• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان کی سیاسی تاریخ کا ایک المیہ یہ بھی ہے کہ یہاں مثبت سیاسی روایتیں سماج میں اپنی جڑیں نہیں بنا پاتیں۔ ہم ایک قدم آگے بڑھاتے ہیں تو کچھ عرصے بعد دو قدم پیچھے دھکیل دیے جاتے ہیں، یوں 72سال گزرنے کو آئے ہیں کہ ہم جہاں آزاد ہوئے تھے، تقریباً وہیں کھڑے ہیں۔ پاکستان کے حکمران، ملک کے سیاسی ڈھانچے کو اپنی منشا کے مطابق تبدیل کرنے کی اہلیت رکھتے ہیں اور ہر دور میں روایتی سیاسی پارٹیوں کی کمر توڑ کر ایک نئی سیاسی پارٹی قائم کر لیتے ہیں جس سے کچھ عرصے میں حاصل کی ہوئی سیاسی بالیدگی پاش پاش ہو جاتی ہے۔ حالیہ دور میں مسلم لیگ (ق) اور بلوچستان عوامی پارٹی کی تشکیل اس کی واضح مثالیں ہیں۔ اسی سیاسی تنزلی کی بڑی وجہ بیان کرتے ہوئے چوہدری پرویز الہٰی نے اپنے حالیہ انٹرویو میں شکایت کی ہے کہ اربابِ اختیار نے ہمارے بندے جمع کرکے تحریک انصاف میں ڈالے۔ سیاسی مبصرین کو اب اس بات کا انتظار ہے کہ وہ بندے جو مسلم لیگ (ن)، پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ق) سے اکٹھے کر کے تحریک انصاف میں جمع کیے گئے تھے ان کی لاٹری کس نئی سیاسی پارٹی کے نام کھلتی ہے۔ 2018ء کے الیکشن سے کچھ عرصہ پہلے راتوں رات ہی بلوچستان عوامی پارٹی (BAP) کا قیام عمل میں لایا گیا۔ مسلم لیگ (ن) کا وزیراعظم ہوتے ہوئے بھی صوبائی اسمبلی کے ذریعے مسلم لیگ (ن) کی جگہ بلوچستان عوامی پارٹی (BAP) کا وزیراعلیٰ منتخب کروایا گیا۔ ان کے نام 6سینیٹرز کی لاٹری بھی کھلی اور پھر انہیں2018ء کے الیکشن کے بعد بلوچستان کی حکومت بھی سونپ دی گئی حالانکہ بلوچستان کے مختلف اضلاع میں اس پارٹی کی اس سے پہلے کوئی منظم تنظیم سازی نہ تھی۔ ساتھ ہی ساتھ اس پارٹی کو سینیٹ کے چیئرمین کا عہدہ بھی پلیٹ میں رکھ کر دیا گیا اس تحریک میں تحریک انصاف اور پیپلز پارٹی بھی پیش پیش تھیں۔ سونے پہ سہاگہ کہ وہ پارٹی جس کا نام ہی صرف بلوچستان کے ساتھ وابستہ ہے اس کو سابقہ فاٹا کے اضلاع میں صوبائی الیکشن کے بعد مزید تین سیٹوں سے نوازا گیا حالانکہ اس نام کی بازگشت کم از کم خیبر پختونخوا میں دور دور تک سنائی نہیں دیتی تھی۔ اسی تسلسل کو قائم رکھتے ہوئے 2018ء کے الیکشن سے پہلے ایک ایسی مذہبی تنظیم کو سیاسی جماعت میں بدلا گیا جس کا مقصد مسلم لیگ (ن) کے ووٹ کو پنجاب میں تقسیم کرنا مقصود تھا اور پھر الیکشن کے بعد اس کو ماضی کا حصہ بنا دیا گیا۔ ان اقدامات کے خلاف مولانا فضل الرحمٰن اورا سفند یار ولی نے 2018ء کے الیکشن کے بعد پہلی اے پی سی میں یہ مطالبہ کیا کہ اسمبلیوں میں حلف نہ اٹھایا جائے۔ اس امر میں ناکامی کے ایک سال بعد مولانا نے اپنے آزادی مارچ کا اعلان کیا۔ مولانا سے ہزار ہا اختلاف کے باوجود یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ انہوں نے حکمران طبقوں کی سیاست کے دائرے میں رہتے ہوئے، انہی کے بنائے ہوئے قواعد و ضوابط کے مطابق ایک ایسی مزاحمتی تحریک چلا رکھی ہے جس نے حکمرانوں کے تضادات کو عوام کے سامنے کھول کر رکھ دیا ہے جبکہ حکمرانوں کو آزادی مارچ نے یہ سمجھانے کی کوشش کی ہے کہ مفاہمت میں ہی سب کی بہتری ہے۔ اب یہ نہیں معلوم کہ حکومت اور مولانا کے مابین کچھ سمجھوتا ہوا ہے یا ہونے جارہا ہے لیکن یہ حقیقت روز روشن کی طرح آشکار ہو گئی ہے کہ حکومت کو عوامی حمایت حاصل نہیں ہے۔ آزادی مارچ کے جذباتی سفر کے جزوی طور پر ختم ہونے کے ساتھ ساتھ اب ایک سیاسی سفر شروع ہو گیا ہے۔ جذبات کی بھاپ نکالنے اور کشیدگی کو کم کرنے کی حد تک تو اہل اقتدار بھی آزادی مارچ سے ناخوش نہیں۔ سیاست کا ایک اہم جزو یہ بھی ہے کہ حکمرانوں کی پالیسیوں کے خلاف اس کا اظہار بھی سیاسی میدان میں اور سیاسی رویوں کے ساتھ کیا جائے تاکہ وہ سیاسی جذباتی سفر سیاست کا حصہ بھی بن جائے اور اس سے سیاسی ارتقا کو بھی فائدہ ہو لیکن اس کے ساتھ ساتھ پاکستان کے عوام کیلئے اہم سوال، سیاسی فکر کی ہم آہنگی کا بھی ہے۔ آزادی مارچ کے بعدکیا موجودہ حکمران اور حزبِ اختلاف کی پارٹیاں پاکستانی سماج کو ایسے سفر پر گامزن کر سکیں گی جو پاکستان کے موجودہ سیاسی ڈھانچے کو ایک ارتقا پذیر جمہوری ڈھانچے میں تبدیل کر دے۔ اس کا انحصار حزب اختلاف کے آئندہ رویے پر ہوگا۔ آزادی مارچ سے حزب اختلاف کی تقریباً تمام پارٹیوں نے اپنے کچھ نہ کچھ اہداف بھی حاصل کر لیے ہیں جس میں خاص طور پر صاف و شفاف الیکشن کیلئے راہ ہموار کرنا بھی شامل ہے۔ سیاسی مبصرین کا آزادی مارچ سے ایک مطالبہ یہ بھی تھا کہ وہ پُرامن رہنے کے ساتھ ساتھ ان کے اہداف بھی آئین کے مطابق ہونے چاہئیں۔ شاید اسی وجہ سے اس سیاسی گرما گرمی کی فضا میں مسلم (ن) کے لیڈر احسن اقبال نے نئے انتخابات کا مطالبہ کیا جو عین جمہوری، سیاسی اور آئینی ہے۔ اب اگر حزب اختلاف کی تمام پارٹیاں ایک پلیٹ فارم پر متحد ہو کر اے پی سی کو ایک مربوط ادارے کی شکل دے لیں تو یہ اہداف حاصل کیے جا سکتے ہیں۔ آئندہ آنے والے وقت میں یہ بعید نہیں ہے کہ تحریک انصاف بھی سیاسی میدان میں حکومت کے بغیر بھی سیاست میں حصہ لے۔ اس وقت دوسری سیاسی پارٹیوں اور سیاسی مدبرین کا یہ فرض بنتا ہے کہ تحریک انصاف کو اپنے ساتھ شامل کرکے سیاسی پختگی کے اسباق اس کو سکھائیں تاکہ وہ آنے والی سیاست میں مثبت کردار ادا کر سکے۔ یاد رہے کہ بیسویں صدی کی سب سے بڑی سیاسی شخصیت نیلسن منڈیلا تھے جنہوں نے 37سال جیل میں گزارنے کے باوجود سفید فام سیاسی پارٹی کو سیاسی بالیدگی حاصل کرنے کا موقع مہیا کیا۔ کسی سے کوئی انتقام نہیں لیا کیونکہ وہ ایک ایسے سماج کے متمنی تھے جہاں ہر نسل، رنگ، طبقات اور قومیں مل کر سماج کو ترقی کی راہ پر گامزن کر سکیں۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین