں مجبور ہیں۔بس روٹی ہونی چاہئے، وافر ہونی چاہئے اورمفت ہونی چاہئے ،پھر دیکھئے پاکستانیوں کی خوش خوراکی ۔اس ضمن میں ہم نے صحت کے کچھ زریں اصول بھی وضع کر رکھے ہیں ،مثلاً جب سردیاں آتی ہیں تو یار لوگ دودھ میں گھی گرم کر کے چڑھا لیتے ہیں یااس میں دیسی انڈے پھینٹ کے کھا جاتے ہیں کہ مقوی ہوتا ہے لیکن اس کے بعد ورزش کی زحمت گوارا نہیں کرتے اور اس کی وجہ آپ اوپر سہل پسندی والے پیرا گراف نمبر دو میں پڑھ چکے ہیں ۔کسی فربہ شخص کو دیکھتے ہیں تو کہتے ہیں ماشاء اللہ خوب صحت بنائی ہے ،یہ سوچے سمجھے بغیر کہ موصوف کا باڈی ماس انڈیکس آپے سے اتنا ہی باہر ہے جتنا ہمارے یہاں کا مڈل کلاسیاچار پیسے کما کر اوقات سے باہر ہو جاتا ہے ۔خوش خوراکی میں ایک شہر اگر واقعی ممتاز ہے تو وہ ہے گوجرانوالہ ۔ایک دفعہ ایک شادی ہال کی بکنگ کا مرحلہ در پیش تھا ،میں نے منیجر سے پوچھا کہ آپ فی کس کتنا چارج کریں گے ،اس نے جواب دیا بارہ سو روپے۔میں نے کہا اوکے ،21مارچ کے لئے ہال بک کر لیں ،بارات گوجرانوالہ سے آئے گی ۔منیجر نے یکدم اپنا قلم پرے رکھ دیا اور بولا”سوری جناب،اگر بارات گوجرانوالہ کی ہے تو ریٹ پندرہ سو روپے ہوگا۔“
4۔حس مزاح:دہشت گردی کے اس دور میں بھی اگر اس قوم کی حس مزاح زندہ ہے تو یقین کرلیں کہ یہ عادت بھی ہماری گھٹی میں پڑی ہے ۔تاہم یہ کہنا نا مناسب نہ ہوگا کہ حس مزاح میں پنجابیوں کا جواب نہیں اور ان کے بعد پٹھان بھائیوں کا نمبر آتا ہے ۔پاکستانیوں کی حس مزاح کا ثبوت فراہم کرنے کی چنداں ضرورت نہیں کیونکہ اس کا مشاہدہ آئے دن ہوتا رہتا ہے۔ ہم نے دہشت گردی کے حوالے سے بھی نہایت سفاک قسم کے لطائف اور جگتیں تخلیق کر رکھی ہیں جیسے ایک خود کُش بمبار کو جب مرنے کے بعد” ہو ش“ آیا تو چھوٹتے ہی کہنے لگا ،میں کہاں ہوں، حوریں کہاں ہیں ؟ جواب ملا،”تمہارے اندر بارود کچھ زیادہ ہی بھر گیا تھا ،اس لئے تم جنت سے بھی دو سو کلومیٹر آگے نکل آئے ہو ۔“
5۔پبلک ریلیشننگ:اگر آپ نے پہلی ہی ملاقات میں کسی سے گھٹ کے جپھی ڈال لی ،ابنارمل خوش اخلاقی کا مظاہرہ کیا اور دو گھنٹے تک اس شخص کی گفتگو یوں سنی جیسے وہ کوئی ولی اللہ ہو تو سمجھ لیجئے کہ آج کے بعد آپ اس کے ذاتی دوست ہو گئے (یہ ذاتی دوست نہ جانے یہ کس بلا کا نام ہے )اس ملاقات کے بعد وہ آپ سے اپنے دیرینہ مراسم کا یوں حوالہ دے گا جیسے ہم نوالہ و ہم پیالہ ہو۔اس عمل کومیں پاکستانیوں کی پبلک ریلیشننگ کہتا ہوں اور یہ عادت ہمیں بہت محبوب ہے۔جہاں موقع ملتا ہے ہم اپنے جائز ناجائز تعلقات گنوانے بیٹھ جاتے ہیں تاکہ مد مقابل کو مرعوب کر سکیں۔اس ضمن میں کچھ ایسی گفتگو سننے کو ملتی ہے۔”آپ نے میاں منجم کا نام تو سنا ہوگا ؟“ …”کون، میں نہیں جانتا ۔“…”ارے صاحب ،کما ل ہے ،کالک انڈسٹریز کے مالک!“…”جی میری بد قسمتی ہے کہ کبھی واسطہ نہیں پڑا۔“ …”اچھا ،چلیں کوئی بات نہیں ،میاں صاحب اپنے یار ہیں ،کبھی کوئی کام ہو بتائیے گا۔“
اور خدا نہ کرے کہ آپ کو کالک انڈسٹریز سے کبھی کوئی کام پڑے!
تازہ ترین