• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کارِ گورننس دراز ہے کچھ اور انتظار کر

بسا اوقات مسائل خودبخود حل ہو جاتے ہیں بس کچھ اور دیر انتظار کی ضرورت ہوتی ہے، شاید سب خالی جام بھر جائیں یا خالی پڑے پڑے جامِ سفال کی طرح ٹوٹ جائیں۔ اگر بےصبری دکھائیں گے تو عدم اہلیت والوں کو دلیل مل جائے گی کہ انہیں کچھ کرنے ہی نہیں دیا گیا۔ یوں تو ہم سب اچھے ہیں، باصلاحیت ہیں، بس نادانی سے اپنی اچھائی کو برائی میں بدل دیتے ہیں، ہمیں یہ بھی نہیں بھولنا چاہئے کہ دنیا میں موجود قوتوں میں ہمارے حق میں اتنی قوتیں نہیں جتنی خلاف ہیں، کیا سی پیک منصوبہ ہماری ضرورت نہیں کہ اب اس کی بھی مخالفت ہونے لگی ہے، کوئی ہمیں چین سے یا چین کو ہم سے جدا کرنے کے درپے ہے، ہمیں آپس کے اختلافات میں اپنے قومی مفادات کو یاد رکھنا چاہئے، زخمِ دل ہو یا زخمِ جگر، چھپا لیں، آخر کسی نے بلا وجہ تو یہ نہیں کہا ؎

نظر لگے نہ کہیں اس کے دست و بازو کو

یہ لوگ کیوں مرے زخمِ جگر کو دیکھتے ہیں

ہم قلزم سے گہری، ہمالیہ سے اونچی دوستی کو دیکھیں یا ٹشو پیپر تعلق کو؟ بہرحال حکومت بُرا نہ منائے تو دو حرف نصیحت کے کہہ دیں کہ؎

اتنا نہ اپنے جامے سے باہر نکل کے چل

دنیا ہے چل چلائو کا رستہ سنبھل کے چل

یہ جو ہر روز مہنگائی کے بام پر جانے کی نوید سنائی جاتی ہے یہ حکمرانوں کے لئے گھر جانے کا راستہ ہموار کر رہی ہے، ذرا سی دیر سے ان کیلئے نوشتۂ دیوار مزید نمایاں ہو سکتا ہے۔ یوں لگتا ہے دانشی حکمرانی کی جگہ کامرانیوں نے لے لی ہے، اب خاموشی اور کام دکھانے کی ضرورت ہے۔ عام آدمی جو اقتدار کے سنگھاسن پر بٹھاتا ہے، اس کی گزر بسر میں فوری بہتری نہ لائی گئی تو پیچیدہ معاشی اصطلاحات بےمعنی ہو کر رہ جائیں گی۔ اقبال کا ایک مصرع رہ رہ کے سامنے آتا ہے

سامنے تقدیر کے رسوائی ٔ تدبیر دیکھ

٭ ٭ ٭ ٭ ٭

اپوزیشن کو اپوزیشن سمجھیں اور استفادہ کریں

احسن اقبال کہتے ہیں یہ وزیراعظم ہیں یا غافلِ اعظم۔ بعض اوقات انتہائی مخالف بھی اپنی مخالفت میں موافقت کی بات کر جاتا ہے۔ بات ہے غفلت کی، لوگ یونہی نہیں کہتے کہ وہ ن لیگ کے ارسطو ہیں، مگر خان صاحب ان کی ارسطالیسی سے استفادہ ہی نہیں کرتے، مخالف آواز درحقیقت موافق ہوا کی مانند ہوتی ہے، اسے استعمال میں لانا چاہئے۔ اب تحریک انصاف کی قیادت بنیرے سے اتر آئے اور چپ کا روزہ رکھ کر محرومی کے روزہ داروں کی افطاری کا انتظام کرے۔ ہمارے ہاں وزیراعظم کئی آئے، قائداعظم ایک ہی آئے۔ کم از کم بانیٔ پاکستان کی ہدایات پر بھی کوئی عاملِ اعظم آجاتا تو آج یہ حالت نہ ہوتی کہ کتنا عرصہ تو سر کو ڈھانپا تو پائوں ننگے، پائوں کو ڈھانپا تو سر ننگا اور آج کل تو سرے سے چادر ہی غائب اور ’’قیس تصویر کے پردے میں بھی عریاں نکلا‘‘۔پوزیشن تو تندیٔ بادِ مخالف ہوتی ہے مگر کیا وجہ ہے کہ ہمارا عقاب کنٹینر ہی سے نہیں اترتا۔ سچ پوچھو تو اس وقت:ہیں ’’تنگ‘‘ بہت بندئہ مزدور کے اوقات، اور اسی پر طرہ یہ کہ متوسط طبقہ بھی بندئہ مزدور ہو چکا ہے۔ جس خوبصورت روانی سے مریم اورنگزیب اور احسن اقبال حکومت پر تنقید کرتے ہیں ضرور پچھلے جنم میں یہ بہن بھائی رہے ہوں گے، خان صاحب ان کے فرمودات سے فائدہ اٹھائیں، بُرا نہ منائیں۔

٭ ٭ ٭ ٭ ٭

ہمیں تو لوٹ لیا تُو تڑاک والوں نے

ہم نہیں چاہتے کہ حزبِ اختلاف و اقتدار کے لفظی حُسنِ انتخاب کا کوئی ایک نمونہ بھی پیش کریں کہ قلم سے آواز آئی کوئی شرم ہوتی ہے کوئی حیا ہوتی ہے، خواجہ آصف کے صرف اس قولِ زریں سے بھی سبق سیکھا جائے تو بےشرمی و بےحیائی کے چشمے خشک ہو جائیں اور ہمیں ہماری کھوئی ہوئی اخلاقیات واپس مل جائے۔ صرف حسینوں کو استثنا حاصل ہے کہ ان سے حُسنِ اخلاق کا مطالبہ نہ کیا جائے، باقی تمام سے تو ہم بھی توقع رکھیں گے وہ لفظوں کے انتخاب میں احتیاط برتیں، ہماری نئی نسل ہمیں سن رہی ہے، کہیں وہ پرانی نسل نہ بن جائے۔ ہمارے ہاں ٹاک شوز جس طرح یکدم آگ پکڑ لیتے ہیں ’’ایک ہم ہی نہیں تنہا‘‘ فارمولے کے تحت ہم نے اپنے اطمینان کے لئے مغربی اور یورپین ممالک کے ٹاک شوز کا تعاقب کیا مگر ان کے کسی ٹاک شو میں یہ عالم ’’حسنِ گفتار‘‘ کا نہ دیکھا جو ہمارے ہاں شو چھڑتے ہی چھڑ جاتا ہے البتہ بیرونی اسمبلیوں میں کبھی کبھی ہمارا رنگ جھلکتا نظر آ جاتا ہے جس سے دل کو اک گونہ سکون مل جاتا ہے۔ اگر پچھلوں نے کچھ نہ کیا تو آپ چپکے سے کچھ کر دکھائیں۔ یہ اقتدار میں آ کر بھی بےاقتداروں، بیروزگاروں جیسی باتیں کرنا زیب نہیں دیتا۔ اگر پانچ سال اسی طرح گزر گئے تو غریب عوام گزر جائیں گے، پھر اقتدار کی بھیک مانگنے کس کے در پر جائیں گے۔ اس لئے غریبوں کی اتنی حفاظت تو کرو کہ وہ بیلٹ باکس تک جا سکیں۔

٭ ٭ ٭ ٭ ٭

تصویری ڈاکٹری

٭وزیراعلیٰ بزدار: کوئی اے بی سی پلان نہیں صرف ترقی کا منصوبہ کامیاب ہوگا۔

فرق اتنا ہے کہ جسے آپ ترقی کا منصوبہ کہتے ہیں وہ اسے اے بی سی پلان کہتے ہیں۔

٭اسٹیٹ بینک: موجودہ لہر مہنگائی میں کمی کا امکان متاثر کر سکتی ہے۔

حکومت کی بچت مہنگائی میں کمی ہی سے ممکن ہے ورنہ یہ لہر سب کچھ بہا لے جائے گی۔

٭فردوس عاشق اعوان: تصویریں بتا رہی ہیں نواز شریف کی صحت کو کیا خطرات ہیں۔

اگر تصویروں سے بیماری کا پتا چلتا تو ہر مریض اپنی تصویر دیکھتا ڈاکٹر کے پاس نہ جاتا۔

٭ ٭ ٭ ٭ ٭

تازہ ترین