• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

تصویروں، اخباری صفحوں اور ہڈیوں کے ڈھیر کی صورت میں ایسی بے شمار کہانیوں کے کردار دبے ہوئے ہیں، جن کے ساتھ تقدیر نے سانپ سیڑھی کا کھیل کھیلتے ہوئے انہیں بلندی سے نیچے گرا دیا۔ ان میں سے کچھ کرداروںکی آوازیں عدالت میں گونجیں تو کچھ ٹی وی چینلز اور اخبارات کا حصہ بنیں اور کچھ شور مچاتی زمین بوس ہوگئیں۔ ان ہی کہانیوں کا ایک کردار چند سال قبل اس وقت دنیا کی توجہ کا مرکز بنا جب ’’نیشنل جیوگرافک‘‘ کے ایک شمارے میں سبز آنکھوں والی افغان خاتون ’’زمرد‘‘ کی ٹائٹل اسٹوری شائع ہوئی۔ 

سرورق پر زمرد کی تیزاب سے جھلسی تصویر اس کی سسکتی زندگی کی عکاس تھی۔ اندرونی صفحات میں شائع اس کی کہانی کے ابتدایئے میں لکھا تھا ’’22سالہ زمرد کے گلاب چہرے پر شبنم کے قطروں کی پھوار کے بجائے تیزاب کا آبشار انڈیلا تو وہ جھلسے ہوئے گلاب کو سنہری بالوں کی لٹوں میں چھپائے ایک کمرے میں قید ہوگئی۔ اس نے خودساختہ اسیری قبول کرتے ہوئے اپنے آپ کو قید کرلیا۔ وہ خود ہی قیدی اور خود ہی صیاد بن گئی۔ 

سانس لینے اور جینے میں کیا فرق ہوتا ہے؟ اس سوال کا جواب وہ ضرور دیتی، اگر سترہ منزلہ عمارت کی بالکونی سے کود کر جان نہ دی ہوتی۔ اب وہ اپنے سارے احساسات کے ساتھ منوں مٹی تلے دب چکی ہے، لیکن اس کی قبر ایک تنکے کی طرح تاریخ کی آنکھ میں چبھتی رہے گی۔ اس کا جنم ماں کے لئے باعث آزار ہوا تھا، کیوں کہ اسی روز شوہر نے جی بھر کے اس کی پٹائی اس لئے کی تھی کہ اسے بیٹے کی خواہش تھی۔ دوسرے ظالم مردوں کی طرح وہ بھی لڑکوں کو ’’بیریر چیک‘‘ سمجھتا تھا۔‘‘

ابتدایئے کے بعد ’’بی بی زمرد کی زندگی کے چند اوراق‘‘ کے عنوان سے درج تھا، زمرد پہلے باپ، بھائی پھر شوہر کے ظلم و ستم سے تنگ آکر ’’میری زندگی جو میری نہیں‘‘ کے عنوان سے آپ بیتی لکھ رہی تھی لیکن اسے مکمل کرنے سے قبل ہی وہ دنیا سے چلی گئی۔ اس کی موت کے بعد اس کے کمرے سے ادھورا مسودہ ملا، جس پر جگہ جگہ آنسوئوں کے نشا ن تھے، شاید لکھتے ہوئے وہ رو رہی تھی۔ مسودے کے پہلے صفحے پر لکھا تھا ’’میں آخری ہچکی سے پہلے، سانس کی ڈور ٹوٹنے سے قبل اپنی بپتا لکھنا چاہتی ہوں لیکن میرے پاس لکھنے کے لئے کاغذ نہیں ہیں۔ اگر کہیں سے کاغذ ہاتھ لگ جاتے تو قلم لکھنے سے انکاری ہوجاتا ۔ 

احساسات ہتھیلیوں کو توّے کی طرح گرما کر انگارہ بنا دیتے ہیں۔ الفاظ ہاتھوں کی انگلیوں کی پورں سے برساتی نالوں کی طرح امڈ امڈ کر کورے کاغذ کی خشک اور پیاسی دھرتی کو سیراب کرتے چلے جاتے ، ایک کاغذ سے دوسرے کاغذ تک، پھر بھی کم وقت میں کچھ قلم بند کرنے کی کوشش کررہی ہوں۔‘‘

زمرد، کی کہانی کا لب لباب کچھ یوں ہے کہ وہ صرف بیس برس کی تھی، جب اس نے کورے کاغذ پر سرخ روشنائی سے لکھا ’’ ضروری نہیں کہ، ہر بات، ہر مسئلہ اور ہر یاد کو جمع تفریق یا ضرب تقسیم کرکے اس کے اختتام تک پہنچ کر دم لیا جائے۔‘‘ با ت بہت گہری تھی، اس لمحے اسے پتا نہیں تھا کہ یہ سرخ رنگ میں ڈوبے الفاظ نہیں بلکہ تھری ناٹ تھری کی گولیاں تھیں، جو اس کے دل میں اتر گئی تھیں۔ ان پڑھ شوہر کاغذ پر لکھے سرخ الفاظ کو نہ جانے کیا سمجھا کہ بیوی پر لاتوں، گھونسوں کی بارش کردی۔ 

جب مار مار کر تھک گیا تو اس کے گلاب چہرے کو تیزاب سے جھلسا کر گھر سے چلا گیا۔ وہ تکلیف کی شدت سے بھی سکتے کے عالم میں گھنٹوں بے سدھ پڑی رہی۔ آدھی رات کو اٹھ کر تسبیح ہاتھ میں لے کر نماز پڑھنے کھڑی ہوئی تو تسبیح کے دانوں کے گرنے سے پہلے آنسو اس کی آنکھوں سے گرنے لگے۔ اس لمحے اس نے بہت کچھ سوچتے ہوئے خود کو ایک کمرے تک محدود کرلیا، جہاں بارہ ماہ رہنے کے بعد اپنے آپ کو ہر دکھ، ہر اذیت سے آزاد کرکے سانس کی ڈوری کاٹ دی۔

زمرد بی کی داستان جس نے پڑھی، سنی ان کے دل شق ہوگئے ہوں گے، لیکن ایسی داستانیں افغانستان ہی نہیں پاکستان سمیت بنگلہ دیش اور بھارت کی سرزمین پر نئی اور انوکھی نہیں سمجھی جاتیں۔ تیسری دنیا کے بیش تر ممالک میں ایسے واقعات روز مرہ کا حصہ ہیں، البتہ کچھ خبریں پڑھ کر، ٹی وی چینلز پر دیکھ کر یقین نہ کرنے کے باوجود یقین کرنا پڑتا ہے۔ لاکھ ذہن سے محو کرنے کی کوشش کریں وہ دل و دماغ سے چمٹی رہتی ہیں، جیسا کہ بارہ سالہ ’’انیقہ‘‘ کی زندگی کا چراغ اس کے باپ اور بھائی کے ہاتھوں صرف اس بناء پر گل ہوگیا کہ، وہ انہیں ’’گول روٹی‘‘ پکا کر نہ دے سکی تھی۔ 

یہ واقعہ 15؍اکتوبر 2015کو رونما ہوا لیکن ایسا لگتا ہے جیسے آج ہی ہوا ہو۔ اکتوبر کی وہ صبح فراموش کرنا آسان نہیں جب سورج نے پوری طرح آنکھ بھی نہیں کھولی تھی۔ دھرتی کے منہ پر دھند کا دبیز پردہ تھا، ٹھنڈی ہوا میں بھاپ اڑاتے تازہ دودھ کی خوش بو رچ بس رہی تھی۔ وہ انسانی آوازیں بھی بے درد ہورہی تھیں جنہوں نے خاموش رات کی آغوش میں خوب دیکھے تھے، ان ہی آوازوں میں ایک آواز بارہ سالہ انیقہ کی تھی، جس کا بچپن روح کے کسی دریچے میں اٹکی ہوئی سانسوں کی طرح جھول رہا تھا۔ 

وہ ماں باپ کے جیتے جی ممتاز و شفقت سے محروم شہد کی مکھی کی طرح گھر کے آنگن میں اڑتے اڑتے بارہویں سال میں داخل ہوگئی، یہی اس کی زندگی کا آخری سال ثابت ہوا، لیکن وہ طبعی موت دنیا سے رخصت نہیں ہوئی، اس کی سانس کی ڈوری اس کے سگے باپ اور بھائی نے کھینچی اور زمین کے ایک خاموش گوشے میں صرف اس لئے بے گوروکفن دفنا دیا کہ وہ انہیں ’’گول روٹی‘‘ نہ پکا کر دے سکی تھی۔ وہ بچی جس کا بچپن خواب بُن رہا تھا، اسے اس زمین میں دفن کردیا گیا تھا جو ہمیشہ سے دکھ درد سہتی آئی تھی۔ اس دن نہ جانے کتنے گھروں میں روٹیاں جل گئی ہوں گی، کتنی خواتین کی بھوک بھک سے اڑ گئی ہوگی۔

ظلم و تشدد کے کفن میں لپٹی صرف انیقہ اور زمرد کی ادھوری داستانیں نہیں ہیں ، یہ تو اس تلخ حقیقت کی ایک ہلکی سی جھلک ہیں، جو ہم صبح شام ٹی وی اسکرین پر دیکھتے ہیں۔ اخبارات میں پڑھتے ہیں، جن کی بابت جان کر آنکھیں ہی نہیں دل بھی روتے ہیں لیکن اس سے آگے بھی بہت کچھ ہے، جنہیں ہم جانتے بوجھتے نظر انداز کرتے ہیں۔

زندگی ایک حادثہ ہے یا نہیں؟ اس فلسفیانہ بحث سے قطع نظر بہت تلخ حقیقت یہ ہے کہ ایسے حادثے زندگی کا رخ بدل دیتے ہیں، جیسا حادثہ انیقہ اور زمرد کے گھر میں پیش آیا۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ ان کی بنیادکیا ہے؟ مگر سوچے کون؟ زندگی کے شوروغل اور بڑھتی ہوئی مصروفیات نے ہمیں کبھی اس کڑوی سچائی کی تہہ تک پہنچنے کا موقع نہیں دیا، اگر دیا بھی تو شترمرغ کی طرح منہ ریت میں دبا کر اس بھیانک تشدد سے چشم پوشی کرتے رہے، جس کی پاداش میں لاکھوں چہروں کے درمیان ہزاروں بے شناخت چہرے غم و اندوہ کی تصویر بنے اپنے ہی وجود کو انسانوں کی بستی میں چھپائے پھرتے ہیں کہ ظالم مردوں نے انہیں کسی سے نظریں ملانے، سر اٹھانے کے قابل ہی نہیں چھوڑا۔ 

اس حقیقت سے چشم پوشی نہیں کی جاسکتی کہ مسلسل محکوم رکھنے کے لئے صنف نازک کے خلاف تشدد کا ہتھیار استعمال کیا جاتا ہے۔ اگرچہ خواتین پر تشدد کے ہر روز ہی ایک دو نہیں کئی واقعات سننے اور پڑھنے میں آتے ہیں، شاید اسی لئے ہمارے آنکھوں سے حیرت رخصت ہوچکی ہے، لیکن افسوس ناک بات یہ ہے کہ اب خواتین پر تشدد گلیوں اور بازاروں میں بھی ہونے لگا ہے بلکہ تعلیمی اداروں میں بھی شروع ہوگیا ہے۔ یعنی ہزار احتجاج کے باوجود یہ سلسلہ دراز ہوتا چلا جارہا ہے، جن سےنہ صرف پاکستان بلکہ بھارت، بنگلہ دیش کے علاوہ ترقی یافتہ ممالک کی خواتین بھی محفوظ نہیں۔

بین الاقوامی فورم کی ایک رپورٹ کے مطابق گزشتہ دہائی میں مشرق وسطیٰ اور مشرقِ بعید کے بیش تر ممالک میں عورتوں پر تشدد کے واقعات میں کئی گنا اضافہ ہوا ہے۔ رپورٹ کے مطابق پوری دنیا میں سب سے زیادہ کشمیری عورتیں، بھارتی فوجیوں کے ظلم و ستم کا نشانہ بنیں۔ بوسنیائی عورتیں دوسرے اور فلسطینی عورتیں تیسرے نمبر پر تختہ مشق بنیں۔ جنگوں، بغاوتوں اور سیاسی ابتری کے شکار ممالک کے علاوہ پرامن، مہذب اور ترقی یافتہ ممالک میں بھی ریپ کی وارداتوں میں فکرانگیز حد تک اضافہ ہوا ہے۔ امریکا، برطانیہ، فرنس، ڈنمارک، ہالینڈ اور جرمنی میں ایسی وارداتوں کے اعدادوشمار اکٹھے کرنے والے یونٹوں کو چونکا دیا ہے۔ 

رپورٹ میں یہ انکشاف بھی کیا گیا ہے کہ قحط زدہ علاقوں ایتھوپیا اور صومالیہ میں روٹی کے ایک ٹکڑے کی خاطر لڑکیوں کو ہوس کا نشانہ بنایا گیا، ان پر تشدد کیا گیا۔ اقوام متحدہ نے اپنی ایک رپورٹ میں انکشاف کیا کہ افغانستان میں لاکھوں خواتین فرسودہ روایات، بچپن میں شادی، غیرت کے نام پر قتل اور دیگر رسومات کے باعث متاثر ہورہی ہیں اور ان کے بنیادی حقوق پامال ہورہے ہیں۔ 

یو این اسٹیس مشن کی جانب سے مرتب کردہ رپورٹ میں درج ہے کہ افغانستان میں طالبان دور حکومت کے خاتمے کے بعد بھی خواتین کو حقوق ملے نہ ان میں بہتری دیکھنے میں آئی۔ افغانستان میں خواتین کے خلاف تشدد کے خاتمے کے لئے قانون کی منظوری دی گئی، تاہم متعلقہ اداروں کے حکام اس کے نفاذ کے مخالف ہیں۔

بات نئی نہیں، اس کڑوے سچ سے چشم پوشی نہیں کی جاسکتی کہ نا برابری کا رشتہ برقر رکھنے اور مسلسل محروم رکھنے کے لئے عورتوں کے خلاف تشدد کا ہتھیار استعمال کیا جاتا ہے۔ان کے ساتھ غیرانسانی سلوک کی روایت نہایت قدیم ہے۔ مادرسری نظام کہانی دکھائی دیتا ہے حالا ں کہ اقوام متحدہ کی قرارداد 1999میں واضح طورپر کہا گیا ہے کہ اس بات کا احساس اجاگر کرنا ضروری ہے کہ ہمیشہ سے مرد عورت کے درمیان قوت کا عدم تواز ن رہا ہے، جس کی وجہ سے مرد نے عورت کا استعمال کیا ہے، لہٰذا عورت کو اس سماجی استحصال سے بچانے کے لئے ضروری ہے کہ اس کے خلاف ہر قسم کا تشدد ختم کرنے کے لئے جامع منصوبہ بند ی کی جائے۔ نیز انسانی حقوق یونی ورسل چارٹر کا حصہ ہیں، جس کے تحت عورتوں کو ہر طرح کے حقوق کا تحفظ فراہم کیا جائے لیکن تاحال ایسا نہیں ہوا۔

تہذیب کے سفر کے ساتھ صنف نازک پر ظلم و تشدد بھی جاری ہے، آج بھی لمحہ بہ لمحہ سروں پر لٹکتی ہوئی تشدد کی تلوار ان اسباب میں سے ایک ہے جو خواتین کو مردوں کے مساوی حقوق کے حصول میں رکاوٹ ہیں۔ امن اور انسانی حقوق کا آپس میں گہرا تعلق ہے، جہاں حقوق نہیں ملتے، وہاں فساد برپا ہوتا ہے۔ اس وقت پوری دنیا میں خواتین کی ایک ہی بازگشت ہے، عورتوں کو حقوق دو، ان پر تشدد ختم کرو اور مجرموں کو سزا دو۔ اقوام متحدہ اپنی کوششوں میں ناکام ہوگئی ہے۔ آگے کیا کرنا ہے، یہ سوچنا خواتین کی ذمہ داری محسوس ہونے لگی ہے۔ سزا سے بریت ان اہم عوامل میں سے ایک ہے جو تشدد کے فروغ کا باعث ہوتے ہیں۔

حیرت ہے کہ حد سے زیادہ ترقی کرتی ہوئی دنیا میں آج بھی عورت معاشرتی مقام سے محروم ہیں۔ تاریخ گواہ ہے کہ جنگ و جدل کے زمانے میں مفتوح قومیں مال و زر کے ساتھ خوب صورت عورتوں کے نذرانے فاتحین کو پیش کیا کرتی تھیں۔ میدان کارزار میں عورتوں کا بازار سجا کر انہیں غیر مردوں کے حوالے اس لئے کردیا جاتا تھا کہ ان کے مرد جنگ ہارچکے ہوتے تھے۔ اور ان کی گردنیں یا تو قلم ہوچکی تھیں یا ان میں غلامی کا طوق پڑچکا ہوتا تھا۔ اگر مفتوح عورتوں کے مرد جنگ جیت جاتے تو دوسری طرف کی عورتیں ان کے حوالے کردی جاتیں کہ جنگوں میں ہار جیت کا یہ دستور تھا، جیسے خاموش تشدد کہا جاتا ، لیکن دونوں حالتوں میں عورت ایک ناقابل تلافی نقصان کا شکار رہی۔ 

گرچہ لحظہ لحظہ تغیر پذیر دنیا میں خواتین پرتشدد کے انداز بدلتے گئے لیکن روز اول سے آج تک عورت دنیا کے تمام معاشروں میں بے توقیری کے حالات کا سامنا کررہی ہے، مگر آج کی ترقی یافتہ دنیا میں تو اس سے جینے کا حق بھی چھینا جارہا ہے۔ عورت ،جس نے بیٹوں کو جنم دے کر زمین کے وارث پیدا کئے، انہی مردوں نے عورتوں پر تشدد کرتے کرتے آج اس کا سکون غارت کردیا ہے۔

اقوام متحدہ کے امور انسانی حقوق کے ادارے نے اپنی ایک رپورٹ میں انکشاف کیا ہے کہ جن ممالک میں خواتین پر تشدد کے واقعات بڑھ رہے ہیں، ان میں بھارت، بنگلہ دیش، پاکستان، افغانستان، ایران اور جنوبی افریقا شامل ہیں۔ رپورٹ کے مطابق بھارت اور بنگلہ دیش کے انتہائی پس ماندہ علاقوں میں 2007سے 2017کے وسط تک صرف تیزاب سے چھ ہزار نوے جھلسی خواتین کے کیسز منظر عام پر آئےلیکن ان واقعات کی تعداد اس سے کہیں زیادہ ہوگی۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ جنوبی ایشیا میں تشدد کے خاتمے کے لئے موثر اقدامات ہی نہیں کئے گئے۔ رپورٹ کے مطابق تشددد کا شکار بیش تر خواتین کے پاس زیادتی کے ماحول میں رہنے کے علاوہ کوئی اور راستہ نہیں ہوتا۔

گزشتہ چند برسوں میں یہ جاننے کے لئے کہ دنیا میں عورتوں کے ساتھ کیسا سلوک روا رکھا جاتا ہے، عالمی سطح پر دو سو سے زائد سروے کئے گئے، جن میں ترقی پذیر اور ترقی یافتہ دونوں ممالک شامل تھے۔ سروے رپورٹ کے مطابق دنیا بھر میں ہر روز دس میں سے چھ خواتین پر گھریلو تشدد کیا جاتا ہے۔ انہیں مکوں، لاتوں، چھریوں، گھونسوں اور تاروں ہی سے نہیں مارا پیٹا جاتا بلکہ آہنی نوک دار اوزاروں سے بھی ان پر تشدد کیا جاتا ہے۔ رپورٹ کے مطابق دنیا بھر میں جیلوں میں قید خواتین بھی غیر محفوظ ہیں۔ جیل کے محافظ ہی ان پر جسمانی تشدد کے مرتکب ہوتے ہیں۔ 

یہاں خاندان اور کمیونٹی کی حفاظت سے محروم خواتین آسانی سے تشدد کا شکار ہوجاتی ہیں۔ رپورٹ کے مطابق گزشتہ پچاس برس سے امریکا کی جیلوں میں قیدی خواتین انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کا شکار ہیں۔ وہ تشدد اور بنیادی سہولتوں سے محروم ظالمانہ غیر انسانی رویوں کو برداشت کررہی ہیں۔

اکیسویں صدی میں بھی عورت پر تشدد ،ان کی چیخ وپکار اور مظلومیت کی داستانیں عالمی سطح پر سنی تو جارہی ہیں لیکن آخر کب تک ؟کب تک وہ اعلان ناموں سے خوش ہوتی رہیں گی ؟یہ کڑوا سچ ہے کہ پوری دنیا میں تشدد کی شکار خواتین کوانصاف نہیں ملتا ،خواہ تشدد گھروں میں کیا جائے یا جیل خانوں میں یا مسلح تنازعات ہیں ۔احتسابی عمل کے فقدان کی وجہ سے ایک ایسی فضا پیدا ہوچکی ہے ،جس میں بد سلوکی اوت تشدد کا ارتکاب آسان سے آسان تر ہوتا جارہا ہے ۔

 ماضی میں جھانکیں

 زمانہ قدیم سے مردوں کا معاشرہ کمزور عورت کے تعاقب میں رواں دواں ہے۔ ہندو معاشرے میں ستی کی رسم صدیوں تک رائج رہی جب کوئی مرد مرتا تھا تو پنڈت کے حکم سے مکتی حاصل کرنے کے لیے زیورات سے لدی مرحوم کی بیوی اور کنیزیں لاش کے ساتھ جلا دی جاتی تھیں پگھلا ہوا سونا مندر کے حصے میں آتا تھا، جب کہ زندہ جلائی جانے والی مظلوم عورتوں کی ہڈیاں گنگا کی نذر کردی جاتی تھیں۔ زمانہ جاہلیت میں عرب اپنی نوزائیدہ بیٹیوں کو زمین میں صرف اس لیے زندہ دفن کردیتے تھے کہ ان کے ہاں نہ کوئی عورت جوان ہو اور نہ کوئی ان کا داماد بنے۔ 

عراق و شام کی زرعی اراضی جب خشک سالی کا شکار ہوجاتی تھی تو بارش کے لیے کنواری نوجوان عورت کو صحرا میں ذبح کردیا جاتا تھا۔ یورپ کے تاریک عہد میں کوئی وبا پھوٹ پڑتی تو ہر قصبے اور شہر میں وبا کو ٹالنے کے لیے ایک عورت کو زندہ جلا دیا جاتا تھا۔ قدیم زمانے میں یونان اور سلطنت روم کے مابین جب جنگیں ہوا کرتی تھیں تو دونوں متحارب فریق میدان میں اترنے سے پہلے اپنے اپنے دیوتائوں کی قربان گاہوں پر نوجوان لڑکیاں ذبح کرتے تھے تاکہ دیوتا کمزور عورت کے خون سے اپنی پیاس بجھا کر خوش رہیں اور جنگ میں حصہ لینے والوں کو جیتنے کے بعد انعام سے نوازیں۔ 

جنوبی ہند میں رہنے والے ’’گونڈ قبیلے‘‘ کے لوگوں کا یہ اعتقاد تھا کہ جب تک وہ کسی نوجوان عورت کو اذیت دے کر قتل نہ کریں گے ان کی فصل اچھی نہ ہوتی، چناں چہ نوجوان خاتون کو ایک مخصوص ستون سے باندھ کر ’’کند بھالوں‘‘ سے کچوکے دے کر بڑے بے رحم انداز میں قتل کیا جاتا تھا، بے بس خاتون کو مرتے مرتے بھی کئی پہر لگتے تھے۔ 

مصر میں فرعون کے زمانے سے ہی یہ عقیدہ تھا کہ جب تک ہر ماہ ایک خوبصورت دوشیزہ کو دلہن کی طرح سجا کر دریا نیل میں غرق نہیں کیا جائے گا، دریا میں نہ طغیانی آئے گی اور نہ ہی فصلوں کے لیے پانی دستیاب ہوگا، فتح مصر تک ہر ماہ ایک دلہن دریائے نیل کی نذر کی جاتی رہی۔ خدا ہی بہتر جانتا ہے کہ کتنی تعداد میں عورتیں اس قبیح رسم کی بھینٹ چڑھ کر تشدد کا شکار ہوئیں۔

جنگیں اور خانہ جنگیاں صنف نازک کے لیے بدترین حالات پیدا کردیتی ہیں

آج کل جنگیں ملکوں کے بجائے ملکی سرحدوں کے اندر آپس میں لڑی جارہی ہیں، جن کے عورتوں پر اثرات نظر آتے ہیں۔ مسلح تنازعات کے دوران شہری آبادی خاص طور پر عورتوں اور لڑکیوں کو بہت زیادہ تشدد کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ پناہ گزیں کیمپوں میں رہنے والی عورتیں اکثر جنسی تشدد کا شکار ہوجاتی ہیں۔ بعض صورتوں میں خاندان والے بھی ایسی لڑکیوں کو قبول کرنے سے انکار کردیتے ہیں۔ 

اعداد و شمار پر نظر ڈالیں تو بوسنیا ہرز گووینا میں 1993ء تک جنگ کے حوالے سے ہونے والے زنا بالجبر کے واقعات کی تعداد چالیس ہزار تھی۔ 1999ء میں روانڈا کی عورتوں کے ایک سروے کے نتیجے میں معلوم ہوا کہ 1994ء قتل عام کے دوران 39 فی صد عورتوں کا ریپ کیا گیا تھا اور 72 فی صد عورتیں کسی نہ کسی ایسی عورت کو جانتی تھیں جس کے ساتھ ریپ ہوا تھا، کوسوو، لبانیہ، لائبریا، کانگو، سرالیون، غرض یہ کہ جہاں بھی جنگیں یا خانہ جنگی ہوئی، وہاں عورتوں کو جنسی تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ 1996 سے پہلے تک افغانستان کے دارالحکومت کابل میں زنا بالجبر اور جنسی تشدد کے واقعات عام تھے۔ 

انڈونیشیا کی فوج نے تیمور کی عورتوں کے ساتھ ان کے خاندانوں کے سامنے زنا بالجبر کیا۔ برما کے صوبے بے شان میں 1990 کی دہائی میں مقامی باغیوں کو کچلنے کے لیے سیکڑوں عورتوں کا ریپ کیا گیا، یہی روسی فوجیوں نے چیچنیا میں کیا۔ زنا بالجبر، جسم فروشی اور جنسی غلامی سب جنگی جرائم ہیں۔ تشدد، عورتوں کی ترقی کی راہ میں بہت بڑی رکاوٹ ہے۔ اس کے سماجی اور اقتصادی اثرات دنیا کی ترقی اور خوش حالی میں بھی رکاوٹ بنتے ہیں گرچہ عورتوں پر تشدد کے لیے دنیا بھر میں قانون سازی کی گئی، جن میں کام کی جگہوں پر عورتوں کو ہراساں کرنے کے خلاف قانون قابل ذکر ہے، لیکن تاحال خاطرخواہ نتائج برآمد نہیں ہوئے۔

 نئی دہلی بھارت کا ’’ریپ کیپٹل‘‘

انڈیا ٹوڈے کی ایک رپورٹ کے مطابق نرائٹر ٹرسٹ گروپ نے بھارت کو ایسے ممالک کی فہرست میں شامل کیا ہے جو خواتین کے لیے غیرمحفوظ ہوتے جارہے ہیں بھارت میں خواتین کے خلاف گھریلو تشدد، زیادتی اور اجتماعی زیادتی کے واقعات میں تیزی سے اضافہ ہورہا ہے۔ زیادتی کا شکار خواتین کو مجرم سمجھنے کا رویہ بھی ایسے حالات پیدا کرتا ہے کہ اصل مجرموں کو سزا نہیں ملتی، پھر ریپ کے جو مقدمات درج کرائے جاتے ہیں ان میں فیصلہ ہونے کی شرح صرف 26 فی صد ہے۔ 

کچھ عرصہ قبل سترہ سالہ لڑکی کے ساتھ اجتماعی زیادتی کا واقعہ پیش آیا جس نے خودکشی کرلی لیکن جنوری 2013ء میں ایک نوجوان لڑکی ’’دامنی‘‘ کے ساتھ اجتماعی زیادتی کے بعد اس پر اتنا بھیانک تشدد کیا کہ وہ بے ہوش ہوگئی۔ جس کے بعد اسے سڑک پر پھینک دیا گیا دامنی چند دن اسپتال میں زیر علاج رہنے کے بعد انتقال کر گئی، ملزموں کو گرفتار کرلیا گیا،جس کے بعد نئی دہلی میں کئی ماہ مظاہرے ہوئے، خواتین کا مطالبہ تھا کہ ملزمان کو سرعام پھانسی دی جائے، لیکن اس واقعہ کی بازگشت ختم نہیں ہوئی تھی کہ نئی دہلی ہی میں پے درپے اجتماعی زیادتی کے مزید چھ واقعات ہوگئے۔ طویل عرصے سے نئی دہلی کو بھارت کا ریپ کیپٹل کہا جارہا ہے۔

انورادھا گپتا جو مشن ڈائریکٹر برائے نیشنل رورل ہیلتھ مشن ہیں، انہوں نے اپنی ایک رپورٹ میں لکھا ہے کہ دہلی دنیا میں سب سے زیادہ میٹروپولیٹن پولیس رکھنے والا شہر ہے، جس کی تعداد 84000 پولیس اہل کاروں پر مشتمل ہے لیکن یہ زیادہ تر بڑے لوگوں کی حفاظت میں مصروف رہتے ہیں اس لیے عورتوں کو تحفظ نہیں مل رہا۔ رپورٹ کے مطابق اب تو بھارتی حکام بھی یہ کہہ رہے ہیں کہ عوامی مقامات پر بھی خواتین محفوظ نہیں۔

تشدد کے خاتمے کے اعلان نامے پربھی عمل در آمد نہیں ہورہا

عورتوں کے خلاف تشدد کے خاتمےکا اعلان نامہ ،جسے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے 1993ء میں منظور کیا تھا۔ اس امر کی توثیق کرتا ہے کہ،’ ’ریاستوںکو پوری تن دہی کے ساتھ تشدد کے واقعات کو روکنا چاہیے ۔

ان کی تفتیش کرنی چاہیے اور ان جرائم کے مرتکب افراد کواپنے ملک کے قوانین کے مطابق سزا دلوانی چاہیے ،خواہ تشدد ریاست کی جانب سے ہو یا اس کا ارتکاب عام افراد نے کیا ہو۔لیکن بیش تر حکومتیں ایسے اقدامات کرنے میں تاحال نا کام ہیں ،جن سے خواتین پر تشدد کا خاتمہ ہوسکے ۔

سپر پاور کا منفی رویہ

ایمنسٹی انٹرنیشنل کی ایک رپورٹ کے مطابق امریکا میں قیدی خواتین کو مرد اسٹاف اور گارڈز جنسی و جسمانی تشدد کا نشانہ بناتے ہیں لیکن وہ شکایات کرنے سے اس لیے کتراتی ہیں کہ انہیں یہ یقین ہوتا ہے کہ تفتیشی افسران کی باتوں کا یقین نہیں کریں گے اور اگر کر بھی لیں گے تو بعد میں انہیں اس کا بھاری خمیازہ بھگتنا پڑے گا۔ 

رپورٹ کے مطابق ایمنسٹی انٹرنیشنل کو سزائے موت کی منتظر ایک قیدی خاتون نے بتایا کہ ’’جب میں اپنے نومولود بچے کو اٹھاتی ہوں تو ہتھکڑیوں میں جکڑی ہوئی ہوتی ہوں اور جب بچے کو دیکھنے کے لیے نرسری جاتی ہوں تب بھی میر ے پیروں میں بیڑیاں اور ہاتھوں میں ہتھکڑیاں ہوتی ہیں۔‘‘ ایک اور قیدی کارلا، دہرے قتل میں چودہ سال جیل میں رہی اس دوران اس پر بھی تشدد ہوتا رہا، بعد ازاں اسے زہر کا انکشن لگا کر ہلاک کردیا گیا۔ 

اس واقعہ کے بعد جب امریکا کی ایک عدالت میں یہ سوال اٹھایا گیا کہ کیا خواتین پرتشدد کرنے انہیں عمر قید اور سزائے موت دینے سے مسائل حل ہوسکتے ہیں تو بیشتر ججوں کا جواب تھا کہ ’’ایسی سزائیں امریکی خواتین کو سکھاتی ہیں کہ قوانین بہت طاقت ور ہوتے ہیں اور جج اپنے فرائض انجام دے رہے ہیں۔‘‘ 

قابل غور بات یہ ہے کہ ججوں نے عوام کا لفظ استعمال نہیں کیا تھا، صرف امریکی خواتین کہا تھا۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا مردوں کے لیے قوانین طاقت ور نہیں ہیں، جب مرد خواتین پر تشدد کرتے ہیں تو ججوں کو اپنا فرض یاد نہیں آتا۔ یہ ہے سپرپاور کا منفی رویہ۔

وہ وقت جلد آئے گا جب کوئی درندہ وحشی اس سر زمین پر سر نہیں اٹھا سکے گا

 ٹیری گرین نے 2005 ء میں اقوام متحدہ کی امن کوششوں پر تنقید کرتے ہوئے کہا تھا کہ،’’ اس وقت پوری دنیا میں ایک ہی بازگشت ہے کہ ’’عورتوں کو حقوق دو ،ان پر تشد د ختم کرو اور مجرموں کو سزا دو ۔اقوام متحدہ اپنی کوششوں میں ناکام ہوگئی ہے آگے کیا کر نا ہے ،یہ سوچنا ہماری ذمے داری محسوس ہونے لگی ہے۔‘‘ 

سروں پر لٹکتی تشدد کی تلوار
ٹیری گرین ،نسائی امن تنظیم بیت شالم کی نما ئندہ خاتون

لیکن اسی سال جب خواتین پر تیزاب سے حملوں کی خبریں اور ان کے نامکمل چہرے منظر عام پر آئے تو ٹیری گرین نے ایک کانفرنس میں اپنے خطاب میں کہا ۔’’میں ایک عورت ہونے کی حیثیت سے یہ بات اچھی طر ح جانتی ہوں کہ ہم سب (عورتیں ) وحشت وبربریت سے نفرت کرتی ہیں ۔تشدد ،ناانصافی اور صنفی تفریق کی علامتوں کو جڑ سے ختم کردینا چاہتی ہیں ۔ایک طویل عر صے سے عورت کو صرف مظلوم اور متاثرہ فرد کے طور پر دیکھا جارہا ہے ،یہی وجہ ہے کہ ظالم مرد ہر روز تشدد کی نئی اور آسان راہ پر چل پڑتے ہیں ۔

اب ان کے لیے تیزاب مؤثر ہتھیار ہے ،جس کا نتیجہ بھی سیکنڈوں میں نظر آجاتا ہے ۔اس لیے اب ہمیں اپنے اردگرد کی دنیا کو خود بدلنا ہوگا۔ اپنے پر ہونے والے تشدد پر آواز بلند کرنی ہوگی اب وقت آگیا ہے کہ عورتوں پر تشدد کرنے والوں کو عبرت ناک سزائیں دی جائیں ۔جلد ہی وہ وقت آئے گا جب خواتین پر تشددکرنے والے مرد اپنے انجام کو پہنچ جائیں گے تو پھر کوئی درندہ وحشی اس سر زمین پر سر نہیں اٹھا سکے گا، مگر اس کے لیے عورتوں کو اپنی بھر پور طاقت کا مظاہرہ کرنا ہوگا ‘‘۔

 امتیازی سلوک کے خلاف جنگ

ایمنسٹی انٹر نیشنل کی ایک رپورٹ میں درج ہے کہ ،امتیازی سلوک سے تشدد یا بدسلوکی کی فضا پیدا ہوتی یا ہم وار ہوتی ہے۔ تمام ممالک کو ایسے بین الاقوامی اور علاقائی معاہدوں کی توثیق کرناچاہیے جو تشدد یا بدسلوکی کے خلاف تحفظ کو استحکام دیتے ہیں۔ ان معاہدوں میں un convention on the elimination of all forms of discrimination aganist women اور اس کا آپشنل پرٹوکول ،جس کے تحت انفرادی شکایات کی جاسکتی ہے ،شامل ہیں ۔

رپورٹ کے مطابق امتیازی سلوک کے خلاف جنگ کاآغاز تو ہوگیا ہے۔1995 ء میں بیجنگ میں اقوام متحدہ کی عالمی کانفرنس میں خواتین کے خلاف تشدد کے خاتمے کے لیے کیے گئے حکومتوں کے وعدے اور 2000ء میں بیجنگ کانفرنس میں کی گئی تجدید عہد کو فوری طور پر نافذ کیا جانا چاہیے ،تا کہ جنگ کے بادل چھٹ جائیں۔ لیکن تاحال کچھ نہ ہوا۔

تازہ ترین