• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

یہ بات خوش آئند ہے کہ پاکستان تحریک انصاف کی حکومت نے اپنی اتحادی جماعتوں کے تحفظات دور کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس حوالے سے حکومت کے ذمہ داروں نے اتحادی جماعتوں کے رہنماؤں سے بات چیت شروع کر دی ہے۔ حکومت کو چاہئے کہ وہ اپوزیشن کی سیاسی جماعتوں کے ساتھ تصادم کی اپنی پالیسی پر نظر ثانی کرے کیونکہ پاکستان کے موجودہ حالات سیاسی عدم استحکام اور سیاسی تصادم کے متحمل نہیں ہو سکتے۔

تحریک انصاف کی موجودہ حکومت کے خلاف مولانا فضل الرحمٰن کے آزادی مارچ کا پلان سی شروع ہو چکا ہے۔ پلان اے کے تحت لانگ مارچ اور اسلام آباد میں دھرنے میں مولانا فضل الرحمٰن نے اپنی سیاسی طاقت کا مظاہرہ کر دیا ہے۔ پلان بی کے تحت سڑکیں بلاک کرنے کا سیاسی طریقہ بھی انتہائی کارگر رہا۔ اب پلان سی میں جمعیت علمائے اسلام (ف) کے ساتھ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) سمیت متحدہ اپوزیشن کی دیگر جماعتیں پہلے سے زیادہ شرکت کا عندیہ دے رہی ہیں۔ پلان اے اور بی میں اختیار کی گئی حکمت عملی سے متحدہ اپوزیشن کی متعدد جماعتوں کو قدرے اختلاف تھا لیکن پلان سی سے وہ زیادہ متفق نظر آتی ہیں۔ جس کے تحت پورے ملک میں احتجاجی مظاہرے کیے جائیں گے۔ یہ کہا جا سکتا ہے کہ حکومت کے خلاف اپوزیشن کی احتجاجی تحریک نہ صرف شروع ہو چکی ہے بلکہ یہ تحریک جاری رہنے کے حالات بھی پیدا ہو چکے ہیں۔ یہ تحریک کیا رخ اختیار کرتی ہے، اس کا انحصار حکومت کی سیاسی پالیسیوں پر ہے اور کوئی غیر متوقع صورت حال بھی پیدا ہو چکی ہے۔

جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ مولانا فضل الرحمٰن کا آزادی مارچ بے نتیجہ ختم ہو رہا ہے، وہ شعوری یا لاشعوری طور پر حالات سے آنکھیں بند کر رہے ہیں۔ مولانا فضل الرحمٰن نے کوئی سیاسی مہم جوئی نہیں کی۔ انہوں نے بہت سوچ سمجھ کر اتنی بڑی سیاسی طاقت کا مظاہرہ کیا، جو انہوں نے اپنی سیاسی زندگی میں پہلے کبھی نہیں کیا۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ ان کے آزادی مارچ کی کسی نے مخالفت نہیں کی۔ یہاں تک کہ حکومت کے اتحادیوں نے بھی تحریک انصاف کے بیانیہ سے اتفاق نہیں کیا۔ مہنگائی اور بیروزگاری کی وجہ سے عوام کی بڑی اکثریت نے کسی نہ کسی حد تک جمعیت علمائے اسلام (ف) اور اتحادی جماعتوں کی احتجاجی تحریک کی حمایت کی۔ اگرچہ عوام کے کچھ حلقوں کی اس احتجاجی تحریک میں بھرپور شرکت نہیں تھی لیکن اس تحریک کی کہیں موثر مخالفت بھی نہیں ہے۔ اس تحریک کے اثرات کچھ عرصے میں سامنے آئیں گے کیونکہ عوامی سطح پر بہت زیادہ سیاسی بے چینی ہے۔

اس صورت حال میں تحریک انصاف کی حکومت کو قومی اسمبلی میں اپنی عددی طاقت اور منتخب ایوانوں سے باہر اپنی سیاسی مقبولیت کو مدنظر رکھنا چاہئے۔ جمہوری اور سیاسی نظام میں یہ دونوں عوامل بہت اہم ہوتے ہیں۔ انہیں نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ تحریک انصاف کو ایوان میں قطعی اکثریت حاصل نہیں ہے۔ اس کی حکومت اتحادی جماعتوں کے ووٹوں پر قائم ہے۔ یہ بات بھی محسوس کی گئی کہ اپوزیشن کی احتجاجی تحریک کے بعد تحریک انصاف کی اتحادی جماعتوں نے اپنے تحفظات کا برملا اظہار شروع کر دیا۔ مسلم لیگ (ق)، گرینڈ ڈیمو کریٹک الائنس (جی ڈی اے)، ایم کیو ایم پاکستان، بی این پی (مینگل) اور دیگر اتحادی جماعتوں نے کسی نہ کسی طرح اپنے تحفظات کا اظہار کیا۔ یہی وجہ ہے کہ تحریک انصاف نے اتحادیوں کے تحفظات دور کرنے کے لئے کمیٹی قائم کرنے اور ان سے مذاکرات کرنے کا فیصلہ کیا۔ اتحادی جماعتوں کے ساتھ مذاکرات میں حکومت کو پتا چل جائے گا کہ حالات کس طرف جا رہے ہیں اور سیاست کس طرح کام کرتی ہے۔ اتحادیوں کو راضی کرنا نہ صرف حکومت کے لئے ضروری ہے بلکہ حکومت کو سیاسی دباؤ سے نکلنے کے لیے بھی یہ لازم ہے۔

اگر تحریک انصاف کی حکومت اتحادیوں کے تحفظات دور کرنے میں کامیاب بھی ہو جاتی ہے تو بھی اپوزیشن کے ساتھ سیاسی تصادم کی پالیسی اس کے لئے فائدہ مند نہیں ہو گی۔ حالات وہ نہیں ہیں، جو عام انتخابات کے بعد تھے۔ پاکستان کی سیاست بہت پیچیدہ ہے۔ جو سیاست دان یہ سمجھتے رہے کہ حالات ہمیشہ ان کے حق میں رہیں گے کیونکہ طاقتور حلقے ان کے ساتھ ہیں، وہی سیاست دان آج کل انتہائی مشکل حالات سے دوچار ہیں۔ اتحادیوں کے ساتھ مفاہمت کے ساتھ ساتھ اپوزیشن کے ساتھ تصادم کی پالیسی سے گریز کرنا ہوگا۔ معاشی بحران اور عوام میں سیاسی بے چینی کے ساتھ علاقائی اور بین الاقوامی حالات کو بھی مدنظر رکھنا ہوگا۔

تازہ ترین