• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ہم روز ملکی سیاست پر بولتے اور لکھتے ہیں تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ جیسے سیاست کے علاوہ ملک میں اور کوئی مسئلہ ہی نہیں، بلاشبہ سیاست تمام شعبہ جات کا جوہر اور نیوکلیس ہے لیکن ’’اور بھی دکھ ہیں زمانے میں محبت کے سوا‘‘ اور دکھوں کی طرف آنے سے پہلے بزبانِ فیضؔ یہ واضح کر دینا مناسب ہوگا ’’چلی ہے رسم کہ کوئی نہ سر اٹھا کے چلے‘‘۔ درویش نے یہاں جمہوری و عسکری ہر دو اقسام کی آمریتیں بھگتی ہیں۔ ایوبی آمریت کا تو تجربہ نہیں، بس سنا اور پڑھا ہے کہ بہت برُی تھی۔ ہمارے یہاں ’’میٹھی چھری‘‘ کی پھبتی کسی جاتی ہے۔ سیانے کہتے ہیں کہ یہ کڑوی چھری سے زیادہ خطرناک اس لیے قرار پاتی ہے کہ کڑوی سے ہر کوئی دور رہتا ہے، اس لیے بچ نکلتا ہے جبکہ میٹھی پر اعتبار کرکے مارا جاتا ہے۔ کس خوبصورتی سے یہ پیغام دیا گیا تھا کہ لکھاری حضرات فی الحال مثبت رپورٹنگ پر اکتفا کریں۔ یعنی کہ ہرا ہرا دکھائیں چاہے ایک ٹہنی ہی ہو اگر پورا درخت سوکھ چکا ہے یا سارا باغ خشک سالی کا شکار ہو گیا ہے تو بھی فکر کی کوئی بات نہیں، دنیا میں آخر ہریالی ختم تو نہیں ہو گئی۔ سمجھداری کا ثبوت دیتے ہوئے جو کہا ہے اس کی معنویت کو سمجھیں اور اچھے بچے بن کر رہیں۔

ٹی وی دیکھیں یا اخبارات، لگتا ہے پاکستان میں میڈیا ان دنوں اتنا آزاد ہے جتنا امریکی صدر ریگن نے سوویت یونین سے تقابل کرتے ہوئے ایک امریکی اور سوویت صحافی کا مکالمہ سنایا تھا۔ جو لوگ اس آزادی سے مستفید ہو رہے ہیں خداوند اُن پر اپنی برکتیں اور رحمتیں نچھاور کرے۔ درویش جیسے کچھ دل جلے بھی ہیں جو سوائے کڑھنے کے اور کر بھی کیا سکتے ہیں۔ احباب پوچھتے ہیں کہ اِن دنوں قومی سیاست پر کیوں نہیں لکھتے، تو لتا جی کا گیت سنانے کے علاوہ کیا جواب دے سکتے ہیں ’’مشکل ہے عرضِ حال، کہنے سے ہو ملال، تو ہم کیا جواب دیں‘‘۔ سرسید اور اقبالؒ جیسے لوگ خوش قسمت تھے، ظاہری غلامی کے کتنے آئیڈیل دور میں پیدا ہوئے اور وہ کچھ لکھ گئے جن کا آج نام نہاد آزادیوں والے تصور بھی نہیں کر سکتے، اگر کوئی سر پھرا آج یہ کہے کہ اُس غلامی پر ہماری آزادی قربان تو بتائیے یہ درویش کس اخلاقی اصول پر اُس سر پھرے کا محاکمہ کرے؟

کئی اندرونی چوٹیں کیسی گہری ہوتی ہیں، ظاہری طور پر جلد صاف شفاف دکھتی ہے لیکن جس تن لاگے وہ تن جانے۔ جب اندھیر نگری میں آپ اپنے ضمیر کے مطابق آواز اٹھا ہی نہ سکو، تہذیب اور شائستگی کا دامن تھامے، تقدس و مروت کے تمام تر تقاضے پورے کرتے ہوئے منطقی استدلال کے ساتھ آپ اپنا مافی الضمیر بیان کرنا چاہیں مگر آپ کو بے بس کر دیا جائے۔ فیض امن میلہ مناتے ہوئے آپ دیواروں پر جھوٹ موٹ لکھے بینر دکھائیں ’’بول کہ لب آزاد ہیں تیرے‘‘۔ کہاں آزاد ہیں؟ یہ اگر آزاد ہیں تو پھر آپ ماسکو کیوں بھاگ گئے؟ یہاں رہتے تو آٹے دال کا بھاؤ معلوم ہوتا، پتا چلتا کہ ٹماٹر 17روپے کلو ہیں یا ڈھائی سو روپے؟ کہنے کو کوئی بھی کہہ سکتا ہے کہ تجھے خواہ مخواہ آرام کی گرانی لڑ رہی ہے، سوسائٹی کی جس قدر شعوری سطح ہے آزادیٔ اظہار میں آپ اس سے آگے تو نہیں جا سکتے۔ اس میں حکومتوں یا طاقتوروں کا کیا قصور؟ وہ اگر جیسی تیسی قدغنیں ہٹا بھی دیں تو کیا آپ کا دقیانوسی سماج آپ کو ایک مخصوص حد سے آگے بڑھنے کی اجازت دے سکتا ہے؟

یہ تمام تر استدلال سر آنکھوں پر، لاریب فطری سماجی بندشوں سے مفر کسی کو نہیں لیکن فطرت کا جو ارتقائی ابدی عمل ہے اس کو تو آگے بڑھنے دو، اس پر تو جہالت و جبر کی من گھڑت طبقاتی مفاد پرستانہ مصنوعی قدغنیں عائد کرنے سے باز آجاؤ، پوری مہذب دنیا میں آزادیٔ اظہار کا جو ایک مسلمہ معیار یا پیمانہ ہے اُسے اپنے ملک میں رائج ہونے سے کیوں روکتے ہو؟ اپنے نام نہاد پاپولر پروپیگنڈے کے ساتھ بالمقابل نقطہ نظر کو بھی آنے دو اور فیصلہ بڑھتے ہوئے عوامی شعور پر چھوڑ دو، انہیں نتائج کشید کرنے دو، آپ کون ہوتے ہیں بالجبر حقائق کو مسخ کرنے یا توڑ مروڑ کر پیش کرنے والے؟ آپ کا دعویٰ ہے کہ آپ حق کے واحد و مستند علمبردار ہیں اور یہ کہتے نہیں تھکتے کہ سانچ کو آنچ نہیں تو پھر ڈر کاہے کا؟ قومی میڈیا میں اپنی پوری قومی و مذہبی تاریخ کا احتسابی جائزہ آنے دو، اپنے دوستوں یا دستورِ حیات کی خیالی و حقیقی کہانیوں کا پوسٹ مارٹم کرنے دو، خرد مندوں سے پوچھنے دو کہ یہ کائنات کب اور کیونکر معرضِ وجود میں آئی ہے اور اس کا انجام کیا ہوگا؟ جنوبی ایشیا کی تقسیم ناگزیر تھی یا غیر ضروری؟ اس پر مباحثہ اگر عوامی سطح پر ہونے لگے گا تو کون سا آسمان ٹوٹ پڑے گا۔ قومی نصاب میں یکطرفہ پروپیگنڈا کرتے ہوئے جو منافرت بھری من گھڑت کہانیاں نونہالوں کے معصوم اذہان میں انڈیلی جاتی ہیں، قومی میڈیا میں اس کا کھلا مہذب تنقیدی جائزہ لینے سے کونسی قیامت ٹوٹتی ہے؟ ریاست آخر جبرو دہشت کی طرف دار کیوں بنتی ہے؟ وہ آزادی اظہار اور حریتِ فکر کی علمبردار و محافظ بن کر کھڑی کیوں نہیں ہو سکتی؟ اقبالؒ نے ایک صدی قبل جو طویل ’’تصویرِ درد‘‘ لکھی وہ شاید تب کے لیے نہیں آج کے لیے تھی۔ اس کے چند ابتدائی اشعار سے واضح ہے درویش کی حالتِ زار:

نہیں منت کشِ تابِ شنیدن داستاں میری

خموشی گفتگو ہے، بے زبانی ہے زباں میری

یہ دستورِ زباں بندی ہے کیسا تیری محفل میں

یہاں تو بات کرنے کو ترستی ہے زباں میری

اٹھائے کچھ ورق لالے نے، کچھ نرگس نے، کچھ گل نے

چمن میں ہر طرف بکھری ہوئی ہے داستاں میری

اڑالی قمریوں نے، طوطیوں نے، عندلیبوں نے

چمن والوں نے مل کر لوٹ لی طرزِ فغاں میری

ٹپک اے شمع! آنسو بن کے پروانے کی آنکھوں سے

سراپا درد ہوں حسرت بھری ہے داستاں میری

مرا رونا نہیں، رونا ہے یہ سارے گلستاں کا

وہ گل ہوں میں، خزاں ہر گل کی ہے گویا خزاں میری

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین