• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سوچتا ہوں دنیا کو کیا ہوگیا ہے۔ ایک عجیب سی بے یقینی ہے۔ کچھ واضح نہیں، کچھ کھل کر سامنے نہیں آرہا ہے۔ کہیں ہنگامہ آرائی ہے، کہیں سیاسی رسہ کشی اور کہیں وہی پرانی ریشہ دوانیاں جاری ہیں جن میں کبھی چال بازی ہے تو کبھی وہی جانی پہچانی عیاری۔ اس سارے خرابے میں اگر کوئی پس رہا ہے یا کچلا جا رہا ہے تو اس مخلوق کو آج کی اصطلاح میں عوام کہتے ہیں۔ شام میں کون سی قیامت نہیں ٹوٹی، ایران میں اس وقت بھی خون خرابے کی صورتِ حال ہے۔ فلسطین میں ذرا خاموشی ہوتی ہے تو پھر کہیں سے فساد پھوٹ پڑتا ہے اور سب سے زیادہ ستم بچوں اور عورتوں پر ہوتا ہے لیکن دنیا کا جو خطہ ان دنوں ہیجان میں مبتلا ہے وہ ہانگ کانگ ہے جہاں نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں نے انقلاب برپا کر رکھا ہے۔ جمہوریت کی کھلی فضا میں جینا چاہتے ہیں لیکن چین وہاں اپنا نظام قائم کرنا چاہتا ہے۔

مگر جو فساد ہماری رگِ جاں سے قریب برپا ہے اس پر بقول میر تقی میرؔ ’’دل ڈھہا جائے ہے‘‘۔ کشمیر کے صدیوں سے چین کی زندگی گزارنے والے باشندوں پر وہ قیامت ٹوٹی ہے جس کا قیاس کرنا بھی مشکل ہے۔ لوگوں کو ان کے گھروں میں بند کر دیا گیا ہے۔ نہ انہیں خوراک میسر ہے نہ دوائیں، یہاں تک کہ چھوٹے بچوں کو دودھ بھی خدا جانے نصیب ہوتا ہے یا نہیں۔ ظالموں نے علاقے کا گلا اس بری طرح گھونٹا ہے کہ لوگوں کی آواز دنیا تک نہیں پہنچ رہی ہے اور اگر پہنچ بھی جائے تو زمانہ کشمیر سے اتنا لاتعلق ہوگیا ہے کہ احتجاج تو رہا ایک طرف، کہیں سے اُف کی آواز بھی نہیں آرہی ہے۔

ایک رہ گیا پاکستان جہاں ہونا تو یہ تھا کہ کشمیر کا نعرہ لگاتے ہوئے لوگ گھروں سے نکل آتے اور ایک طوفان سا اٹھاتے، وہاں معاملہ اتنا بے ڈھنگا ہوگیا کہ جس پاکستان سے کشمیریوں نے خدا جانے کتنی امیدیں وابستہ کر رکھی ہوں گی، اس کی طرف سے اب ان کے حوصلے جھاگ کی طرح بیٹھ گئے ہوں گے۔ یہی وقت تھا جب کئی عشروں کی دبی ہوئی چنگاریوں سے شعلے اٹھائے جا سکتے تھے، ایک صاحب کے جی میں آئی کہ انقلاب برپا کرکے حکومت کا تیا پانچا کیا جائے اور اقتدار کی کسی بھی مسند پر براجمان ہوا جائے۔ پاکستان کا سارا میڈیا سب کچھ بھول بھال پر اس غول بیابانی کی سیاست میں الجھ گیا اور ادھر مودی سرکار نے کشمیر کا بٹوارہ کرکے لدّاخ کے علاقے میں اپنا حاکم بھی بھیج دیا۔ اسی کو کہتے ہیں سیاسی شطرنج۔ پاکستانی میڈیا ابھی آزادی مارچ اور دھرنے کی چٹ پٹی خبروں کے مزے لوٹ کر فارغ ہی ہوا تھا کہ حالات نے سیاست کی طشت پر سجا کر ایک اور نیا اور گرما گرم موضوع پیش کر دیا۔ ابھی تو نہیں، کچھ عرصے بعد ہمارے بچے جب بڑے ہوں گے تو یہ سوچ سوچ کر قہقہے لگائیں گے ایک سزا یافتہ صاحب کو ایسی بیماری لگی کہ جس کا ملک میں کوئی علاج نہ تھا اور ملک میں مباحثہ چل رہا تھا کہ انہیں ملک سے باہر جانے کی اجازت دی جائے یا نہیں کیونکہ یہ ایک بار شکنجے سے نکل گئے تو ہم بیٹھے ہاتھ ہی ملا کریں گے۔ ہمارے بچے تو خیر جب ہنسیں گے تب ہنسیں گے، دنیا پہلے ہی ہماری ہنسی اڑا رہی ہے۔ اس میں حیرت کی کوئی بات نہیں، تماشا ہوتا ہی ہے ہنسی اڑانے کے لئے۔

یہ عجیب بات ہے کہ مغربی دنیا کے کتنے ہی علاقوں میں بھی شکلیں بدل بدل کر یہ تماشا جاری ہے۔ پیرس کی سڑکوں پر گھمسان کا رن پڑا اور حکومت کی بقول شخصے چولیں ہل گئیں۔ اسپین میں علیحدگی کی تحریک چل رہی ہے اور اس تحریک کے خلاف بھی تحریک جاری ہے۔ دونوں ہی جانب سے سر پھٹول ہو چکی ہے۔ افریقہ اور جنوبی امریکہ کے ملکوں کا تو حساب رکھنا مشکل ہے۔ آئے دن کہیں نہ کہیں فساد برپا ہوتا رہتا ہے۔ یہ سب کیا ہے۔

میرا خیال ہے کہ وہ موسم والی بات درست ہے کہ موسم کا انسانی مزاج پر گہرا اثر پڑتا ہے۔ ہمارا ذاتی مشاہدہ ہے کہ کبھی ہم مضمحل ہوتے ہیں اور کبھی مضطرب، کبھی سرشار ہوتے ہیں اور کبھی تروتازہ، ان کیفیتوں میں موسم کا بڑا دخل ہوتا ہے جس کا کبھی ہمیں احساس ہوتا ہے اور کبھی نہیں، یعنی ضروری نہیں کہ ہمارے مزاج پر اثر انداز ہوتا موسم اپنے روپ رنگ بدلتا ہوا عملاً نظر بھی آئے۔ کبھی بدلیاں چھائی ہوں یا گرج چمک ہو رہی ہو یا جھکڑ چل رہے ہوں یا فضا بے حد ساکت ہو اور اسی مناسبت سے ہم پر کوئی کیفیت طاری ہے، ضروری نہیں۔ حال ہی میں سائنسدانوں نے بتایا ہے کہ اس میں ہوا کے دباؤ کا بھی ہاتھ ہوتا ہے جو نظر نہیں آتا اور محسوس بھی نہیں ہوتا لیکن خاموشی سے ہماری ذہنی کیفیتوں کو متاثر کرتا رہتا ہے۔ یوں سوچیں تو کہہ سکتے ہیں کہ یہ جو دنیا کا موسم تلپٹ ہو رہا ہے یہی سارے فساد کی جڑ ہے۔ دنیا کے موسم پر وہ افتاد پڑی ہے کہ کسی ٹھکانے پر نہیں رہا۔ عرب ریاستوں کے ریگستانوں میں سیلاب آ رہے ہیں، ہمارے تھرپارکر کے بے آب و گیاہ علاقوں میں بجلیاں کڑک رہی ہیں اور گر کر لوگوں کو مارے ڈالتی ہیں۔ کہیں سمندر کی سطح اونچی ہوئی چلی جاری ہے اور جزیرے غرقاب ہو رہے ہیں۔ کہیں جھیلیں سوکھ گئی ہیں اور کہیں دریا خشک ہوئے جاتے ہیں۔ ہو نہ ہو، یہ حالات ہمارے دل و دماغ پر اثر انداز ہو رہے ہیں۔ ہماری سوچنے اور فیصلے کرنے کی صلاحیتیں موسم کے رنگ میں رنگ رہی ہیں اور اسی کی تابع ہو رہی ہیں ورنہ بارہا عقل یہ سوچ کے دنگ رہ جاتی ہے کہ بیٹھے بٹھائے انسان پر ایسی کون سے بپتا ٹوٹتی ہے کہ وہ اپنا بھی سر پھاڑے ڈالتا ہے اور دوسروں کا بھی۔

سوچیں تو خیال ہوتا ہے کہ شاید کچھ یہی حال ہماری آنکھوں کا بھی ہے۔ سڑکوں پر پاگل کتّے ہمارے بچّوں کو بھنبھوڑ رہے ہیں اور ہماری آنکھیں خشک ہو رہی ہیں۔

تازہ ترین