• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے آئندہ دو ماہ کے لیے مالیاتی پالیسی کا جو اعلان کیا ہے اس کی رو سے شرح سود 13.25فیصد پر برقرار رہے گی جبکہ مہنگائی کی موجودہ لہر میں کمی کے امکانات معدوم ہیں۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ معیشت سست روی کا شکار ہے البتہ کرنٹ اکائونٹ خسارے میں 73.5فیصد کمی آئی ہے، درآمدات و برآمدات میں استحکام رہا۔ انجینئرنگ اور کھاد کے شعبے نمو پا رہے ہیں جبکہ آٹو انڈسٹری، غذائی صنعت اور تعمیرات سے منسلک شعبے زوال کا شکار ہیں۔ روپے کی قدر میں 5.6فیصد اضافہ، بیرونی سرمایہ کاری سے سرمایہ اور مالی کھاتے میں بہتری آئی ہے جبکہ زرمبادلہ کے مجموعی ذخائر میں 1.6ارب ڈالر کا اضافہ ہوا ہے۔ مجموعی طور پر اگر اس رپورٹ سے ’’مہنگائی‘‘ کا عنصر نکال دیا جائے تو صورتحال یقیناً بہتر ہوئی ہے لیکن اس لہر کا جاری رہنا اچھی علامت نہیں کیونکہ یہ صورتحال مزید مسائل کو جنم دے سکتی ہے جن میں سرِفہرست سماجی اقدار ہیں جو معاشرے کو کسی بھی طرف لے جا سکتی ہیں۔ گرانی سے غریب، تنخواہ دار اور روزانہ اجرت پر کام کرنے والا طبقہ پہلے ہی بُری طرح پِس رہا ہے اور اسے سکھ کا سانس لینے کی مہلت ہی نہیں مل رہی۔ اگر فی کس آمدنی کا فرق اسی طرح بڑھتا رہا تو غربت میں مزید اضافہ ہوگا۔ تعلیم، صحت اور خوراک جیسی بنیادی ضروریات تک عام طبقے کی رسائی مزید مشکل ہو جائے گی۔ اسٹیٹ بینک مہنگائی کی صورتحال پر نظر رکھے ہوئے ہے جس کے باعث زری پالیسی میں چار سال بعد بعض تبدیلیاں بھی کی گئی ہیں۔ اس صورتحال کے تناظر میں کاروباری ادارے مستقبل قریب میں اچھے نتائج کی توقع بھی کر رہے ہیں۔ متذکرہ رپورٹ محض اطلاع نہیں اس پر تمام پالیسی ساز اداروں، پیداواری اور تجارتی وزارتوں اور مالیاتی اداروں کو نہایت باریک بینی سے غور کرنا چاہئے جس کی روشنی میں مہنگائی کا حل نکالا جا سکے۔

تازہ ترین