• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

20اکتوبر 1947ء کو قیام پاکستان کے محض دو ماہ چھ دن بعد اس کے امریکہ کے ساتھ استوار ہونے والے دوطرفہ تعلقات کو اگر مجموعی طور پر ان 72برسوں کے تناظر میں دیکھا جائے تو نائن الیون سے پہلے یہ بڑے مثالی رہے ہیں اور امریکہ نے ہر عالمی مسئلہ پر پاکستان کو اپنے ساتھ کھڑا پایا۔ سوویت یونین کے ساتھ سرد جنگ میں پاکستان کا کردار پوری دنیا سمیت امریکہ کیلئے ناقابلِ فراموش ہے لیکن جونہی نائن الیون کے بعد دہشت گردی نے سر اٹھایا بھارت نے اس کا پورا فائدہ اٹھاتے ہوئے اور نہتے کشمیریوں پر روا رکھے جانے والے مظالم سے دنیا کی نظریں ہٹانے کی غرض سے اس نے جو کھیل کھیلا آج وہ سب کے سامنے ہے۔ امریکہ کی آنکھوں پر ڈالے گئے پردوں کا ہٹ جانا بھی اسی سلسلے کی کڑی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پاک امریکہ قیادت میں اعتماد کی فضا پھر سے بحال ہو رہی ہے جس سے دو طرفہ تعلقات آگے بڑھانے میں کی جانے والی فون کال پر دو طرفہ علاقائی صورت حال، افغانستان خصوصاً تین روز قبل طالبان کے پاس سے دو مغربی یرغمالیوں کی رہائی کے حوالے سے ہونے والی بات چیت کے حوصلہ افزا نتائج اسی دوران سامنے آنا شروع ہو گئے جب امریکی صدر نے وزیراعظم عمران خان کا شکریہ ادا کرتے ہوئے مشترکہ مقاصد کے فروغ کے لئے پھر سے مل کر کام جاری رکھنے کی ضرورت پر زور دیا۔ عمران خان نے موقع سے فائدہ اٹھا کر صدر ٹرمپ کو مقبوضہ کشمیر کی تازہ ترین صورت حال سے آگاہ کیا۔ بلاشبہ یہ وقت کی آواز ہے جس کا امریکہ کو بلاتاخیر نوٹس لیتے ہوئے اقوام متحدہ کو کارروائی کے لئے تیار کرنا چاہئے جبکہ صدر ٹرمپ پہلے ہی امریکہ کی طرف سے اس مسئلہ پر ثالثی کا بارہا اظہار بھی کر چکے ہیں۔ بحیثیت مجموعی پاکستانی قیادت جس طرح مسئلہ کشمیر کے حل کے لئے متحرک ہے، عالمی رائے عامہ ہموار کرنے میں اسے سفارتی کوششیں تیز تر کرنا چاہئیں۔

تازہ ترین