• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ایک زمانہ تھا جب پیپلز پارٹی سیاست و صحافت میں سیکرٹ فنڈز کے استعمال کی مخالفت کیا کرتی تھی۔ 1990ء کے ا نتخابات میں آئی ایس آئی کے سیکرٹ فنڈ کے ذریعہ پیپلز پارٹی کو شکست ہوئی تو محترمہ بینظیر بھٹو نے کہا تھا کہ انتخابات کو چرا لیا گیا۔ بعد ازاں انہوں نے کئی مرتبہ وفاقی وزارت اطلاعات کے سیکرٹ فنڈ پر بھی تنقید کی۔ افسوس کہ آج پیپلز پارٹی کے کچھ وزراء سیکرٹ فنڈ کو اپنی اصل طاقت سمجھتے ہیں اور سیکرٹ فنڈ کی مخالفت کرنے والوں کو اپنا دشمن سمجھتے ہیں۔ گزشتہ جمعہ کو پارلیمنٹ ہاؤس میں ایک صحافی نے وفاقی وزیر اطلاعات قمر زمان کائرہ کو بتایا کہ وہ کسی بیماری کا شکار ہے۔ ڈاکٹروں نے آپریشن تجویز کیا ہے لیکن مالی حالات آپریشن کی اجازت نہیں دیتے لہٰذا اس کی مدد کی جائے۔وزیر اطلاعات چاہتے تو صحافی کی مدد کا راستہ نکال سکتے تھے لیکن انہوں نے جھٹ سے ا س بے چارے کو کہا کہ آپ حامد میر کے پاس جائیں میرے پاس کیا لینے آئے ہیں؟ صحافی نے کہا کہ میں حامد میر کے پاس کیوں جاؤں؟ وزیر اطلاعات صاحب نے کہا کہ ہمارا ایک سیکرٹ فنڈ ہوا کرتا تھا ہم صحافیوں کی مدد وہیں سے کرتے تھے لیکن حامد میر اور ابصار عالم نے سپریم کورٹ میں ہمارے خلاف درخواست دائر کرکے اس سیکرٹ فنڈ کو منجمد کرادیا ہے میں آپ کی کوئی مدد نہیں کرسکتا۔ آپ حامد میر کے پاس جاکر روئیں یا جاکر چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کو اپنا دکھڑا سنائیں۔ وزیر اطلاعات ہونے کے باوجود کائرہ صاحب کو آج تک معلوم نہیں کہ ہماری درخواست کی سماعت چیف جسٹس صاحب نے نہیں جسٹس خلجی عارف اور جسٹس جواد ایس خواجہ نے کی تھی اور سیکرٹ فنڈ منجمد کرنے کا حکم بھی انہی دو جج صاحبان نے جاری کیا تھا۔ میرا جرم صرف اتنا ہے کہ میں نے اپنے آپ کو احتساب کے لئے پیش کرتے ہوئے سپریم کورٹ سے استدعا کی تھی کہ تمام ٹی وی اینکرز، چینل مالکان اور اشتہاری ایجنسیوں کا احتساب ہونا چاہئے کیونکہ آئندہ انتخابات میں میڈیا پر اثر انداز ہونے کے لئے اربوں روپے کے سیکرٹ فنڈ تشکیل دئیے جارہے ہیں۔ میں نے سپریم کورٹ سے درخواست کی تھی کہ وزارت اطلاعات سے پوچھا جائے کہ اس کا سیکرٹ فنڈ کہاں کہاں اور کیسے کیسے استعمال ہوتا ہے؟ سپریم کورٹ نے و زارت اطلاعات سے سیکرٹ فنڈ کی تفصیل پوچھی تو قومی مفاد کے نام پر تفصیل بتانے سے انکار کردیا گیا۔ جب ہم نے کچھ تفصیل عدالت کو بتائی تو وزارت نے کہا کہ سیکرٹ فنڈ صحافیوں کی فلاح و بہبود کے لئے استعمال کیا جاتا ہے۔ ایک معزز جج نے پوچھا کہ اگر یہ فنڈ صحافیوں کی فلاح و بہبود پر خرچ ہوتا ہے تو پھر اسے سیکرٹ فنڈ کی بجائے ویلفیئر فنڈ کیوں نہیں کہا جاتا؟ وزارت اطلاعات کے وکیل کے پاس اس سوال کا کوئی جواب نہیں تھا۔ وکیل صاحب نے یہ اعتراف بھی کیا کہ سیکرٹ فنڈ کے علاوہ سپیشل پبلسٹی فنڈ کا حساب کتاب بھی خفیہ رکھا جاتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ اگر کائرہ صاحب کو صحافیوں کی فلاح و بہبود کا اتنا ہی شوق ہے تو وہ سیکرٹ فنڈ کو ویلفیئر فنڈ میں تبدیل کیوں نہیں کرتے؟ وہ ایسا نہیں کرسکتے کیونکہ سب جانتے ہیں کہ سیکرٹ فنڈ کا اصل مقصد کیا ہے؟2002ء میں پیپلز پارٹی کے رہنما نیئر حسین بخاری نے وزارت اطلاعات کے سیکرٹ فنڈ کے غلط استعمال کے خلاف ایک ریفرنس احتساب بیورو کو بھجوایا تھا۔ 2002ء کے انتخابات سے قبل پیپلز پارٹی نے جو منشور جاری کیا تھا اس میں وعدہ کیا گیا تھا کہ اقتدار میں آکر وزارت اطلاعات ختم کردی جائے گی تاکہ میڈیا میں کرپشن کا راستہ روکا جائے۔
ستم ظریفی دیکھئے کہ2008ء میں پیپلز پارٹی اقتدار میں آئی تو اپنے اکثر وعدے بھول گئی۔ آج پیپلز پارٹی کا وزیر اطلاعات سیکرٹ فنڈ منجمد ہونے پر خود کو بے اختیار قرار دیتا ہے جس حکومت کے و زراء کی اصل طاقت سیکرٹ فنڈز بن جائیں اس حکومت پر آپ کتنا اعتماد کرسکتے ہیں؟ سیاسی حکومتوں کی اصل طاقت سیکرٹ فنڈز نہیں بلکہ ان کا سیاسی نظریہ ہوتا ہے؟ پیپلز پارٹی کا سیاسی نظریہ کدھر گیا؟ وہ منشور کدھر گیا جس میں وزارت اطلاعات کے خاتمے کا وعدہ شامل کیا گیا تھا؟ ایک زمانے میں کائرہ صاحب کی پہچان ان کا سیاسی نظریہ اور سیاسی کردار ہوا کرتا تھا۔ اب ان کی پہچان یہ ہے کہ ایک دن پریس کانفرنس میں ڈاکٹر طاہر القادری کی نقلیں اتارتے ہیں اور ان کا مذاق اڑاتے ہیں اگلے دن اسی ڈاکٹر طاہر القادری کے ساتھ لپٹ لپٹ جاتے ہیں۔ ایک دن اے این پی کی آل پارٹیز کانفرنس میں کہا جاتا ہے کہ طالبان کے ساتھ مذاکرات کئے جائیں لیکن جب طالبان نواز شریف، مولانا فضل الرحمن اور سید منور حسن کو ضامن بنانے کا مطالبہ کرتے ہیں تو کہا جاتا ہے کہ نواز شریف نے انتہا پسند تنظیموں کے ساتھ اتحاد کرلیا ہے۔
زیادہ پرانی بات نہیں،1993ء میں پیپلز پارٹی نے فاروق لغاری کو صدر بنوانا تھا تو مولانا اعظم طارق کی محترمہ بینظیر بھٹو سے ملاقات کروائی گئی تھی۔ اس ملاقات کے بعد مولانا اعظم طارق نے کلاشنکوفوں کے ایک درجن لائسنس حاصل کئے تھے۔ بعدازاں پیپلز پارٹی اور متحدہ دینی محاذ کے درمیان ایک تحریری معاہدہ ہوا جس پر پیپلز پارٹی کی طرف سے فاروق لغاری، آصف زرداری اور شیرپاؤ کے دستخط تھے جبکہ دینی محاذ کی طرف سے مولانا سمیع الحق، مولانا شہید احمد اور مولانا اعظم طارق کے دستخط تھے ۔ اس معاہدے کے تحت پیپلز پارٹی نے قومی اسمبلی میں ناموس صحابہ بل کی حمایت کا وعدہ کیا اور پنجاب میں سپاہ صحابہ کے رکن صوبائی اسمبلی ریاض حشمت جنجوعہ کو وزیر اعلیٰ منظور وٹو کا مشیر بنایا گیا۔ جب پیپلز پارٹی نے وٹو کو نکال کر سردار عارف نکئی کو وزیر اعلیٰ پنجاب بنوایا تو سپاہ صحابہ کے شیخ حاکم علی کو پنجاب میں وزیر بنادیا گیا۔ پیپلز پارٹی اور سپاہ صحابہ کے اس سیاسی اتحاد پر سپاہ صحابہ میں بغاوت ہوگئی اور لشکر جھنگوی کا قیام عمل میں آیا۔ یہی وہ زمانہ تھا جب پیپلز پارٹی کی حکومت نے افغانستان میں طالبان کی حمایت شروع کردی۔ اسی زمانے میں وزیر داخلہ نصیر اللہ بابر اور ایف آئی ا ے کی سربراہ رحمان ملک نے مجھے اور نصرت جاوید کو طالبان کے حق میں ایک بریفنگ دی اور میری قندھار میں ملا عمر کے ساتھ ملاقات کا اہتمام بھی کیا۔ مجھے یاد ہے کہ اس وقت ریاض پیرزادہ پیپلز پارٹی میں تھے۔ ان کے والد میاں شاہنواز کے قتل کے مقدمے میں مولانا اعظم طارق اور مولانا ضیاء الرحمان فاروقی کو گرفتار کرلیا گیا اور یوں سپاہ صحابہ اور پیپلز پارٹی میں فاصلے بڑھ گئے۔ تاریخ یہ بتاتی ہے کہ پیپلز پارٹی نے اپنی ضرورت کے مطابق کبھی تحریک جعفریہ کے ساتھ ا تحاد کیا کبھی سپاہ صحابہ کے ساتھ اتحاد کیا لیکن پھر بھی خود کو ایک لبرل جماعت کہتی ہے۔ یہ دونوں جماعتیں پابندی کے بعد نئے ناموں سے کام کررہی ہیں، اگر مسلم لیگ (ن) ان میں سے کسی جماعت کے قریب چلی جا ئے تو قمر زمان کائرہ صاحب شور مچادیتے ہیں کہ پنجاب حکومت نے دہشتگردوں کے ساتھ اتحاد کررکھا ہے۔ دو روز قبل لشکر جھنگوی کے ایک رہنما ملک ا سحاق کو رحیم یار خان میں نظر بند کیا گیا کیونکہ ان پر اشتعال انگیز تقاریر کرنے کا الزام تھا۔ ملک اسحاق اور ان کے دو بیٹوں سے جو اسلحہ برآمد ہوا اس کے لائسنس پچھلے چار سال میں وفاقی حکومت، سندھ حکومت اور بلوچستان حکومت کے جاری کردہ ہیں۔ کائرہ صاحب یہ بھی پتہ کروائیں کہ ملک اسحاق اور ان کے کچھ ساتھیوں کو بڑی بڑی گاڑیوں کے تحفے کس نے دئیے؟یہ تحفے ایک ایسے صاحب نے دئیے جو اپنے سیکرٹ فنڈ کے ذریعہ مسلم لیگ(ن) مسلم لیگ فنکشنل، مسلم لیگ ہم خیال ،تحریک انصاف اور جمعیت علماء اسلام کے علاوہ اے این پی کے ارکان اسمبلی کو خرید خرید کر پیپلز پارٹی میں شامل کرنے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔ میں بڑے ادب سے جناب قمر زمان کائرہ صاحب کو یاد دلانا چاہتا ہوں کہ پیپلز پارٹی کی اصل طاقت سرکاری و غیر سرکاری سیکرٹ فنڈز نہیں بلکہ ذوالفقار علی بھٹو کا نظریہ ہے۔ افسوس کہ ذوالفقار علی بھٹو کے نظریے کو چھوڑ کر بھٹو کے دشمنوں کو گلے لگایا جارہا ہے۔آج کی پیپلز پارٹی کے وزراء پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز کا نام ذوالفقار علی بھٹو کے نام پر رکھ کر سمجھتے ہیں کہ ان کا ووٹ بنک محفوظ ہوگیا۔ ووٹ بنک محفوظ بنانا ہے تو سیکرٹ فنڈز پر انحصار کرنا چھوڑو۔ ایم این اے خرید خرید کر دوبارہ حکومت میں آنے والے کیا کچھ نہیں بیچ ڈالیں گے؟ وقت بدل رہا ہے، سیکرٹ فنڈز کے ذریعہ سیاست و صحافت کو کنٹرول کرنے کا دور آخری ہچکیاں لے رہا ہے۔ سیکرٹ فنڈز بھی ختم ہونے والے ہیں اور ان فنڈز کو چلانے والوں کا بھی چل چلاؤ ہے۔
تازہ ترین