• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
بہت کم ہوتا ہے کہ راہ حیات کے مسافروں کو ٹھنڈی چھاؤں تلے آرام میسر آ سکے، وگرنہ زندگی کی شاہراہ حوادث کے آفتاب کی تمازت سے تپتی رہتی ہے۔ ہر دم نئے پرچے کا امتحان انسان کو بروئے کار نہ لائے تو زندگی بے معنی اور شاید بوجھ بن کر رہ جائے۔ اسی لئے نشیب و فراز، غم و شادمانی، روشنی و تاریکی کا سفر یونہی باہم پیوست و مربوط جاری رہتا ہے۔ ہم جیسے لوگ جو گوشہ نشیں اور ایک خول سے باہر نکلنے کے خوگر نہیں ہوتے،گردش لیل و نہار کی پھرتیوں سے نابلد رہتے ہیں اور پھر آشنائے راز کی ذرا سی بے تکلف کج ادائی یا اعتبار کے حصار کے تار تار ہونے کا نحیف سا عمل بھی ایسے پریشان کر دیتا ہے، جیسے میدان حشر سج گیا ہو۔ ہاں ہر تجربے کے بعد سیکھنے کیلئے ایک کتاب تو کیا لائبریریاں تک دستیاب ہو جاتی ہیں۔ جاتے دنوں میں اسی طرح کے ایک تجربے سے دو چار ہوا۔ مزید یہ کہ گزشتہ روز ایک نجی معاملے کے سلسلے میں جب آبائی علاقے کوہاٹ جانا ناگزیر ٹھہرا تو وہاں ہر طرف تیل، گیس و کوئلے کے ذخائر تلے روشن مستقبل کے جھانکتے چہرے کو دیکھتے ہوئے فرط جذبات سے جہاں قلب و نظر جھوم رہے تھے وہاں اصحاب کوہ و مکاں کے طرز عمل میں وہی قبائلیت اور عدم برداشت دیکھ کر بے اختیار زیر نظر شعر نے لبوں کو بوسے دینے شروع کر دیئے۔
فصلِ بہار آئی ہے لے کر رُت نئی، شاخیں بھی نئی
سبزہ و گل کے رُخ پر لیکن رنگِ قدامت آج بھی ہے
سوچا باچا خان کے فلسفہٴ عدم تشدد پر یہاں عمل کرنا کس قدر دشوار بنا دیا گیا ہے۔ کاش توپ و تفنگ سے بے نیاز باچا خان اپنے مشن میں بامراد ہو جاتے تو آج وطن عزیز تو کیا پورا خطہ باد نو بہار تلے کب کا گہوارہٴ امن بن چکا ہوتا۔
یہ احساس بھی شدت سے دامن گیر رہا کہ تحریروں و تقریروں میں عدم تشدد کا پرچار کرنا اور پھر برسرزمین اس پر عمل کرنے میں انا کے کیا کیا پہاڑ حائل ہیں۔ یہ طرہ امتیاز خدائی خدمتگاروں کو حاصل رہا، ہم جیسے کس شمار میں!! البتہ یہ جان کر حوصلے نے مات نہیں کھائی کہ اب بھی اس سمت کسی نہ کسی میدان میں پیشرفت جاری ہے۔ پشاور میں خوش دل، بامروت و ذی علم افراسیاب خٹک نے راقم کو بتایا کہ ایم کیو ایم سے بات چیت جاری ہے۔ ان کا اصرار تھا کہ ”سیاست قبائلیت کا نام نہیں، جہاں دشمنیاں سالہا سال چلتی اور وراثت میں منتقل ہوتی رہتی ہیں۔ ہم تو قبائلی سماج کے منفی رویوں کو مثبت انداز فکر دینے کیلئے سرگرداں ہیں لہٰذا سیاست میں تشدد کی بیخ کنی کیلئے کیونکر کوششیں بروئے کار نہیں لائی جائیں گی“۔
راقم 20 سال بعد پختونخوا پہنچا تھا۔ یوں تو محترم خان عبدالولی خان کی رحلت پر اور شہید معین غم پہ سر کی میت کے ساتھ بھی پختونخوا جانا ہوا لیکن ان مواقع پر پختونخوا دیکھنے کا ارمان دل میں لئے کراچی فوری واپسی ہوئی۔ اب جب طویل عرصے بعد پھولوں کے شہر پشاور گیا تو جیسے دنیا ہی بدل چکی تھی۔ مجھے اپنا آپ ایسے لگ رہا تھا جیسے دیہات کا کوئی باشندہ کراچی آ گیا ہو!! ہر رنگ، ہرمقام انجانا، اگرچہ ذہن میں پرانے نقش و نگار تازہ دم ہو کر ابھرتے رہے لیکن اتنے عرصے بعد آمد البتہ ناآشنائی ضرور برت رہی تھی۔ دو عشرے قبل پشاور میں صبح شام کرنے والے اس ناچیز کو ایک فلائی اوور نے کہاں سے کہاں پہنچا دیا تھا!! اگر کوہاٹ سے اے این پی سندھ کونسل کے رکن سخی سرور آفریدی اور باچا خان یونیورسٹی کے پی آر او سعید خان خلیل حسب پروگرام نہ پہنچتے تو شاید مجھے برسوں پرانا یہ مقبول گیت پشاور کی سڑکوں پر گنگنانا پڑتا۔ ”میں تیرے اجنبی شہر میں‘ ڈھونڈتا پھر رہا ہوں تجھے“۔ حسن اتفاق ہے کہ دنیا میں میرے دل و دماغ پر جو دو شہر نقش بنائے ہوئے ہیں ان میں ایک کابل جسے میں آج تک نہیں دیکھ سکھا یعنی جس پر قدیم قصے کہانیوں کی طرح (جس میں عاشق بن دیکھے کسی کو دل دے بیٹھا ہے) فدا ہوں اور دوسرا پشاور جہاں میں اجنبی بنا موجود تھا۔ ایک پشاور پر کیا موقوف پورا پختونخوا میرے لئے اجنبی تھا۔ وہ پختونخوا جہاں کی مقدس خاک میرے خمیر کا حصہ ہے لیکن جہاں سے مجھے7 سال کی عمر میں میرے والدین غریب پرور کراچی لائے تھے۔ 1993ء تک گاؤں اکثر آنا جانا رہا پھر جیسے فل اسٹاپ لگ گیا لیکن ہر دم گاؤں کی مٹی کی خوشبو محسوس کرتا اور اس کے لئے ترستا رہا اور اسی مٹی کی یہ کشش تھی کہ جب برادرم معین غم پہ سر کی میت کے ساتھ بونیر گیا تو کراچی کے واپسی کا سفر بادل نخواستہ اختیار کرنا پڑا۔ الحمد للہ دوستوں کا حلقہ بہت وسیع ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب ہم پشاور میں صوبائی وزیر واجد علی خان کی رہائش گاہ پہنچے تو جیسے کراچی کا باچا خان چوک مل گیا ہو۔ پختون ایس ایف کے دیرینہ دوست حلقہ بنائے ہوئے تھے۔ مجھے بتایا گیا کہ جب بھی کوئی مشترکہ دوست ملک کے کسی کونے سے آتا ہے تو پشاور میں پڑاؤ واجد علی خان اور بٹ خیلہ میں خورشید علی خان کے گھر ہوتا ہے۔ واجد علی خان سوات سے اے این پی کے وزیر اور کراچی سے فارغ التحصیل ہیں۔ مرنجان مرنج شخصیت کے مالک جو ایک بار ملا پھر انہی کا ہو کر رہ گیا۔ بقول شاعر
محبت کیا ہے، تاثیرِ محبت کس کو کہتے ہیں
ترا مجبور کر دینا، مرا مجبور ہو جانا
پشاور میں ممتاز صحافی محترم رحیم اللہ یوسفزئی سے ایک نشست تادیر یاد رہے گی، جیسا کہ سب جانتے ہیں کہ آپ گنجینہ علم و دانش ہیں جس سے ہر کوئی اپنی جستجو اور ذوق کے مطابق پا لیتا ہے، خدا آپ کو صحت اور درازیٴ عمر سے نوازے (آمین)۔ جب سخی سرور آفریدی کے ہمراہ لاچی کیلئے روانہ ہوا تو بارش کے قطروں کے باعث مٹی سے اٹھنے والی مست سوہندی خوشبو اظہار اپنائیت لئے ہوئے تھی جب کہ سر بہ فلک پہاڑ خوش آمدید کہتے ہوئے ساتھ ساتھ ہو لئے۔ اے این پی کے معروف رہنما میاں شفیع الزمان کاکا خیل شدید بارش کے دوران میاں مسرور شاہ کے ساتھ لاچی میں دیدہ و دل فرش راہ کئے ہوئے تھے۔ لاچی، کوہاٹ اور کرک کے سنگم پر واقع حضرت میر ولی خان، شاہ ولی خان، خانزادہ تاج علی خان ،عبدالرحمن کاکا اور جلیل کاکا آف محسن خیل جیسے خدائی خدمتگاروں کا مسکن ہے، اسی تحصیل میں میرے اور افراسیاب خٹک کے گاؤں آباد ہیں اور یہی علاقے عظیم خوشحال خان خٹک کے معرکوں کے میدان رہے۔ اپنے گاؤں در ملک کی سرسبز و شاداب سرزمین کی جنت نظیر فضا اور خوش رنگ ماحول میں بلبل و مینا کی سریلی آوازوں سے مزین موسیقی اگر کانوں میں رس گھول رہی تھی تو بالکل سامنے غیور بنگش قبیلے کے گاؤں سماری جانے والے راستے پر پہاڑی سلسلہ جو خٹک اور بنگش قبیلے کے ساتھ ساتھ چلتا ہے، کے پہلو میں کوہاٹ تا افغانستان براستہ ہنگو، پارا چنار بنائی جانے والی شاہراہ پر جیسے ترقی کی منازل طے کرتا سفر کر رہا تھا۔ سبحان اللہ، قدرت کی کیا فیاضی ہے لیکن افسوس، نظام زر نے کس طرح سیم و زر سے مالا مال اس دھرتی کے باشندوں کو در در کی خاک چھاننے پر مجبور کر رکھا ہے۔ اگر پاکستان کے اختیار مند ہوس گیری کو قابو میں لے آتے تو پاکستان کے ہر صوبے کے ہر باشندے کیلئے اپنے گھر کے قریب ہی رزق کا انتظام ہو سکتا تھا پھر نہ تو کراچی جیسے گنجان شہر آباد ہوتے اور نہ ہی نسلی و لسانی مسائل ایک ہی کلمہ پڑھنے والوں کو یوں باہم مدمقابل لے آتے۔ مجھے کام کے سلسلے میں اسلام آباد بھی جانا پڑا، جہاں پشتو چینل خیبر کے حنیف الرحمن اور سید سیار علی نے پیر زمین پر لگنے نہیں دیئے۔ حنیف الرحمن صحافیوں کو دھمکیاں ملنے کے بعد کراچی سے اسلام آباد منتقل ہو گئے ہیں۔ جنگ کے صحافی شعیب یوسفزئی سے ہوا کے دوش پر مسلسل رابطہ رہا لیکن وقت کی کمی نے ملاقات کی راہ مسدود کئے رکھی۔ برادر سلیم صافی سے جیو کے دفتر میں ملاقات ضروری تھی کہ میں ان کی ناراضی کا متحمل نہیں ہو سکتا تھا۔ وہ زیادہ بلاغت اور ندرت سے اپنی بات کہتے اور دوسروں کی سنتے ہیں۔ سینیٹر شاہی سید نے اسلام آباد میں بھی ایک کراچی آباد کر رکھا ہے۔ یہاں بھی ان کی رہائش گاہ پر مردان ہاؤس کی طرح سائل و مسائل کے ساتھ ساتھ دوستوں کی پُر رونق محفلیں جمی رہتی ہیں۔ پختونخوا ہاؤس میں روشن دماغ و خوش گفتار محترمہ بشریٰ گوہر سے سر راہ ملاقات میں میرے کالموں کا تذکرہ ہوا۔ پختون قبائلی معاشرے میں ایک خاتون کا سیاست کے میدان کارزار میں آنا اور پھر صف اول میں مقام بنانا، بلاشبہ ان کے مضبوط اعصاب، وسعت نظر اور فکر کی بالیدگی کی عکاسی کرتا ہے۔ چلتے چلتے سینیٹر امر جیت ملہوترا کی کڑک چائے کا تذکرہ ہو جائے جہاں کراچی کے دوستوں بشیر جان، پیر ریاض گل، الطاف ایڈووکیٹ، محبوب خان، سرفراز جدون، ڈاکٹر ضیاء کے علاوہ سینیٹ میں شاہی سید کے معاون مختار صاحب جیسے نفیس افسر سے بھی ملاقات ہوئی۔ میری واپسی بذریعہ بس ہوئی۔ راستے پر جگہ جگہ چیک پوسٹ قائم تھیں اور بالخصوص سندھ کے علاقوں میں تکلیف دہ انداز میں تلاشی لی گئی۔ برقع پہنی خواتین کو بھی خواتین اہلکاروں کے ذریعے ان مراحل سے گزرنا پڑا۔ یہاں تک کہ ایک صاحب کی جیب میں سے سگریٹ کا پیکٹ نکال کر باقاعدہ سونگھا گیا کہ کہیں ”بارود“ (چرس) سے بھری تو نہیں ہے۔ ایسے عالم میں یہ کم فہم طالب علم سوچتا رہا کہ اتنی چیکنگ کے باوجود نہ جانے منوں ٹنوں بارود اور خطرناک اسلحہ کراچی کیسے پہنچ جاتا ہے!
تازہ ترین