• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
محمد شریف بقا ۔۔لندن
چوہدری رحمت علیؒ محض ایک عظیم المرتبت سیاسی مفکر اور سماجی مصلح ہی نہیں تھے بلکہ وہ علم و ادب کے آسمان کے درخشندہ ستارے بھی تھے۔ جب وہ میٹرک کا امتحان پاس کرنے کے بعد مزید تعلیم کیلئے لاہور آئے تو انہوں نے اسلامیہ کالج لاہور میں 1914ء میں داخلہ لے لیا۔ 1857ء کی جنگ آزادی کی ناکامی کے بعد انگریز حکمرانوں نے اسلامیان ہند خصوصاً حریت پسند مسلمانوں کو اپنے ظلم و ستم کا نشانہ بنانا شروع کردیا اور انہیں ہر شعبۂ حیات میں پس ماندہ بنانے کی ہرممکن کوشش کی۔ انگریز حکمران یہ نہیں چاہتے تھے کہ مسلمان دوبارہ بیدار ہوکر اپنی عظمت رفتہ کو بحال کرکے اقتدار کے مالک بن جائیں۔ اسلئے انہوں نے مسلمانوں کے عروج کا راستہ روکنے کی پوری پوری کوشش کی۔ ہندو برصغیر پاک و ہند میں کئی صدیوں تک مسلمانوں کے غلام رہ چکے تھے۔ وہ انگریزوں کی مسلم دشمنی دیکھ کر ان کے ساتھ مل گئے تاکہ وہ اب خود مسلمانوں کو اپنا غلام بنا سکیں۔ دونوں گروہوں کی اس مشترکہ مسلم دشمنی کا نتیجہ یہ نکلا کہ انہوں نے مسلمانوں کی مزید رسوائی اور نکیت کیلئے آپس میں گٹھ جوڑ کرلیا جسے نقاش پاکستان یعنی چوہدری رحمت علیؒ نے برٹش بنیا اتحاد (British-Bania Alliance)کا نام دیا ہے۔ ان حالات میں مسلمانان ہند پر ہر طرف سے افلاس و ادبار کی گھٹائیں چھا گئی تھیں۔ خدا تعالیٰ نے اپنی رحمت خاص سے مسلمانوں کے دور انحطاط میں چند ایسے مسلمان رہنما اور مصلحین پیدا کئے جنہوں نے مسلمانوں کو چاہ ضلالت و جہالت سے نکالنے کا عزم بالجزم کرلیا۔ سرسید احمد خان نے ان کی تعلیمی اور اخلاقی حالت سدھارنے کو اپنا مقصد حیات بنالیا تھا۔ اس طرح مولانا الطاف حسین حالیؒ نے اپنی مشہور نظم ’’ مدوجزراسلام‘‘ لکھ کر مسلمانوں کو ان کے شاندار ماضی کی یاد دلائی اور انہیں اپنی موجودہ زبوں حالی کو دور کرنے پر ابھارا۔ لسان العصر یعنی اکبر الہٰ آبادیؒ نے اپنے طنزیہ اور مزاحیہ اشعار کے ذریعے انہیں خواب غفلت سے بیدار کرنے کی طرف خاص توجہ دی۔ مولانا شبلی نعمانی نے بھی مسلمانوں کے تن مردہ میں حیات نو کے آثار پیدا کرنے کی خاطر شعروادب، فلسفہ، الکام اور مذہب و سیاست کے موضوعات کا سہارا لیا۔ انہوں نے اسلامی تعلیمات سیرت نبویؐ، اسلامی علوم و فنون اور فقہ وغیرہ سے متعلق بلند پایہ تحقیقی کتابیں لکھ کر مسلمانوں کو ان کے اسلاف کے علمی موتیوں سے باخبر کیا۔ ان بزرگوں کے نقش قدم پر چلتے ہوئے علامہ اقبالؒ، مولانا ظفر علی خانؒ اور دیگر اکابرین ملت اسلامیہ نے اپنے ہم مذہبوں کی بیداری اور اصلاح کا فریضہ سرانجام دیا۔ چوہدری رحمت علیؒ کو اسلام اور ملت اسلامیہ کے سچے خادموں سے بے پناہ محبت تھی۔ ان کے والد چوہدری حاجی شاہ محمد بذات خود بڑے
دیندار انسان تھے۔ یہ ان کا فیضان نظر تھا کہ ان کے صاحب زادے میں بھی اسلام سے شفگتی کے پاکیزہ جذبات موجزن ہوگئے۔ یہی وجہ تھی کہ انہیں مصلحین قوم سے بے پناہ عقیدت تھی۔برصغیر پاک و ہند کی تاریخ سے گہری واقفیت رکھنے والے حضرات اس حقیقت سے بخوبی آگاہ ہیں کہ پنجاب کی انجمن حمایت اسلام، لاہور نے مسلمانان ہند خصوصاً پنجاب کے مسلمانوں کی تعلیمی، ثقافتی، دینی اور سیاسی بیداری کے ضمن میں نمایاں ترین خدمات سرانجام دی ہیں۔ اس کے تحت اسلامیہ کالج لاہور چل رہا تھا جس میں مسلمان طلباء کی ذہنی اور اخلاقی تربیت کا معقول انتظام ہوتا تھا۔ اس کالج کے بیشتر قدیم طلباء نے سیاست، علم، ادب، ثقافت اور قومی اصلاح کے میدانوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا تھا۔ انجمن حمایت اسلام لاہور کے سالانہ جلسے میں کئی ممتاز شخصیات شرکت کرکے مسلمانوں کی حوصلہ افزائی کیا کرتی تھیں۔ اس کے اجلاس میں مولانا شبلی نعمانی بھی شریک ہوئے تھے۔ جس زمانے میں چوہدری رحمت علیؒ نے غیرمنقسم انڈیا کی اس مشہور علمی درسگاہ میں داخلہ لیا تھا وہ مسلمانوں کیلئے بڑا ہی نازک تھا۔ اسلامیہ کالج لاہور میں آکر چوہدری رحمت علیؒ کے ذہن کو جلا ملی اور ان کی مخفی صلاحیتیں نکھر گئی تھیں۔ ایک تو ان کی طبعی مناسبت اور دوسرے کالج کے اسلامی ماحول کے اثر نے ان کے دل و دماغ میں مسلمان قائدین کا احترام بٹھا دیا۔ اس علمی فضا میں آکر انہیں ذہنی اور روحانی سرور ملا۔ چنانچہ وہ سب مسلمان مصلحین میں سے مولانا شبلی نعمانی سے بہت زیادہ اثر پذیر ہوئے۔ اس اثر کا نتیجہ یہ رونما ہوا کہ انہوں نے 1915ء میں اپنے چند ہم خیال احباب کے ساتھ مل کر یہاں ’بزم شبلی‘ کی بنیاد ڈالی۔ اس بزم کے زیراہتمام کالج کے طلباء مختلف اسلامی، قومی، علمی اور ادبی موضوعات پر اظہار خیال کرتے تھے۔ چوہدری رحمت علیؒ نے اپنی خداداد ذہانت کی وجہ سے تحریر و تقریر میں خاص مہارت پیدا کرلی اور وہ کالج کے بہترین مقررین اور لکھنے والوں میں شمار ہوتے تھے۔ انہی اوصاف کے مدنظر انہیں کالج کے میگزین ’’کریسنٹ‘‘ کی مجلس ادارت میں شامل کرلیا گیا تھا۔ کہا جاتا ہے کہ ان کی تقریر و تحریر میں بلا کا زور بیان اور جوش خطابات ہوتا تھا۔ ’بزم شبلی‘ کی بنیاد 1915ء میں لاہور کے اسلامیہ کالج میں رکھی گئی تھی اس بزم کی تاسیس کے وقت چوہدری رحمت علیؒ کی عمر اٹھارہ سال تھی۔ اس عمر کے عام نوجوان اور طلباء میں زندگی کے اعلیٰ مقاصد کا پختہ شعور اور ملت سازی کا جذبہ شاذو نادر ہی ہوتا ہے لیکن چوہدری رحمت علیؒ کی ذہنی بلوغت کا اس سے اندازہ لگایئے کہ انہوں نے اس عمر میں اس
محفل میں جو افتتاحی تقریر کی تھی وہ بعد ازاں ملت ساز اور انقلاب خیز ثابت ہوئی۔ انہوں نے اس موقع پر نظریہ پاکستان کا اعلان کیا تھا جیسا کہ وہ خود اپنی ایک ضخیم مایہ ناز کتاب میں لکھتے ہیں:۔ ’’1915ء کا سال تاریخ اسلام کے انتہائی فیصلہ کن اور تقدیر ساز سالوں میں سے ہے۔ یہ 1915ء کا واقعہ ہے جب میں نے ’بزم شبلی‘ کی بنیاد رکھتے ہوئے پہلی بار اپنے سیاسی خیالات کا اظہار کیا تھا، میں نے اس بزم میں اپنا افتتاحی خطبہ پیش کرتے ہوئے یہ الفاظ کہے تھے:۔ ’انڈیا کا شمالی علاقہ مسلمانوں پر مشتمل ہے اسلئے ہم اسے مسلم علاقہ ہی رکھیں گے۔ نہ صرف یہ بلکہ ہم اسے ایک مسلمان ریاست بھی بنائیں گے۔ اس نے میری خیال پرستی کو مکمل طور پر اسلامی سمت عطا کردی۔ یہ ایک ایسی سمت تھی جس نے آخر کار ’پاک پلان‘ کی منزل متعین کردی اور پاکستان اس کا پہلا مرحلہ ہے‘‘ [پاکستان.... پاک قوم کا آبائی وطن، پندرہواں باب213,214]
انڈیا کے شمالی حصے میں ایک مسلم مملکت کے قیام کا یہ پاکیزہ جذبہ بعدازاں ارض پاک کی تشکیل کا عملی مظہر بنا۔ اب بعض معترضین چوہدری رحمت علی مرحوم کے اس ذاتی اعلان کو معتبر تسلیم نہ کرتے ہوئے اس کی تصدیق و تحقیق کے خواہاں ہیں۔ وہ ان کے باقی افکار کو تو مانتے ہیں مگر یہ نہیں چاہتے کہ تصور پاکستان کا یہ اعزاز چوہدری رحمت علیؒ کو دیا جائے۔ چوہدری رحمت علیؒ کے اعلان کی تصدیق کے لئے درج ذیل امور قابل غور اور لائق مطالعہ ہیں۔ پہلا ثبوت اسلامیہ کالج لاہور کے ایک ممتاز قدیم طالب علم، مشہور ادیب اور ہفت روزہ ’افریشیا‘ لاہور کے موجودہ ایڈیٹر محترم بیدار ملک کی کتاب سے پیش کیا جاتا ہے جسے پاکستان سٹڈی سینٹر، پنجاب یونیورسٹی، لاہور نے 1986ء میں شائع کیا تھا۔ اقتباس ملاحظہ ہو ’’چوہدری رحمت علی1915ء میں  اسلامیہ کالج میں داخل ہوئے۔ اس فضا میں ان کے ذاتی جوہر کھلے، کالج میگزین کے ایڈیٹر بنے، لکھنے لکھانے کا سلیقہ سیکھا۔ یونین کے عہدیدار بنے جس نے ان میں جماعتی زندگی کا شعور پیدا کیا، اسی سال انہوں نے ’بزم شبلی‘ کی بنیاد ڈالی اس کے صدر بنے، اس بزم کے تاسیسی اجلاس میں چوہدری صاحب نے دو قومی نظریہ پر ایک خوبصورت مقالہ پڑھا‘‘۔ [بیدارملک ۔ ’یاران مکتب‘ 133]
بیدارملک صاحب نے اپنی کتاب ’یاران مکتب‘ میں اسلامیہ کالج کے طلبائے قدیم کے انٹرویوز جمع کردیئے ہیں تاکہ یہ بتایا جاسکے کہ برصغیر پاک و ہند کی اس مشہور درسگاہ کے اولڈ بوائز نے زندگی کے مختلف شعبہ جات میں داخل ہونے سے قبل وہاں سے کیا سیکھا۔ وہ اسلامیہ کالج کے ایک پرانے طالب علم میاں غلام قادر سے انٹرویو کے دوران ان کے ہم عصر چوہدری رحمت علیؒ کے بارے میں ان سے سوال کرتے ہیں تو وہ جواب دیتے ہوئے کہتے ہیں۔ ’’میں بزم شبلی کے اس جلسے میں شامل تھا جس میں انہوں نے شمالی ہند میں ایک مسلمان مملکت کے قیام کا ذکر کیا تھا‘‘۔ [ایضاً 320] ۔
حکیم آفتاب احمد قرش مرحوم نے علامہ اقبالؒ کے ایک عقیدت مند طبیب شفاء الملک حکیم محمد حسن قرش کے صاحبزادے تھے۔ وہ اسلامیہ
کالج لاہور کے ایک معروف طالب علم اور مسلم سٹوڈنٹس فیڈریشن کے رکن تھے۔ انہوں نے قیام پاکستان کی تحریک میں عملی حصہ لیا تھا۔ انہیں مفکر اسلام علامہ اقبالؒ اور بانی پاکستان محمد علی جناحؒ سے بے پناہ محبت تھی۔ انہوں نے اپنی کتاب ’’کاروان شوق‘‘ میں چوہدری رحمت علیؒ کی شخصیت اور ان کے علمی اور ملی کارناموں کا بڑے اچھے انداز میں ذکر کیا ہے۔ ان کی اس کتاب کو پنجاب یونیورسٹی لاہور کے ادارۂ تحقیقات پاکستان نے شائع کیا اور پروفیسر ڈاکٹر غلام حسین ذوالفقار نے اس کی تسوید و ترتیب کی تھی۔ وہ ’بزم شبلی‘ میں چوہدری رحمت علیؒ کے پیش کردہ نظریہ پاکستان کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:۔ ’’چوہدری رحمت علی اسلامیہ کالج لاہور کے نامور طالب علم تھے ان کے ہم سبق شفاء الملک حکیم محمد حسن قرش، علامہ اقبالؒ کے رفیق چوہدری محمد حسین اور خان ثمین خان مرحوم، سابق وزیرتعلیم صوبہ سرحد تھے۔ چوہدری رحمت علی کالج کی تعلیم کے دوران مولانا شبلی سے بھی بے حد متاثر تھے۔ 1910ء کے بعد جس نئی سیاسی بیداری کا ظہور ہوا، اس میں مولانا شبلی کا بڑا دخل تھا۔ انہوں نے مسلمانوں کی سیاسیات پر بڑے اہم مضامین لکھے۔ نیز انہوں نے سیاسی نظموں کے ذریعے مسلمانوں کو جھنجوڑا۔ چوہدری رحمت علی نے دیگر دوستوں کے ہمراہ لاہور میں بزم شبلی قائم کی تھی جس کے اجلاس میں انہوں نے 1915ء میں تقسیم ملک کا انقلاب آفرین نظریہ پیش کیا۔ یہ گویا مطالعہ پاکستان کی ابتدا تھی‘‘۔ [حکیم آفتاب احمد قرش ۔ ’کاروان شوق 44]۔
ان شواہد و حقائق کی روشنی میں اب تو یہ مسئلہ حل ہوگیا ہے کہ چوہدری رحمت علیؒ نے واقعی 1915ء میں ’بزم شبلی‘ کی بنیاد ڈالی اور اس کے افتتاحی اجلاس میں مطالبۂ پاکستان پیش کیا تھا۔ ارباب نظر کو اب تو کوئی شبہ نہیں ہونا چاہئے۔
اے اہل نظر! ذوق نظر خوب ہے لیکن
جو شے کی حقیقت کو نہ دیکھے وہ نظر کیا ؟
تازہ ترین