• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مسلم لیگ (ن) کی حکومت کے آخری چند ماہ میں اس وقت کے پنجاب کے وزیر اعلیٰ میاں شہباز شریف صوبہ میں کئی سرکاری اسپتالوں کا افتتاح کر رہے تھے اور کئی سرکاری اسپتالوں کو اپ گریڈ بھی کیا جا رہا تھا۔

عزیز قارئین! آپ حیران ہو رہے ہوں گے کہ کبھی کوئی اسپتال بھی عظیم ہوتا ہے۔ اسپتال کے لئے جدید کا لفظ تو استعمال کیا جا سکتا ہے مثلاً جدید اسپتال، بہترین اسپتال، سہولتوں سے مزین اسپتال، یہ لفظ عظیم ہم نے کیوں لکھا ہے تو عرض ہے کہ چھوٹے میاں صاحب جب صوبہ پنجاب کے حکمران تھے تو انہوں نے لاہور کے نزدیک ایک گائوں (خیر اب وہ گائوں نہیں رہا) کاہنہ کے ایک سرکاری اسپتال کا افتتاح کرتے ہوئے فرمایا کہ ’’کاہنہ کے لوگو آج میں آپ کو اس عظیم اسپتال کے افتتاح کے موقع پر مبارکباد پیش کرتا ہوں۔ یہ عظیم اسپتال اس لئے ہے کہ یہاں پر ہزاروں لاکھوں مریض آئیں گے، یہ اسپتال اس لئے عظیم نہیں کہ یہ ہزاروں بستروں کا ہو گا یہ صرف سو بستروں کا اسپتال ہے جہاں پر دنیا کے کسی بھی جدید اسپتال کی تمام سہولتیں موجود ہیں۔ دنیا کے کسی بھی اسپتال میں جو جدید ترین مشینری، بہترین لیبارٹری، بہترین کلینکل ٹیسٹ کی سہولت، بہترین نرسیں اور ڈاکٹرز ہیں وہ سب اس ’’عظیم‘‘ اسپتال میں ہیں اور اس اسپتال میں ہر طرح کی بیماری کا علاج ہو سکے گا۔‘‘ اگر کاہنہ جیسے پسماندہ علاقے میں دنیا کا بہترین اسپتال موجود ہے تو پھر بڑے میاں صاحب کو لندن لے جانے کی کیا ضرورت تھی؟ اور پھر سولہ دن سروسز اسپتال میں بھی کیوں رکھا گیا؟ ہمارے حکمران بھی جوشِ خطابت میں ایسے ایسے دعوے کر جاتے ہیں جو کبھی پورے نہیں ہوتے۔ ذوالفقار علی بھٹو نے ملک میں مفت تعلیم کا نعرہ لگایا تھا جو آج تک پورا نہیں ہوا۔ ضیاء الحق نے مسجد مکتب شروع کئے، آج ان کا کچھ پتا نہیں۔ آج پورے ملک میں سرکاری سیکٹر میں بھی فیسیں کئی ہزار ہو چکی ہیں۔ نواز شریف نے لاہور کو پیرس بنانے کا وعدہ کیا تھا، لاہور پیرس کیا بننا تھا وہ آج دہلی کے بعد دنیا کا گندا اور آلودہ ترین شہر ہے۔ کسی زمانے میں استنبول اور لاہور کو جڑواں شہر کہا گیا۔ استنبول کا مقابلہ آپ لاہور کے ساتھ کرکے دیکھ لیں۔ استنبول کے شہر کی ترقی اور خوبصورتی آج کہاں ہے؟ وہ لاہور جو کبھی باغات اور تاریخی مقامات کا شہر تھا آج گرد و غبار کا شہر ہے۔ چھوٹے میاں صاحب ہر سرکاری اسپتال کے افتتاح یا اس کے دورے پر ہمیشہ یہ کہا کرتے تھے کہ یہ اسپتال دنیا کے جدید ترین اسپتالوں میں سے ہےلیکن اس کے باوجود نواز شریف کے بعض ٹیسٹ پاکستان کے کسی بھی اسپتال میں نہ ہو سکے۔

اب اصل کہانی کیا ہے یہ تو رب ہی جانتا ہے یا پھر جو اس کہانی کے اہم کردار ہیں وہ جانتے ہیں۔ بہرحال لندن جاتے ہوئے بڑے میاں صاحب کافی ہشاش بشاش تھے۔ یہ کہانی بھی کبھی سامنے آ جائے گی۔ نواز شریف کو نجی ایئرلائنز کی جو ایئر ایمبولنس لینے لاہور آئی، پاکستان کا ایک بھی اسپتال اس ایئر ایمبولنس کے معیار کا بھی نہیں۔ اس ایئر ایمبولنس کی زیادہ تصاویر تو وائرل نہیں ہوئیں، جو چند ایک تصاویر وائرل ہوئی ہیں اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ایئر ایمبولنس میں دنیا کا جدید ترین آپریشن تھیٹر اور اس کا اندرونی ماحول کسی بھی سیون سٹار ہوٹل سے کم نہیں۔

بڑے میاں صاحب تو کھرب پتی ہیں انہوں نے کروڑوں روپے خرچ کر کے ایئر ایمبولنس منگوا لی، کبھی سوچا ہے کہ اس غریب ملک کے لوگوں کو علاج کی کیا سہولتیں حاصل ہیں۔ ایک وڈیو پچھلے دنوں بڑی وائرل ہوئی کہ پاکستان کے کسی علاقے میں لوگ ایک لاش چارپائی پر رکھ کر دریا کے آر پار بندھی ہوئی رسی کو پکڑ کر دریا پار کر رہے تھے۔ غریب کے لئے چارپائی اور موٹر سائیکل بھی ایمبولنس ہے۔ میو اسپتال میں مریضوں کے لواحقین خود اسٹریچر پر مریضوں کو لے کر جاتے ہیں۔ ووٹ دینے والا جدید علاج سے محروم ہے اور ووٹ سے منتخب ہونے والا جدید ترین ایئر ایمبولنس میں جا رہا ہے۔ غریبوں کی محرومیاں پچھلے 72برس سے کوئی کم نہ کر سکا۔

نون لیگ نے مجموعی طور پر 35برس اس صوبے اور ملک پر حکمرانی کی اور ایک بھی ایئر ایمبولنس کے معیار جیسا اسپتال نہیں بنا سکے۔ ایک بھی اسپتال لندن، امریکہ اور ترکی کے اسپتالوں کا مقابلہ نہیں کر سکتا۔ ترکی کا ذکر ہم نے اس لئے کیا کہ نون لیگ کے حکمران ترکی کے حکمرانوں کے بہت قریب تھے اور اپنے دورِ اقتدار میں شہباز شریف ترکی بہت آ جا رہے تھے۔ آج ہمارے اسپتال صحت دینے کے بجائے مریضوں کو مزید بیمار کر دیتے ہیں۔ ہمارے مشاہدے میں کئی واقعات ہیں کہ مریض مزید بیمار ہو کر آئے۔ آج پاکستان کے سرکاری اسپتالوں میں انفیکشن کا ریٹ سب سے زیادہ ہے۔ اسپتالوں میں مختلف طرح کے انفیکشن ہیں جو صحت مند انسان کے لئے تو خطرناک ہیں ہی، مریضوں کیلئے انتہائی خطرناک اور جان لیوا ہیں۔ کاش نون لیگ اور پیپلز پارٹی والے اپنے دورِ اقتدار میں بہترین اسپتال بناتے تو آج نواز شریف، آصف علی زرداری اور غریب عوام کو علاج کی بہترین سہولتیں حاصل ہوتیں۔ لگتا ہے کہ نواز شریف کے بعد آصف زرداری کو بھی علاج کی غرض سے اب باہر جانا پڑے گا۔

صوبہ سندھ میں ٹائیفائیڈ کی نئی ویکسین بچوں کو لگانا شروع کر دی گئی ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ دیگر صوبوں میں بھی ٹائیفائیڈ کی یہ نئی ویکسین لگانی شروع کر دی جائے۔

تازہ ترین